Surah

Information

Surah # 49 | Verses: 18 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 106 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِنۡ طَآٮِٕفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا‌ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮهُمَا عَلَى الۡاُخۡرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِىۡ تَبۡغِىۡ حَتّٰى تَفِىۡٓءَ اِلٰٓى اَمۡرِ اللّٰهِ ‌ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا بِالۡعَدۡلِ وَاَقۡسِطُوۡا ؕ‌ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُقۡسِطِيۡنَ‏ ﴿9﴾
اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم ( سب ) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالٰی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔
و ان طاىفتن من المؤمنين اقتتلوا فاصلحوا بينهما فان بغت احدىهما على الاخرى فقاتلوا التي تبغي حتى تفيء الى امر الله فان فاءت فاصلحوا بينهما بالعدل و اقسطوا ان الله يحب المقسطين
And if two factions among the believers should fight, then make settlement between the two. But if one of them oppresses the other, then fight against the one that oppresses until it returns to the ordinance of Allah . And if it returns, then make settlement between them in justice and act justly. Indeed, Allah loves those who act justly.
Aur agar musalmanon ki do jamaten aapas mein larr paren to unn mein mail milaap kerwa diya kero. Phir agar unn dono mein say aik jamat doosri jamat per ziyadti keray to tum ( sab ) uss giroh say jo ziyadti kerta hai laro.yahan tak kay woh Allah kay hukum ki taraf lot aaye, agar lot aaye to phir insaf kay sath sulah kerado aur adal kero be-shak Allah Taalaa insaf kerney walon say mohabbat kerta hai.
اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کر رہا ہو ، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ۔ چنانچہ اگر وہ لوٹ آئے ، تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرادو ، اور ( ہرمعاملے میں ) انصاف سے کام لیا کرو ، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔
اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ ( ف۱۳ ) پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے ( ف۱٤ ) تو اس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے ، پھر اگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کردو اور عدل کرو ، بیشک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں ،
اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں12 تو ان کے درمیان صلح کراؤ13 ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو14 یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے 15 ۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو 16 ۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے 17 ۔
اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو اُن کے درمیان صلح کرا دیا کرو ، پھر اگر ان میں سے ایک ( گروہ ) دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے تو اس ( گروہ ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے یہاں تک کہ وہ اﷲ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ، پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو ، بیشک اﷲ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :12 یہ نہیں فرمایا کہ جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑیں ، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں ۔ ان الفاظ سے یہ بات خود بخود نکلتی ہے کہ آپس میں لڑنا مسلمانوں کا معمول نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے ۔ نہ ان سے یہ امر متوقع ہے کہ وہ مومن ہوتے ہوئے آپس میں لڑا کریں گے ۔ البتہ اگر کبھی ایسا ہو جائے تو اس صورت میں وہ طریق کار اختیار کرنا چاہیے جو آگے بیان کیا جا رہا ہے ۔ علاوہ بریں گروہ کے لیے بھی فرقہ کے بجائے طائفہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ عربی زبان میں فرقہ بڑے گروہ کے لیے اور طائفہ چھوٹے گروہ کے لیے بولا جاتا ہے اس سے بھی یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ حالت ہے جس میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کا مبتلا ہو جانا متوقع نہیں ہونا چاہیے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :13 اس حکم کے مخاطب وہ تمام مسلمان ہیں جو ان دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوں ، اور جن کے لیے ان کے درمیان صلح کی کوشش کرنا ممکن ہو ۔ دوسرے الفاظ میں ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کی اپنی ملت کے دو گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں اور وہ بیٹھے ان کی لڑائی کا تماشا دیکھتے رہیں ۔ بلکہ یہ افسوسناک صورت حال جب بھی پیدا ہو ، تمام اہل ایمان کو اس پر بے چین ہو جانا چاہیے اور ان کے باہمی معاملات کی اصلاح کے لیے جس کے بس میں جو کوشش بھی ہو وہ اسے صرف کر ڈالنی چاہیے ۔ فریقین کو لڑائی سے باز رہنے کی تلقین کی جائے ۔ انہیں خدا سے ڈرایا جائے ۔ با اثر لوگ فریقین کے ذمہ دار آدمیوں سے جا کر ملیں ۔ نزاع کے اسباب معلوم کریں ۔ اور اپنی حد تک ہر وہ کوشش کریں جس سے ان کے درمیان مصالحت ہو سکتی ہو ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :14 یعنی مسلمانوں کا یہ کام بھی نہیں ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دیں اور جس پر زیادتی کی جارہی ہو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں ، یا الٹا زیادتی کرنے والے کا ساتھ دیں ۔ بلکہ ان کا فرض یہ ہے کہ اگر لڑنے والے فریقین میں صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں ، تو پھر یہ دیکھیں کہ حق پر کون ہے اور زیادتی کرنے والا کون ۔ جو حق پر ہو اس کا ساتھ دیں اور جو زیادتی کرنے والا ہو اس سے لڑیں ۔ اس لڑائی کا چونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس لیے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے اس کا شمار اس فتنے میں نہیں ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ القائم فیھَا خیرٌ من الماشی والقاعد فیھا خیر من القائم ( اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے ، اور بیٹھ جانے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہے ) ۔ کیونکہ اس فتنے سے مراد تو مسلمانوں کی وہ باہمی لڑائی ہے جس میں فریقین عصبیت اور حمیت جاہلیہ اور طلب دنیا کے لیے لڑ رہے ہوں اور دونوں میں سے کوئی بھی حق پر نہ ہو ۔ رہی یہ لڑائی جو زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلہ میں برسر حق گروہ کی حمایت کے لیے لڑی جائے ، تو یہ فتنے میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے ۔ تمام فقہاء کا اس کے وجوب پر اتفاق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں اس کے واجب ہونے پر کوئی اختلاف نہ تھا ( احکام القرآن للجصاص ) ۔ بلکہ بعض فقہاء تو اسے جہاد سے بھی افضل قرار دیتے ہیں اور ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا زمانہ خلافت کفار سے جہاد کرنے کے بجائے باغیوں سے لڑنے میں صرف کر دیا ( روح المعانی ) ۔ اس کے واجب نہ ہونے پر اگر کوئی شخص اس بات سے استدلال کرے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان لڑائیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور بعض دوسرے صحابہ نے حصہ نہیں لیا تھا تو وہ غلطی پر ہے ۔ ابن عمر خود فرماتے ہیں کہ :ما وجدت فی نفسی من شئ ما وجدت من ھٰذہِ الاٰیۃ اَنّی لم اقاتل ھٰذہ الفئۃ الباغیۃ کما امرنی اللہ تعالیٰ ، ( المستدرک للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابہ ، باب الدفع عمن قعدوا عن بیعۃ علی ) مجھے اپنے دل میں کسی بات پر اتنی زیادہ کھٹک نہیں ہوئی جتنی اس آیت کی وجہ سے ہوئی کہ میں نے اللہ کے حکم کے مطابق اس باغی گروہ سے جنگ نہ کی زیادتی کرنے والے گروہ سے قتال کرنے کا حکم لازماً یہی معنی نہیں رکھتے کہ اس کے خلاف ہتھیاروں سے جنگ کی جائے اور ضرور اس کو قتل ہی کیا جائے ۔ بلکہ اس سے مراد اس کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا چاہیے ، اور اصل مقصود اس کی زیادتی کا ازالہ ہے ۔ اس مقصد کے لیے جس طاقت کا استعمال ناگزیر ہو اسے استعمال کرنا چاہیے اور جتنی طاقت کا استعمال کافی ہو ، نہ اس سے کم استعمال کرنی چاہیے نہ اس سے زیادہ ۔ اس حکم کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو طاقت استعمال کر کے زیادتی کا ازالہ کرنے پر قادر ہوں ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :15 اس سے معلوم ہوا کہ یہ لڑائی باغی ( زیادتی کرنے والے گروہ ) کو بغاوت ( زیادتی ) کی سزا دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اسے اللہ کے حکم کی طرف پلٹنے پر مجبور کرنے کے لیے ہے ۔ اللہ کے حکم سے مراد یہ ہے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے جو بات حق ہو اسے یہ باغی گروہ قبول کر لینے پر آمادہ ہو جائے اور جو طرز عمل اس میزان حق کی رو سے زیادتی قرار پاتا ہے اس کو چھوڑ دے ۔ جونہی کہ کوئی باغی گروہ اس حکم کی پیروی پر راضی ہو جائے ، اس کے خلاف طاقت کا استعمال بند ہو جانا چاہیے ، کیونکہ یہی قتال کا مقصود اور اس کی آخری حد ہے ۔ اس کے بعد مزید دست درازی کرنے والا خود زیادتی کا مرتکب ہو گا ۔ اب رہی یہ بات کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے ایک نزاع میں حق کیا ہے اور زیادتی کیا ، تو لا محالہ اس کو طے کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو امت میں اور علم اور بصیرت کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرنے کے اہل ہوں ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :16 محض صلح کرا دینے کا حکم نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا حکم ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ صلح کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے جو حق اور باطل کے فرق کو نظر انداز کر کے محض لڑائی روکنے کے لیے کرائی جائے اور جس میں برسر حق گروہ کو دبا کر زیادتی کرنے والے گروہ کے ساتھ بے جا رعایت برتی جائے ۔ صلح وہی صحیح ہے جو انصاف پر مبنی ہو ۔ اسی سے فساد ٹلتا ہے ، ورنہ حق والوں کو دبانے اور زیادتی کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہوتا ہے کہ خرابی کے اصل اسباب جوں کے توں باقی رہتے ہیں ، بلکہ ان میں اور اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ، اور اس سے بار بار فساد برپا ہونے کی نوبت پیش آتی ہے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :17 یہ آیت مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی قانون کی اصل بنیاد ہے ۔ ایک حدیث کے سوا جس کا ہم آگے ذکر کریں گے ، اس قانون کی کوئی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں نہیں ملتی ، کیونکہ حضور کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی کہ آپ کے عمل اور قول سے اس کے احکام کی تفصیلات معلوم ہوتیں ۔ بعد میں اس قانون کی مستند تشریح اس وقت ہوئی جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں خود مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں ۔ اس وقت چونکہ بکثرت صحابہ کرام موجود تھے ، اس لیے ان کے عمل اور ان کے بیان کردہ احکام سے اسلامی قانون کے اس شعبے کا مفصل ضابطہ مرتب ہوا ۔ خصوصیت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اسوہ اس معاملہ میں تمام فقہاء کا اصل مرجع ہے ۔ ذیل میں ہم اس ضابطہ کا ایک ضروری خلاصہ درج کرتے ہیں: 1 ) ۔ مسلمانوں کی باہمی جنگ کی کئی صورتیں ہیں جن کے حکم الگ الگ ہیں ۔ ( الف ) لڑنے والے دونوں گروہ کسی مسلمان حکومت کی رعایا ہوں ۔ اس صورت میں ان کے درمیان صلح کرانا ، یا یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں سے زیادتی کرنے والا کون ہے ، اور طاقت سے اس کو حق کی طرف رجوع پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے ۔ ( ب ) لڑنے والے فریقین دو بہت بڑے طاقتور گروہ ہوں ، یا دو مسلمان حکومتیں ہوں ، اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہوں ۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور فریقین کو خدا کا خوف دلا کر جنگ سے باز رہنے کی نصیحت کرتے رہیں ۔ ( ج ) لڑنے والے وہ فریقین جن کا اوپر ( ب ) میں ذکر کیا گیا ہے ، ان میں سے ایک حق پر ہو اور دوسرا زیادتی کر رہا ہو ، اور نصیحت سے اصلاح پر آمادہ نہ ہو رہا ہو ۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف برسر حق فریق کا ساتھ دیں ۔ ( د ) فریقین میں سے ایک گروہ رعیت ہو اور اس نے حکومت ، یعنی مسلم حکومت کے خلاف خروج کیا ہو ۔ فقہاء اپنی اصلاح استعمال کرتے ہیں ۔ 2 ) ۔ باغی ، یعنی حکومت کے خلاف خروج کرنے والے گروہ بھی متعدد اقسام کے ہو سکتے ہیں: ( الف ) وہ جو محض فساد برپا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے اس خروج کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو ۔ ان کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اس کا ساتھ دینا اہل ایمان پر واجب ہے ، قطع نظر اس سے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو ۔ ( ب ) وہ جو حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے خروج کریں ، اور ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو ، بلکہ ان کا ظاہر حال بتا رہا ہو کہ وہ ظالم و فاسق ہیں ۔ اس صورت میں اگر حکومت عادل ہو تب تو اس کا ساتھ دینا بلا کلام واجب ہے ، لیکن اگر وہ عادل نہ بھی ہو تو اس حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے لڑنا واجب ہے جس کے ذریعہ سے فی الحال مملکت کا نظم قائم ہے ۔ ( ج ) وہ جو کسی شرعی تاویل کی بنا پر حکومت کے خلاف خروج کریں ، مگر ان کی تاویل باطل اور ان کا عقیدہ فاسد ہو مثلاً خوارج ۔ اس صورت میں بھی ، مسلم حکومت ، خواہ وہ عادل ہو یا نہ ہو ، ان سے جنگ کرنے کا جائز حق رکھتی ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب ہے ۔ ( د ) وہ جو ایک عادل حکومت کے خلاف خروج کریں جبکہ اس کے سربراہ کی امارت جائز طور پر قائم ہو چکی ہو ۔ اس صورت میں خواہ ان کے پاس کوئی شرعی تاویل ہو یا نہ ہو ، بہرحال ان سے جنگ کرنے میں حکومت حق بجانب ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب ۔ ( ھ ) وہ جو ایک ظالم حکومت کے خلاف خروج کریں جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں ، اور خروج کرنے والے عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لیے اٹھے ہوں اور ان کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ خود صالح لوگ ہیں ۔ اس صورت میں ان کو باغی یعنی زیادتی کرنے والا گروہ قرار دینے اور ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دینے میں فقہاء کے درمیان سخت اختلاف واقع ہو گیا ہے ، جسے مختصراً ہم یہاں بیان کرتے ہیں ۔ جمہور فقہاء اور اہل الحدیث کی رائے یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہو چکی ہو اور مملکت کا امن و امان نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو ، وہ خواہ عادل ہو یا ظالم ، اور اس کی امارت خواہ کسی طور پر قائم ہوئی ہو ، اس کے خلاف خروج کرنا حرام ہے ، الا یہ کہ وہ کفر صریح کا ارتکاب کرے ۔ امام سرخسی لکھتے ہیں کہ جب مسلمان ایک فرمانروا پر مجتمع ہوں اور اس کی بدولت ان کو امن حاصل ہو اور راستے محفوظ ہوں ، ایسی حالت میں اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ اس کے خلاف خروج کرے تو جو شخص بھی جنگ کی طاقت رکھتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے اس فرمانروا کے ساتھ مل کر خروج کرنے والوں کے خلاف جنگ کرے ( البسوط ، باب الخوارج ) ۔ امام ، لودِی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ ائمہ ، یعنی مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف خروج اور قتال حرام ہے ، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہی کیوں نہ ہوں ۔ اس پر امام نووی اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ لیکن اس پر اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے ۔ فقہائے اسلام کا ایک بڑا گروہ ، جس میں اکابر اہل علم شامل ہیں ، خروج کرنے والوں کو صرف اس صورت میں باغی قرار دیتا ہے جبکہ وہ امام عادل کے خلاف خروج کریں ۔ ظالم و فاسق امراء کے خلاف صلحاء کے خروج کو وہ قرآن مجید کی اصطلاح کے مطابق بغاوت کا مصداق نہیں ٹھہراتے ، اور نہ ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دیتے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ کا مسلک ظالم امراء کے خلاف قتال کے معاملہ میں اہل علم کو معلوم ہے ۔ ابوبکر جصاص احکام القرآن میں صاف لکھتے ہیں کہ امام صاحب اس قتال کو نہ صرف جائز ، بلکہ سازگار حالات میں واجب سمجھتے تھے ( جلد اول ، ص 81 ۔ جلد دوم ، ص 39 ) بنی امیہ کے خلاف زید بن علی کے خروج میں انہوں نے نہ صرف خود مالی مدد دی ، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی ( الجصاص ، ج 1 ص 81 ) ۔ منصور کے خلاف نفس زکیہ کے خروج میں وہ پوری سرگرمی کے ساتھ نفس زکیہ کی حمایت کرتے رہے اور اس جنگ کو انہوں نے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرار دیا ( الجصاص ، ج1 ، ص 81 ۔ مناقب ابی حنیفہ للکردری ، ج2 ، ص71 ۔ 72 ) ۔ پھر فقہائے حنفیہ کا بھی متفقہ مسلک وہ نہیں ہے جو امام سرخسی نے بیان کیا ہے ۔ ابن ہُمام ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ الباغی فی عرف الفقھاْء الخارج عن طاعۃ امام الحق ، فقہاء کے عرف میں باغی وہ ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائے ۔ حنابلہ میں سے ابن عقیل اور ابن الجوزی امام غیر عادل کے خلاف خروج کو جائز ٹھہراتے ہیں اور اس پر حضرت حسین کے خروج سے استدلال کرتے ہیں ( الانصاف ، ج 10 ، باب قتال اہل البغی ) ۔ امام شافعی کتاب الام میں باغی اس شخص کو قرار دیتے ہیں جو امام عادل کے خلاف جنگ کرے ( ج 4 ، ص135 ) ۔ امام مالک کا مسلک المدونہ میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ خروج کرنے والے اگر امام عدل کے خلاف جنگ کرنے کے لیے نکلیں تو ان کے خلاف مقاتلہ کیا جائے ( جلد اول ، ص 407 ) ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں: جب کوئی شخص عمر بن عبدالعزیز جیسے امام عدل کے خلاف خروج کرے تو اس کی دفع کرنا واجب ہے ، رہا کسی دوسری قسم کا امام تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ، اللہ کسی دوسرے ظالم کے ذریعہ سے اس کو سزا دے گا اور پھر کسی تیسرے ظالم کے ذریعہ سے ان دونوں کو سزا دے گا ۔ ایک اور قول امام مالک کا انہوں نے یہ نقل کیا ہے : جب ایک امام سے بیعت کی جا چکی ہو اور پھر اس کے بھائی اس کے مقابلے پر کھڑے ہو جائیں تو ان سے جنگ کی جائے گی اگر وہ امام عادل ہو ۔ رہے ہمارے زمانے کے ائمہ تو ان کے لیے کوئی بیعت نہیں ہے ، کیونکہ ان کی بیعت زبردستی لی گئی ہے پھر مالکی علماء کا جو مسلک سَحْنون کے حوالہ سے قاضی صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ تو صرف امام عدل کے ساتھ مل کر کی جائے گی ، خواہ پہلا امام عادل ہو یا وہ شخص جس نے اس کے خلاف خروج کیا ہو ۔ لیکن اگر دونوں عادل نہ ہوں تو دونوں سے الگ رہو ۔ البتہ اگر تمہاری اپنی جان پر حملہ کیا جائے یا مسلمان ظلم کے شکار ہو رہے ہوں تو مدافعت کرو ۔ یہ مسالک نقل کرنے کے بعد قاضی ابو بکر کہتے ہیں : لا نقاتل الا مع امامٍ عادل یقدمہ اھل الحق لانفسہم ۔ ہم جنگ نہیں کریں گے مگر اس امام عادل کے ساتھ جسے اہل حق نے اپنی امامت کے لیے آگے بڑھایا ہو ۔ 3 ) ۔ خروج کرنے والے اگر قلیل التعداد ہوں اور ان کی پشت پر کوئی بڑی جماعت نہ ہو ، نہ وہ کچھ زیادہ جنگی سر و سامان رکھتے ہوں ، تو ان پر قانون بغاوت کا اطلاق نہ ہوگا ، بلکہ ان کے ساتھ عام قانون تعزیرات کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا ، یعنی وہ قتل کریں گے تو ان سے قصاص لیا جائے گا اور مال کا نقصان کریں گے تو اس کا تاوان ان پر عائد ہوگا ۔ قانون بغاوت کا اطلاق صرف ان باغیوں پر ہوتا ہے جو کوئی بڑی طاقت رکھتے ہوں ، اور کثیر جمیعت اور جنگی سرو سامان کے ساتھ خروج کریں ۔ 4 ) ۔ خروج کرنے والے جب تک محض اپنے فاسد عقائد ، یا حکومت اور اس کے سربراہ کے خلاف باغیانہ اور معاندانہ خیالات کا اظہار کرتے رہیں ، ان کو قتل یا قید نہیں کیا جا سکتا ۔ جنگ ان کے خلاف صرف اس وقت کی جائے گی جب وہ عملاً مسلح بغاوت کر دیں اور خونریزی کی ابتدا کر بیٹھیں ۔ ( المبسوط ، باب الخوارج ۔ فتح القدیر ، باب البغاۃ ۔ احکام القرآن للجصاص ) ۔ 5 ) ۔ باغیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ان کو قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق دعوت دی جائے گی کہ وہ بغاوت کی روش چھوڑ کر عدل کی راہ اختیار کریں ۔ اگر ان کے کچھ شبہات و اعتراضات ہوں تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے گی ۔ اس پر بھی وہ باز نہ آئیں اور مقاتلہ کا آغاز ان کی طرف سے ہو جائے ، تب ان کے خلاف تلوار اٹھائی جائے گی ۔ ( فتح القدیر ۔ احکام القرآن للجصاص ) ۔ 6 ) ۔ باغیوں سے لڑائی میں جن ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے گا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر مبنی ہیں جسے حضرت عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے حاکم ، بزار اور الجصاص نے نقل کیا ہے ۔ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا اے ابن ام عبد ، جانتے ہو اس امت کے باغیوں کے بارے میں اللہ کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ فرمایا ان کے زخمیوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا ، ان کے اسیر کو قتل نہیں کیا جائے گا ، ان کے بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا ، اور ان کا مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا ۔ اس ضابطہ کا دوسرا ماخذ ، جس پر تمام فقہائے اسلام نے اعتماد کیا ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول اور عمل ہے ۔ آپ نے جنگ جمَل میں فتح یاب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرو ، زخمی پر حملہ نہ کرو ، گرفتار ہو جانے والوں کو قتل نہ کرو ، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان دو ، لوگوں کے گھروں میں نہ گھسو ، اور عورتوں پر دست درازی نہ کرو ، خواہ وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دے رہی ہوں ۔ آپ کی فوج کے بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ مخالفین کو اور ان کے بال بچوں کو غلام بنا کر تقسیم کر دیا جائے ۔ اس پر غضب ناک ہو کر آپ نے فرمایا ۔ تم میں سے کون امّ المومنین عائشہ کو اپنے حصہ میں لینا چاہتا ہے؟ 7 ) ۔ باغیوں کے اموال کا حکم ، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسوہ حسنہ سے ماخوذ ہے ، یہ ہے کہ ان کا کوئی مال ، خواہ وہ ان کے لشکر میں ملا ہو یا ان کے پیچھے ان کے گھروں پر ہو ، اور وہ خواہ زندہ ہوں یا مارے جا چکے ہوں ، بہرحال اسے مال غنیمت قرار دیا جائے گا اور نہ فوج میں تقسیم کیا جائے گا ۔ البتہ جس مال کا نقصان ہو چکا ہو ، اسکا کوئی ضمان لازم نہیں آتا ۔ جنگ ختم ہونے اور بغاوت کا زور ٹوٹ جانے کے بعد ان کے مال ان ہی کو واپس دے دیے جائیں گے ۔ ان کے اسلحہ اور سواریاں جنگ کی حالت میں اگر ہاتھ آ جائیں تو انہیں ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا ، مگر فاتحین کی ملکیت بنا کر مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا ، اور اگر ان سے پھر بغاوت کا اندیشہ نہ ہو تو ان کی یہ چیزیں بھی واپس دے دی جائیں گی ۔ صرف امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ حکومت اسے غنیمت قرار دے گی ( المبسوط ، فتح القدیر ۔ الحصاص ) ۔ 8 ) ۔ ان کے گرفتار شدہ لوگوں کو یہ عہد لے کر کہ وہ پھر بغاوت نہ کریں گے ، رہا کر دیا جائے گا ۔ ( المبسوط ) ۔ 9 ) ۔ باغی مقتولوں کے سر کاٹ کر گشت کرانا سخت مکروہ فعل ہے ، کیونکہ یہ مُثلہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس رومی بطیق کا سر کاٹ کر لایا گیا تو آپ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا ہمارا کام رومیوں اور ایرانیوں کی پیروی کرنا نہیں ہے ۔ یہ معاملہ جب کفار تک سے کرنا روا نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ تو یہ بدرجہ اولیٰ ممنوع ہونا چاہیے ۔ ( المبسوط ) ۔ 10 ) ۔ جنگ کے دوران میں باغیوں کے ہاتھوں جان و مال کا جو نقصان ہوا ہو ، جنگ ختم ہونے اور امن قائم ہو جانے کے بعد اس کا کوئی قصاص اور ضمان ان پر عائد نہ ہوگا ۔ نہ کسی مقتول کا بدلہ ان سے لیا جائے گا اور نہ کسی مال کا تاوان ان پر ڈالا جائے گا ، تاکہ فتنے کی آگ پھر نہ بھڑک اٹھے ۔ صحابہ کرام کی باہمی لڑائیوں میں یہی ضابطہ ملحوظ رکھا گیا تھا ( المبسوط ۔ الجصاص ۔ احکام القرآن ابن العرنی ) ۔ 11 ) ۔ جن علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہو گیا ہو اور وہاں انہوں نے اپنا نظم و نسق قائم کر کے زکوٰۃ اور دوسرے محصولات وصول کر لیے ہوں حکومت ان علاقہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد لوگوں سے از سرنو اس زکوٰۃ اور ان محصولات کا مطالبہ نہیں کرے گی ۔ اگر باغیوں نے یہ اموال شرعی طریقے پر صرف کر دیے ہوں گو عند اللہ بھی وہ ادا کرنے والوں پر سے ساقط ہو جائیں گے ۔ لیکن اگر انہوں نے غیر شرعی طریقے پر تصرف کیا ہو ، تو یہ ادا کرنے والوں کے اور ان کے خدا کے درمیان معاملہ ہے ۔ وہ خود چاہیں تو اپنی زکوٰۃ دوبارہ ادا کر دیں ( فتح القدیر ۔ الجصاص ۔ ابن العربی ) ۔ 12 ) ۔ باغیوں نے اپنے زیر تصرف علاوہ میں جو عدالتیں قائم کی ہوں ، اگر ان کے قاضی اہل عدل میں سے ہوں اور شریعت کے مطابق انہوں نے فیصلے کیے ہوں ، تو وہ بر قرار رکھے جائیں گے اگرچہ ان کے مقرر کرنے والے بغاوت کے مجرم ہی کیوں نہ ہوں ۔ البتہ اگر ان کے فیصلے غیر شرعی ہوں اور بغاوت فرو ہونے کے بعد وہ حکومت کی عدالتوں کے سامنے لائے جائیں تو وہ نافذ نہیں کیے جائیں گے ۔ علاوہ بریں باغیوں کی قائم کی ہوئی عدالتوں کی طرف سے کوئی وارنٹ یا پروانہ امر حکومت کی عدالتوں میں قبول نہ کیا جائے گا ( المبسوط ۔ الجصاص ) ۔ 13 ) ۔ باغیوں کی شہادت اسلامی عدالتوں میں قابل قبول نہ ہو گی کیونکہ اہل عدل کے خلاف جنگ کرنا فسق ہے ۔ امام محمد کہتے ہیں کہ جب تک وہ جنگ نہ کریں اور اہل عدل کے خلاف عملاً خروج کے مرتکب نہ ہوں ، ان کی شہادت قبول کی جائے گی ، مگر جب وہ جنگ کر چکے ہوں تو پھر میں ان کی شہادت قبول نہ کروں گا ( الجصاص ) ۔ ان احکام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کفار کے خلاف جنگ اور مسلمان باغیوں کے خلاف جنگ کے قانون میں کیا فرق ہے ۔
دو متحارب مسلمان جماعتوں میں صلح کرانا ہر مسلمان کا فرض ہے یہاں حکم ہو رہا ہے کہ اگر مسلمانوں کی کوئی دو جماعتیں لڑنے لگ جائیں تو دوسرے مسلمانوں کو چاہیے کہ ان میں صلح کرا دیں آپس میں لڑنے والی جماعتوں کو مومن کہنا اس سے حضرت امام بخاری نے استدلال کیا ہے کہ نافرمانی گو کتنی ہی بڑی وہ انسان کو ایمان سے الگ نہیں کرتی ۔ خارجیوں کا اور ان کے موافق معتزلہ کا مذہب اس بارے میں خلاف حق ہے ، اسی آیت کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو صحیح بخاری وغیرہ میں مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دے رہے تھے آپ کے ساتھ منبر پر حضرت حسن بن علی بھی تھے آپ کبھی ان کی طرف دیکھتے کبھی لوگوں کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بچہ سید ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو بڑی بڑی جماعتوں میں صلح کرا دے گا ۔ آپ کی یہ پیش گوئی سچی نکلی اور اہل شام اور اہل عراق میں بڑی لمبی لڑائیوں اور بڑے ناپسندیدہ واقعات کے بعد آپ کی وجہ سے صلح ہو گئی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے اگر ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑائی کی جائے تاکہ وہ پھر ٹھکانے آجائے حق کو سنے اور مان لے صحیح حدیث میں ہے اپنے بھائی کی مدد کر ظالم ہو تو مظلوم ہو تو بھی ۔ حضرت انس نے پوچھا کہ مظلوم ہونے کی حالت میں تو ظاہر ہے لیکن ظالم ہونے کی حالت میں کیسے مدد کروں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے ظلم سے باز رکھو یہی اس کی اس وقت یہ مدد ہے مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا گیا کیا اچھا ہو اگر آپ عبداللہ بن ابی کے ہاں چلئے چنانچہ آپ اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور صحابہ آپ کی ہمرکابی میں ساتھ ہو لیئے زمین شور تھی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو یہ کہنے لگا مجھ سے الگ رہیے اللہ کی قسم آپ کے گدھے کی بدبو نے میرا دماغ پریشان کر دیا ۔ اس پر ایک انصاری نے کہا واللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گدھے کی بو تیری خوشبو سے بہت ہی اچھی ہے اس پر ادھر سے ادھر کچھ لوگ بول پڑے اور معاملہ بڑھنے لگا بلکہ کچھ ہاتھا پائی اور جوتے چھڑیاں بھی کام میں لائی گئیں ۔ ان کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اوس اور خزرج قبائل میں کچھ چشمک ہو گئی تھی ان میں صلح کرا دینے کا اس آیت میں حکم ہو رہا ہے ۔ حضرت سدی فرماتے ہیں عمران نامی ایک انصاری تھے ان کی بیوی صاحبہ کا نام ام زید تھا اس نے اپنے میکے جانا چاہا خاوند نے روکا اور منع کر دیا کہ میکے کا کوئی شخص یہاں بھی نہ آئے ، عورت نے یہ خبر اپنے میکے کہلوا دی وہ لوگ آئے اور اسے بالا خانے سے اتار لائے اور لے جانا چاہا ان کے خاوند گھر پر تھے نہیں خاوند والوں نے اس کے چچا زاد بھائیوں کو اطلاع دے کر انہیں بلا لیا اب کھینچا تانی ہو نے لگی اور ان کے بارے میں یہ آیت اتری ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں طرف کے لوگوں کو بلا کر بیچ میں بیٹھ کر صلح کرا دی اور سب لوگ مل گئے پھر حکم ہوتا ہے دونوں فریقوں میں عدل کرو ، اللہ عادلوں کو پسند فرماتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میں جو عدل و انصاف کرتے رہے وہ موتیوں کے منبروں پر رحمن عزوجل کے سامنے ہوں گے اور یہ بدلہ ہو گا ان کے عدل و انصاف کا ( نسائی ) مسلم کی حدیث میں ہے یہ لوگ ان منبروں پر رحمن عزوجل کے دائیں جانب ہوں گے یہ اپنے فیصلوں میں اپنے اہل و عیال میں اور جو کچھ ان کے قبضہ میں ہے اس میں عدل سے کام لیا کرتے تھے ۔ پھر فرمایا کل مومن دینی بھائی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اسے اس پر ظلم و ستم نہ کرنا چاہیے ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے اور صحیح حدیث میں ہے جب کوئی مسلمان اپنے غیر حاضر بھائی مسلمان کے لئے اس کی پس پشت دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے آمین ۔ اور تجھے بھی اللہ ایسا ہی دے ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں صحیح حدیث میں ہے مسلمان سارے کے سارے اپنی محبت رحم دلی اور میل جول میں مثل ایک جسم کے ہیں جب کسی عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم تڑپ اٹھتا ہے کبھی بخار چڑھ آتا ہے کبھی شب بیداری کی تکلیف ہوتی ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے مومن مومن کے لئے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا اور مضبوط کرتا ہے پھر آپ نے اپنی ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا مسند احمد میں ہے مومن کا تعلق اور اہل ایمان سے ایسا ہے جیسے سر کا تعلق جسم سے ہے ، مومن اہل ایمان کے لئے وہی درد مندی کرتا ہے جو درد مندی جسم کو سر کے ساتھ ہے ۔ پھر فرماتا ہے دونوں لڑنے والی جماعتوں اور دونوں طرف کے اسلامی بھائیوں میں صلح کرا دو اپنے تمام کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو ۔ یہی وہ اوصاف ہیں جن کی وجہ سے اللہ کی رحمت تم پر نازل ہو گی پرہیز گاروں کے ساتھ ہی رب کا رحم رہتا ہے ۔