Surah

Information

Surah # 49 | Verses: 18 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 106 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا يَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنُوۡا خَيۡرًا مِّنۡهُمۡ وَلَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُنَّ خَيۡرًا مِّنۡهُنَّ‌ۚ وَلَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ‌ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِيۡمَانِ‌ ۚ وَمَنۡ لَّمۡ يَتُبۡ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ ﴿11﴾
اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو ایمان کے بعد فسق برا نام ہے ، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں ۔
يايها الذين امنوا لا يسخر قوم من قوم عسى ان يكونوا خيرا منهم و لا نساء من نساء عسى ان يكن خيرا منهن و لا تلمزوا انفسكم و لا تنابزوا بالالقاب بس الاسم الفسوق بعد الايمان و من لم يتب فاولىك هم الظلمون
O you who have believed, let not a people ridicule [another] people; perhaps they may be better than them; nor let women ridicule [other] women; perhaps they may be better than them. And do not insult one another and do not call each other by [offensive] nicknames. Wretched is the name of disobedience after [one's] faith. And whoever does not repent - then it is those who are the wrongdoers.
Aey eman walo! Mard doosray mardon ka mazak na urayen mumkin hai kay yeh unn say behtar ho aur na orten orton ka mazak urayen mumkin hai kay yeh unn say behtar hon aur aapas mein aik doosray ko aib na lagao aur na kissi ko buray laqab do eman kay baad fisq bura naam hai aur jo toba na keren wohi log zalim hain.
اے ایمان والو ! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ( جن کا مذاق اڑا رہے ہیں ) خود ان سے بہتر ہوں ، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ( جن کا مذاق اڑا رہی ہیں ) خود ان سے بہتر ہوں ۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو ، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو ۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے ۔ ( ٥ ) اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں ۔
اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں ( ف۱۸ ) عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں ( ف۱۹ ) اور نہ عورتیں عورتوں سے ، دور نہیں کہ وہ ان ہنسے والیوں سے بہتر ہوں ( ف۲۰ ) اور آپس میں طعنہ نہ کرو ( ف۲۱ ) اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو ( ف۲۲ ) کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا ( ف۲۳ ) اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ،
19اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں20 آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو21 اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو22 ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے 23 ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں ۔
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن ( تمسخر کرنے والوں ) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا ( مذاق اڑائیں ) ممکن ہے وہی عورتیں اُن ( مذاق اڑانے والی عورتوں ) سے بہتر ہوں ، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو ، کسی کے ایمان ( لانے ) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے ، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :19 پچھلی دو آیتوں میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے متعلق ضروری ہدایات دینے کے بعد اہل ایمان کو یہ احساس دلایا گیا تھا کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کو خدا سے ڈرتے ہوئے اپنے آپس کے تعلقات کو درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اب آگے کی دو آیتوں میں ان بڑی بڑی برائیوں کے سد باب کا حکم دیا جا رہا ہے جو بالعموم ایک معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی عزت پر حملہ ، ایک دوسرے کی دل آزاری ، ایک دوسرے سے بد گمانی ، اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس ، در حقیقت یہی وہ اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رو نما ہوتے ہیں ۔ اس سلسلے میں جو احکام آگے کی آیتوں میں دیے گئے ہیں اور ان کی جو تشریحات احادیث میں ملتی ہیں ان کی بنا پر ایک مفصل قانون ہتک عزت ( Law of libel ) مرتب کیا جا سکتا ہے ۔ مغربی قوانین ہتک عزت اس معاملے میں اتنے ناقص ہیں کہ ایک شخص ان کے تحت دعویٰ کر کے اپنی عزت کچھ اور کھو آتا ہے ۔ اسلامی قانون اس کے بر عکس ہر شخص کی ایک بنیادی عزت کا قائل ہے جس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے ۔ قطع نظر اس سے کہ حملہ واقعیت پر مبنی ہو یا نہ ہو ، اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کی کوئی حیثیت عرفی ہو یا نہ ہو ۔ مجرد یہ بات کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تذلیل کی ہے اسے مجرم بنا دینے کے لیے کافی ہے ، الا یہ کہ اس تذلیل کا کوئی شرعی جواز ثابت کر دیا جائے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :20 مذاق اڑانے سے مراد محض زبان ہی سے کسی کا مذاق اڑانا نہیں ہے ، بلکہ کسی کی نقل اتارنا ، اس کی طرف اشارے کرنا ، اس کی بات پر یا اس کے کام یا اس کی صورت یا اس کے لباس پر ہنسنا ، یا اس کے کسی نقص یا عیب کی طرف لوگوں کو اس طرح توجہ دلانا کہ دوسرے اس پر ہنسیں ، یہ سب بھی مذاق اڑانے میں داخل ہیں ۔ اصل ممانعت جس چیز کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کی کسی نہ کسی طور پر تضحیک کرے ، کیونکہ اس تضحیک میں لازماً اپنی بڑائی اور دوسرے کی تذلیل و تحقیر کے جذبات کار فرما ہوتے ہیں جو اخلاقاً سخت معیوب ہیں ، اور مزید برآں اس سے دوسرے شخص کی دل آزاری بھی ہوتی ہے جس سے معاشرے میں فساد رو نما ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر اس فعل کو حرام کیا گیا ہے ۔ مردوں اور عورتوں کا الگ الگ ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مردوں کے لیے عورتوں کا مذاق اڑانا یا عورتوں کے لیے مردوں کا مذاق اڑانا جائز ہے ۔ دراصل جس وجہ سے دونوں کا ذکر الگ الگ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام سرے سے مخلوط سوسائٹی ہی کا قائل نہیں ہے ۔ ایک دوسرے کی تضحیک عموماً بے تکلف مجلسوں میں ہوا کرتی ہے ، اور اسلام میں یہ گنجائش رکھی ہی نہیں گئی ہے کہ غیر محرم مرد اور عورتیں کسی مجلس میں جمع ہو کر آپس میں ہنسی مذاق کریں ۔ اس لیے اس بات کو ایک مسلم معاشرے میں قابل تصور نہیں سمجھا گیا ہے کہ ایک مجلس میں مرد کسی عورت کا مذاق اڑائیں گے یا عورتیں کسی مرد کا مذاق اڑائیں گی ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :21 اصل میں لفظ لَمزْ استعمال ہوا ہے جس کے اندر طعن و تشنیع کے علاوہ متعدد دوسرے مفہومات بھی شامل ہیں ، مثلاً چوٹیں کرنا ، پھبتیاں کسنا ، الزام دھرنا ، اعتراض جڑنا ، عیب چینی کرنا ، اور کھلم کھلا یا زیر لب یا اشاروں سے کسی کو نشانہ ملامت بنانا ۔ یہ سب افعال بھی چونکہ آپس کے تعلقات کو بگاڑتے اور معاشرے میں فساد برپا کرتے ہیں اس لیے ان کو حرام کر دیا گیا ہے ۔ کلام الہیٰ کی بلاغت یہ ہے کہ : لَا یَلْمِزُ بَعْضُکُمْ بَعْضاً ( ایک دوسرے پر طعن نہ کرو ) کہنے کے بجائے : لَا تَلْمِزُوٓا اَنْفُسَکُمْ ( اپنے اوپر طعن نہ کرو ) کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ دوسروں پر زبان طعن دراز کرنے والا دراصل خود اپنے آپ کو مطعون کرتا ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ کسی شخص کی زبان دوسروں کے خلاف بد گوئی کے لیے اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک اس کے دل میں برے جذبات کا لاوا خوب پک کر پھوٹ پڑنے کے لیے تیار نہ ہو گیا ہو ۔ اس طرح ان جذبات کی پرورش کرنے والا دوسروں سے پہلے اپنے نفس کو تو بدی کا آشیانہ بنا چکتا ہے ۔ پھر جب وہ دوسروں پر چوٹ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود اپنے اوپر چوٹیں کرنے لیے دوسروں کو دعوت دے رہا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنی شرافت کی بنا پر اس کے حملوں کو ٹال جائے ۔ مگر اس نے تو اپنی طرف سے یہ دروازہ کھول ہی دیا کہ وہ شخص بھی اس پر حملہ آور ہو جس کو اس نے اپنی زبان کے تیروں کا ہدف بنایا ہے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :22 اس حکم کا منشا یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسے نام سے نہ پکارا جائے یا ایسا لقب نہ دیا جائے جو اس کو ناگوار ہو اور جس سے اس کی تحقیر و تنقیص ہوتی ہو ۔ مثلاً کسی کو فاسق یا منافق کہنا ۔ کسی کو لنگڑا یا اندھا یا کانا کہنا ۔ کسی کو اس کے اپنے یا اس کی ماں یا باپ یا خاندان کے کسی عیب یا نقص سے ملّقب کرنا ۔ کسی کو مسلمان ہو جانے کے بعد اس کے سابق مذہب کی بنا پر یہودی یا نصرانی کہنا ۔ کسی شخص یا خاندان یا برادری یا گروہ کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کی مذمت اور تذلیل کا پہلو رکھتا ہو ۔ اس حکم سے صرف وہ القاب مستثنیٰ ہیں جو اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے تو بد نما ہیں مگر ان سے مذمت مقصود نہیں ہوتی بلکہ وہ ان لوگوں کی پہچان کا ذریعہ بن جاتے ہیں جن کو ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اسی بنا پر محدثین نے اسماء الرجال میں سلیمان الاعمش ( چندے سلیمان ) اور واصل الاخدَب ( کبڑے واصل ) جیسے القاب کو جائز رکھا ہے ۔ ایک نام کے کئی آدمی موجود ہوں اور ان میں سے کسی خاص شخص کی پہچان اس کے کسی خاص لقب ہی سے ہوتی ہو تو وہ لقب استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اگرچہ وہ بجائے خود برا ہو ۔ مثلاً عبداللہ نام کے کئی آدمی ہوں اور ایک ان میں سے نابینا ہو تو آپ اس کی پہچان کے لیے نابینا عبداللہ کہہ سکتے ہیں ۔ اسی طرح ایسے القاب بھی اس حکم کے تحت نہیں آتے جن میں بظاہر تنقیص کا پہلو نکلتا ہے مگر در حقیقت وہ محبت کی بنا پر رکھے جاتے ہیں اور خود وہ لوگ بھی جنہیں ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے ، انہیں پسند کرتے ہیں ، جیسے ابو ہریرہ اور ابو تراب ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :23 یعنی ایک مومن کے لیے یہ بات سخت شرمناک ہے کہ مومن ہونے کے باوجود وہ بد زبانی اور شہد پن میں نام پیدا کرے ۔ ایک کافر اگر اس لحاظ سے مشہور ہو کہ وہ لوگوں کا مذاق خوب اڑاتا ہے ، یا پھبتیاں خوب کستا ہے ، یا برے برے نام خوب تجویز کرتا ہے ، تو یہ انسانیت کے لحاظ سے خواہ اچھی شہرت نہ ہو کم از کم اس کے کفر کو تو زیب دیتی ہے ۔ مگر ایک آدمی اللہ اور اس کے رسول اور آخرت پر ایمان لانے کے بعد ایسے ذلیل اوصاف میں شہرت حاصل کرے تو یہ ڈوب مرنے کے لائق بات ہے ۔
ہر طعنہ باز عیب جو مجرم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو حقیر و ذلیل کرنے اور ان کا مذاق اڑانے سے روک رہا ہے حدیث شریف میں ہے تکبر حق سے منہ موڑ لینے اور لوگوں کو ذلیل و خوار سمجھنے کا نام ہے ۔ اس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی کہ جسے تم ذلیل کر رہے ہو جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو ممکن ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ تم سے زیادہ باوقعت ہو مردوں کو منع کر کے پھر خاصتہ عورتوں کو بھی اس سے روکا اور اس ملعون خصلت کو حرام قرار دیا چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت ( وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ Ǻ۝ۙ ) 104- الهمزة :1 ) یعنی ہر طعنہ باز عیب جو کے لئے خرابی ہے ہمز فعل سے ہوتا ہے اور لمز قول سے ایک اور آیت میں ہے ( ھماز مشاء بنمیم ) الخ ، یعنی وہ جو لوگوں کو حقیر گنتا ہو ان پر چڑھا چلا جا رہا ہو اور لگانے بجھانے والا ہو غرض ان تمام کاموں کو ہماری شریعت نے حرام قرار دیا ۔ یہاں لفظ تو یہ ہیں کہ اپنے آپ کو عیب نہ لگاؤ مطلب یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ جیسے فرمایا آیت ( وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا 29؀ ) 4- النسآء:29 ) یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو ۔ حضرت ابن عباس ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، قتادہ ، مقاتل ، بن حیان فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کو طعنے نہ دے پھر فرمایا کسی کو چڑاؤ مت ! جس لقب سے وہ ناراض ہوتا ہو اس لقب سے اسے نہ پکارو نہ اس کو برا نام دو ۔ مسند احمد میں ہے کہ یہ حکم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے میں آئے تو یہاں ہر شخص کے دو دو تین تین نام تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو کسی نام سے پکارتے تو لوگ کہتے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اس سے چڑتا ہے ۔ اس پر یہ آیت اتری ( ابو داؤد ) پھر فرمان ہے کہ ایمان کی حالت میں فاسقانہ القاب سے آپس میں ایک دوسرے کو نامزد کرنا نہایت بری بات ہے اب تمہیں اس سے توبہ کرنی چاہئے ورنہ ظالم گنے جاؤ گے ۔