Surah

Information

Surah # 49 | Verses: 18 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 106 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا كَثِيۡرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ‌ وَّلَا تَجَسَّسُوۡا وَلَا يَغۡتَبْ بَّعۡضُكُمۡ بَعۡضًا‌ ؕ اَ يُحِبُّ اَحَدُكُمۡ اَنۡ يَّاۡكُلَ لَحۡمَ اَخِيۡهِ مَيۡتًا فَكَرِهۡتُمُوۡهُ‌ ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿12﴾
اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔
يايها الذين امنوا اجتنبوا كثيرا من الظن ان بعض الظن اثم و لا تجسسوا و لا يغتب بعضكم بعضا ايحب احدكم ان ياكل لحم اخيه ميتا فكرهتموه و اتقوا الله ان الله تواب رحيم
O you who have believed, avoid much [negative] assumption. Indeed, some assumption is sin. And do not spy or backbite each other. Would one of you like to eat the flesh of his brother when dead? You would detest it. And fear Allah ; indeed, Allah is Accepting of repentance and Merciful.
Aey eman walo! Boht badgumaaniyon say bacho yaqeen mano kay baaz badgumaniyan gunah hain, aur bhed na tatola kero aur na tum mein say koi kissi ki gheebat keray. Kiya tum mein say koi bhi apnay murdah bhai ka gosht khana pasand kerta ha? Tum ko iss say ghinn aayegi, aur Allah say dartay raho, be-shak Allah toba qabool kernay wala meharbaan hai.
اے ایمان والو ! بہت سے گمانوں سے بچو ، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ، ( ٦ ) اور کسی کی ٹوہ میں نہ لگو ( ٧ ) اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو ۔ ( ٨ ) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مرے پوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو خود تم نفرت کرتے ہو ، اور اللہ سے ڈرو ، بیشک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ، بہت مہربان ہے ۔
اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو ( ۲٤ ) بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے ( ف۲۵ ) اور عیب نہ ڈھونڈھو ( ف۲٦ ) اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو ( ف۲۷ ) کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا ( ف۲۸ ) اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں 24 ۔ تجسس نہ کرو 25 ۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے 26 ۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا 27؟ دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو ۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے ۔
اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان ( ایسے ) گناہ ہوتے ہیں ( جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے ) اور ( کسی کے عیبوں اور رازوں کی ) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو ، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے ، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو ۔ اور ( اِن تمام معاملات میں ) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :24 مطلقاً گمان کرنے سے نہیں روکا گیا ہے بلکہ بہت زیادہ گمان سے کام لینے اور ہر طرح کے گمان کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ۔ اس حکم کو سمجھنے کے لیے ہمیں تجزیہ کر کے دیکھنا چاہیے کہ گمان کی کتنی قسمیں ہیں اور ہر ایک کی اخلاقی حیثیت کیا ہے : ایک قسم کا گمان وہ ہے جو اخلاق کی نگاہ میں نہایت پسندیدہ اور دین کی نظر میں مطلوب اور محمود ہے ، مثلاً اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان سے نیک گمان اور ان لوگوں کے ساتھ حسن ظن جن سے آدمی کا میل جول ہو اور جن کے متعلق بد گمانی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو ۔ دوسری قسم کا گمان وہ ہے جس سے کام لینے کے سوا عملی زندگی میں کوئی چارہ نہیں ہے ۔ مثلاً عدالت میں اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا کہ جو شہادتیں حاکم عدالت کے سامنے پیش ہوں ان کو جانچ کر وہ غالب گمان کی بنا پر فیصلہ کرے ، کیونکہ معاملہ کی حقیقت کا براہ راست علم اس کو نہیں ہو سکتا ، اور شہادتوں کی بنیاد پر جو رائے قائم ہوتی ہے وہ زیادہ تر یقین پر نہیں بلکہ ظن غالب پر مبنی ہوتی ہے ۔ اسی طرح بکثرت معاملات میں ، جہاں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور حقیقت کا علم حاصل ہونا ممکن نہیں ہوتا ، انسان کے لیے گمان کی بنیاد پر ایک رائے قائم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ گمان کی ایک تیسری قسم وہ ہے جو اگرچہ ہے تو بد گمانی ، مگر جائز نوعیت کی ہے اور اس کا شمار گناہ میں نہیں ہو سکتا ۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کی سیرت و کردار میں یا اس کے معاملات اور طور طریقوں میں ایسی واضح علامات پائی جاتی ہوں جن کی بنا پر وہ حسن ظن کا مستحق نہ ہو اور اس سے بد گمانی کرنے کے لیے معقول وجوہ موجود ہوں ایسی حالت میں شریعت کا مطالبہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ آدمی سادہ لوحی برت کر ضرور اس سے حسن ظن ہی رکھے ۔ لیکن اس جائز بد گمانی کی آخری حد یہ ہے کہ اس کے امکانی شر سے بچنے کے لیے بس احتیاط سے کام لینے پر اکتفا کیا جائے ۔ اس سے آگے بڑھ کر محض گمان کی بنا پر اس کے خلاف کوئی کارروائی کر بیٹھنا درست نہیں ہے ۔ چوتھی قوسم کا گمان جو در حقیقت گناہ ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی شخص سے بلا سبب بد گمانی کرے ، یا دوسروں کے متعلق رائے قائم کرنے میں ہمیشہ بد گمانی ہی سے ابتدا کیا کرے ، یا ایسے لوگوں کے معاملہ میں بد ظنی سے کام لے جن کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ نیک اور شریف ہیں ۔ اسی طرح یہ بات بھی گناہ ہے کہ ایک شخص کے کسی قول یا فعل میں برائی اور بھلائی کا یکساں احتمال ہو اور ہم محض سوءِ ظن سے کام لے کر اس کو برائی ہی پر محمول کریں ۔ مثلاً کوئی بھلا آدمی کسی محفل سے اٹھتے ہوئے اپنے جوتے کے بجائے کسی اور کا جوتا اٹھا لے اور ہم یہ رائے قائم کرلیں کہ ضرور اس نے جوتا چرانے ہی کی نیت سے یہ حرکت کی ہے ۔ حالانکہ یہ فعل بھولے سے بھی ہو سکتا ہے اور اچھے احتمال کو چھوڑ کر برے احتمال کو اختیار کرنے کی کوئی وجہ بد گمانی کے سوا نہیں ہے ۔ اس تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گمان بجائے خود کوئی ممنوع چیز نہیں ہے ، بلکہ بعض حالات میں وہ پسندیدہ ہے ، بعض حالات میں ناگزیر ہے ، بعض حالات میں ایک حد تک جائز اور اس سے آگے ناجائز ہے ، اور بعض حالات میں بالکل ہی ناجائز ہے ۔ اسی بنا پر یہ نہیں فرمایا گیا کہ گمان سے یا بدگمان سے مطلقاً پرہیز کرو ، بلکہ فرمایا گیا ہے کہ بہت زیادہ گمان کرنے سے پرہیز کرو ۔ پھر حکم کا منشا واضح کرنے کے لیے مزید بات یہ فرمائی گئی ہے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ۔ اس تنبیہ سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب کبھی آدمی گمان کی بنا پر کوئی رائے قائم کر رہا ہو یا کسی اقدام کا فیصلہ کرنے لگے تو اسے اچھی طرح جانچ تول کر یہ دیکھ لینا چاہیے کہ میں جو گمان کر رہا ہوں کہیں وہ گناہ تو نہیں ہے؟ کیا فی الواقع اس گمان کی ضرورت ہے؟ کیا اس گمان کے لیے میرے پاس معقول وجوہ ہیں؟ کیا اس گمان کی بنا پر جو طرز عمل میں اختیار کر رہا ہوں وہ جائز ہے؟ یہ احتیاط لازماً ہر وہ شخص کرے گا جو خدا سے ڈرتا ہو ۔ اپنے گمان کو مطلق العنان بنا کر رکھنا صرف ان لوگوں کا کام ہے جو خدا سے بے خوف اور آخرت کی باز پرس سے بے فکر ہیں ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :25 یعنی لوگوں کے راز نہ ٹٹولو ۔ ایک دوسرے کے عیب نہ تلاش کرو ۔ دوسروں کے حالات اور معاملات کی ٹوہ نہ لگاتے پھرو ۔ یہ حرکت خواہ بد گمانی کی بنا پر کی جائے ، یا بد نیتی سے کسی کو نقصان پہنچانے کی خاطر کی جائے ، یا محض اپنا استعجاب ( Curiosity ) دور کرنے کے لیے کی جائے ، ہر حال میں شرعاً ممنوع ہے ۔ ایک مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسروں کے جن حالات پر پردہ پڑا ہوا ہے ان کی کھوج کرید کرے اور پردے کے پیچھے جھانک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ کس میں کیا عیب ہے اور کس کی کون سی کمزوریاں چھپی ہوئی ہیں ۔ لوگوں کے نجی خطوط پڑھنا ، دو آدمیوں کی باتیں کان لگا کر سننا ، ہمسایوں کے گھر میں جھانکنا ، اور مختلف طریقوں سے دوسروں کی خانگی زندگی یا ان کے ذاتی معاملات کی ٹٹول کرنا ایک بڑی بد اخلاقی ہے جس سے طرح طرح کے فساد رونما ہوتے ہیں اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبہ میں تجسس کرنے والوں کے متعلق فرمایا: یا معشر من امن بلسانہ ولم ید خل الایمان قلبہ لا تتبعوا عورات المسلمین فانہ من اتبع عوراتھم یتبع اللہ عورتہ ومن یتبع اللہ عورتہ یفضحہ فی بیتہ ۔ ( ابوداؤد ) اے لوگو جو زبان سے ایمان لے آئے ہو مگر ابھی تمہارے دلوں میں ایمان نہیں اترا ہے ، مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج نہ لگایا کرو ، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب ڈھونڈنے کے درپے ہوگا اللہ اس کے عیوب کے درپے ہو جائے گا اور اللہ جس کے درپے ہو جائے اسے اس کے گھر میں رسوا کر کے چھوڑتا ہے ۔ حضرت معاویہ کہتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے : انک ان اتبعت عورات الناس افسدتھم او کدت ان تفسدھم ۔ ( ابو داؤد ) ۔ تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہو گے تو ان کو بگاڑ دو گے یا کم از کم بگاڑ کے قریب پہنچا دو گے ۔ ایک اور حدیث میں حضور کا ارشاد ہے : اذا ظننتم فلا تحققوا ( احکام القرآن للجصاص ) : جب کسی شخص کے متعلق تمہیں کوئی برا گمان ہو جائے تو اس کی تحقیق نہ کرو ۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: من رأی عورۃ فسترھا کان کمن احیا موؤدۃ ( الجصاص ) : جس نے کسی کا کوئی مخفی عیب دیکھ لیا اور اس پر پردہ ڈال دیا تو یہ ایسا ہے جیسے کسی نے ایک زندہ گاڑی ہوئی بچی کو موت سے بچا لیا ۔ تجسس کی ممانعت کا یہ حکم صرف افراد ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت کے لیے بھی ہے ۔ شریعت نے نہی عن المنکر کا جو فریضہ حکومت کے سپرد کیا ہے اس کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ وہ جاسوسی کا ایک نظام قائم کر کے لوگوں کی چھپی ہوئی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے اور ان پر سزا دے ، بلکہ اسے صرف ان برائیوں کے خلاف طاقت استعمال کرنی چاہیے جو ظاہر ہو جائیں ۔ رہیں مخفی خرابیاں تو ان کی اصلاح کا راستہ جاسوسی نہیں ہے بلکہ تعلیم ، وعظ و تلقین ، عوام کی اجتماعی تربیت ، اور ایک پاکیزہ معاشرتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہے ۔ اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ بہت سبق آموز ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت آپ نے ایک شخص کی آواز سنی جو اپنے گھر میں گارہا تھا ۔ آپ کو شک گزرا اور دیوار پر چڑھ گئے ۔ دیکھا کہ وہاں شراب بھی موجود ہے اور ایک عورت بھی ۔ آپ نے پکار کر کہا اے دشمن خدا ، کیا تو نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا ؟ اس نے جواب دیا امیرالمومنین جلدی نہ کیجیے ۔ اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کیے ہیں ۔ اللہ نے تجسس سے منع کیا تھا اور آپ نے تجسس کیا ۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور آپ دیوار پر چڑھ کر آئے ۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر نہ جاؤ اور آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں تشریف لے آئے ۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی غلطی مان گئے اور اس کے خلاف انہوں نے کوئی کارروائی نہ کی ، البتہ اس سے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے گا ۔ ( مکارم الاخلاق لابی بکر محمد بن جعفر الخزائطی ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ افراد ہی کے لیے نہیں خود اسلامی حکومت کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے راز ٹٹول ٹٹول کر ان کے گناہوں کا پتہ چلائے اور پھر انہیں پکڑے ۔ یہی بات ایک حدیث میں بھی ارشاد ہوئی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ان الامیر اذا ابتغی الربیۃ فی الناس افسدھم ( ابوداؤد ) : حکمران جب لوگوں کے اندر شبہات کے اسباب تلاش کرنے لگے تو وہ ان کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے ۔ اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ مخصوص حالات ہیں جن میں بخشش کی فی الحقیقت ضرورت ہو ۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے رویے میں بگاڑ کی کچھ علامات نمایاں نظر آ رہی ہوں اور اس کے متعلق یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے والا ہے تو حکومت اس کے حالات کی تحقیق کر سکتی ہے ۔ یا مثلاً کسی شخص کے ہاں کوئی شادی کا پیغام بھیجے ، یا اس کے ساتھ کوئی کاروباری معاملہ کرنا چاہے تو وہ اپنے اطمینان کے لیے اس کے حالات کی تحقیق کر سکتا ہے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :26 غیبت کی تعریف یہ ہے کہ آدمی کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جو اگر اسے معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے ۔ یہ تعریف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے ۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت جسے مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی اور دوسرے محدثین نے نقل کیا ہے ، اس میں حضور نے غیبت کی یہ تعریف بیان فرمائی ہے : ذکرک اخاک بما یکرہ قیل افرأیت ان کان فی اخی ما اقول؟ قال ان کان فیہ ما تقول فقد اختنبتہ وان لم یکن فیہ ما تقول فقد بھتَّہٗ ۔ غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو عرض کیا گیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو اس صورت میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا اگر اس میں وہ بات پائی جاتی ہو تو تو نے اس کی غیبت کی ، اور اگر اس میں وہ موجود نہ ہو تو تو نے اس پر بہتان لگایا ۔ ایک دوسری روایت جو امام مالک نے مؤَطّاء میں حضرت مُطَّلِب بن عبداللہ سے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: ان رجلا سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما الغیبۃ؟ فقال ان تذکر من المرء مایکرہ ان یسمع ۔ قال یا رسول اللہ وان کان حقّا ؟ قال اذا قلت بَاطلاً فذٰلک البھتان ۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو کسی شخص کا ذکر اس طرح کرے کہ وہ سنے تو اسے ناگوار ہو ۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ میری بات حق ہو؟ آپ نے جواب دیا اگر تیری بات باطل ہو تو یہی چیز پھر بہتان ہے ۔ ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے خلاف اس کے پیچھے جھوٹا الزام لگانا بہتان ہے اور اس کے واقعی عیوب بیان کرنا غیبت ۔ یہ فعل خواہ صریح الفاظ میں کیا جائے یا اشارہ و کنایہ میں ، بہر صورت حرام ہے ۔ اسی طرح یہ فعل خواہ آدمی کی زندگی میں کیا جائے یا اس کے مرنے کے بعد ، دونوں صورتوں میں اس کی حرمت یکساں ہے ۔ ابوداؤد کی روایت ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی کو جب زنا کے جرم میں رحم کی سزا دے دی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ چلتے ایک صاحب کو اپنے دوسرے ساتھی سے یہ کہتے سن لیا کہ اس شخص کو دیکھو ، اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا ، مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک یہ کتے کی موت نہ مار دیا گیا ۔ کچھ دور آگے جا کر راستے میں ایک گدھے کی لاش سڑتی ہوئی نظر آئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور ان دونوں اصحاب کو بلا کر فرمایا اتریے اور اس گدھے کی لاش تناول فرمائیے ان دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ اسے کون کھائے گا ؟ فرمایا : فما نلتما من عِرض اخیکما اٰنفاً اشد من اکل منہ ۔ ابھی ابھی آپ لوگ اپنے بھائی کی عزت پر جو حرف زنی کر رہے تھے وہ اس گدھے کی لاش کھانے سے بہت زیادہ بری تھی ۔ اس حرمت سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی شخص کے پیٹھ پیچھے ، یا اس کے مرنے کے بعد اس کی برائی بیان کرنے کی کوئی ایسی ضرورت لاحق ہو جو شریعت کی نگاہ میں ایک صحیح ضرورت ہو ، اور وہ ضرورت غیبت کے بغیر پوری نہ ہو سکتی ہو ، اور اس کے لیے اگر غیبت نہ کی جائے تو غیبت کی بہ نسبت زیادہ بڑی برائی لازم آتی ہو ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس استثناء کو اصولاً یوں بیان فرمایا ہے : ان من اربیٰ الربا الا ستطالۃ فی عرض المسلم بغیر حق ( ابوداؤد ) بد ترین زیادتی کسی مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ کرنا ہے ۔ اس ارشاد میں ناحق کی قید یہ بتاتی ہے کہ حق کی بنا پر ایسا کرنا جائز ہے ۔ پھر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے طرز عمل میں ہم کو چند نظیریں ایسی ملتی ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حق سے مراد کیا ہے اور کس قسم کے حالات میں غیبت بقدر ضرورت جائز ہو سکتی ہے ۔ ایک مرتبہ ایک بدو آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں شامل ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ خدایا مجھ پر رحم کر اور محمد پر ، اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا اتقولون ھو اضلّ ام بعیرہ؟ الم تسمعوا الیٰ ما قال؟ تم لوگ کیا کہتے ہو ، یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ؟ تم نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہا تھا ( ابو داؤد ) ۔ یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے پیٹھ پیچھے کہنی پڑی کیونکہ وہ سلام پھیرتے ہی جا چکا تھا اس نے چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک بہت غلط بات کہہ دی تھی ، اور آپ کا اس پر خاموش رہ جانا کسی شخص کو اس غلط فہمی میں ڈال سکتا تھا کہ ایسی بات کہنا کسی درجہ میں جائز ہو سکتا ہے ، اس لیے ضروری تھا کہ آپ اس کی تردید فرمائیں ۔ ایک خاتون فاطمہ بنت قیس کو دو صاحبوں نے نکاح کا پیغام دیا ۔ ایک حضرت معاویہ دوسرے حضرت ابوالجہم ۔ انہوں نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ طلب کیا ۔ آپ نے فرمایا معاویہ مفلس ہیں اور ابوالجہم بیویوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں ۔ ( بخاری و مسلم ) ۔ یہاں ایک خاتون کے لیے مستقبل کی زندگی کا مسئلہ در پیش تھا اور حضور سے انہوں نے مشورہ طلب کیا تھا اس حالت میں آپ نے ضروری سمجھا کہ دونوں صاحبوں کی جو کمزوریاں آپ کے علم میں ہیں وہ انہیں بتا دیں ۔ ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے ہاں تشریف فرما تھے ۔ ایک شخص نے آ کر ملاقات کی اجازت طلب کی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اپنے قبیلے کا بہت برا آدمی ہے ۔ پھر آپ باہر تشریف لے گئے اور اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی ۔ گھر میں واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ نے تو اس سے بڑی اچھی طرح گفتگو فرمائی حالانکہ باہر جاتے وقت آپ نے اس کے متعلق وہ کچھ فرمایا تھا ۔ جواب میں آپ نے فرمایا : انّ شرّ الناس منزلۃً عند اللہ یوم القیٰمۃ من ودعہ ( اوترکہ ) الناس اتقاء فحشہ ۔ ‘’خدا کے نزدیک قیامت کے روز بد ترین مقام اس شخص کا ہو گا جس کی بد زبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں ( بخاری و مسلم ) ۔ اس واقعہ پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے متعلق بری رائے رکھنے کے باوجود اس کے ساتھ اچھی طرح بات چیت تو اس لیے کی کہ آپ کا اخلاق اسی کا تقاضا کرتا تھا ۔ لیکن آپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ آپ کے گھر والے آپ کو اس سے مہر بانی برتتے دیکھ کر کہیں اسے آپ کا دوست نہ سمجھ لیں اور بعد میں کسی وقت وہ اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے ۔ اس لیے آپ نے حضرت عائشہ کو خبردار کر دیا کہ وہ اپنے قبیلے کا بہت برا آدمی ہے ۔ ایک موقع پر حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بن عتبہ نے آ کر حضور سے عرض کیا کہ ابو سفیان ایک بخیل آدمی ہیں ، مجھے اور میرے بچوں کو اتنا نہیں دیتے جو ضروریات کے لیے کافی ہو ( بخاری و مسلم ) ۔ بیوی کی طرف سے شوہر کی غیر موجودگی میں یہ شکایت اگرچہ غیبت تھی ، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز رکھا ، کیونکہ مظلوم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ظلم کی شکایت کسی ایسے شخص کے پاس لے جائے جو اس کو رفع کرا سکتا ہو ۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان نظیروں سے استفادہ کر کے فقہاء و محدثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے جبکہ ایک صحیح ( یعنی شرعاً صحیح ) غرض کے لیے اس کی ضرورت ہو اور وہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہو سکتی ہو ۔ پھر اسی قاعدے پر بنا رکھتے ہوئے علماء نے غیبت کی حسب ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں : 1 ) ۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہر اس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کو دفع کرنے کے لیے کچھ کر سکتا ہے ۔ 2 ) ۔ اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی برائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ امید ہو کہ وہ ان برائیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ کر سکیں گے ۔ 3 ) ۔ استفتاء کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورت واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آ جائے ۔ 4 ) ۔ لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبردار کرنا تاکہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکیں ۔ مثلاً راویوں ، گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے ، عدالتوں کو بے انصافی سے ، اور عوام یا طالبان علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے ۔ یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو ، یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو ، یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو ، یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب و صواب اسے بتا دیں تاکہ ناواقفیت میں وہ دھوکا نہ کھائے ۔ 5 ) ۔ ایسے لوگوں کے خلاف علیٰ الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہوں ، یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کر رہے ہوں ، یا خلق خدا کو بے دینی اور ظلم و جَور کے فتنوں میں مبتلا کر رہے ہوں ۔ 6 ) ۔ جو لوگ کسی برے لقب سے اس قدر مشہور ہو چکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی اور لقب سے پہچانے نہ جا سکتے ہوں ان کے لیے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف نہ کہ بغرض تنقیص ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ، فتح الباری جلد 10 ، ص 362 ۔ شرح مسلم للنووی ، باب تحریم الغیبۃ ۔ ریاض الصالحین ، باب ما یباح من الغیبۃ ۔ احکام القرآن للجصاص و روح المعانی ، تفسیر آیہ ولا یغتب بعضکم بعضاً ) ۔ ان مستثنیٰ صورتوں کے ماسوا پیٹھ پیچھے کسی کی بد گوئی کرنا مطلقاً حرام ہے ۔ یہ بد گوئی اگر سچی ہو تو غیبت ہے ، جھوٹی ہو تو بہتان ہے ، اور دو آدمیوں کو لڑانے کے لیے ہو تو چغلی ہے ۔ شریعت ان تینوں چیزوں کو حرام کرتی ہے ۔ اسلامی معاشرے میں ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ اگر اس کے سامنے کسی شخص پر جھوٹی تہمت لگائی جا رہی ہو تو وہ اس کو خاموشی سے نہ سنے بلکہ اس کی تردید کرے ، اور اگر کسی جائز شرعی ضرورت کے بغیر کسی کی واقعی برائیاں بیان کی جا رہی ہوں تو اس فعل کے مرتکبین کو خدا سے ڈرانے اور اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین کرے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ما من امرئٍ یخذل امرءًا مسْلماً فی موضع تنتھک فیہ حرمتہ و ینتقص فیہ من عرضِہ الّا خذلہ اللہ تعالیٰ فی مواطن یحبّ فیھا نصرتہ ، وما من امریءٍ ینصر امرءًا مسْلماً فی موضع ینتقص فِیہ مِن عِرضہ وینتھک فیہِ مِنْ حرمتہ الّا نصرہ اللہ عز و جل فی مواطن یحب فیھا نصرتہ ( ابوداؤد ) ۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں اس کی تذلیل کی جا رہی ہو اور اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حمایت ایسے مواقع پر نہیں کرتا جہاں وہ اللہ کی مدد کا خواہاں ہو ۔ اور اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو اور اس کی تذلیل و توہین کی جا رہی ہو تو اللہ عزوجل اس کی مدد ایسے مواقع پر کرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی مدد کرے ۔ رہا غیبت کرنے والا ، تو جس وقت بھی اسے احساس ہو جائے کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے یا کر چکا ہے ، اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ اللہ سے توبہ کرے اور اس حرام فعل سے رک جائے ۔ اس کے بعد دوسرا فرض اس پر یہ عائد ہوتا ہے کہ حتی الامکان اس کی تلافی کرے ۔ اگر اس نے کسی مرے ہوئے آدمی کی غیبت کی ہو تو اس کے حق میں کثرت سے دعائے مغفرت کرے ۔ اگر کسی زندہ آدمی کی غیبت کی ہو اور وہ خلاف واقعہ بھی ہو تو ان لوگوں کے سامنے اس کی تردید کرے جن کے سامنے وہ پہلے یہ بہتان تراشی کر چکا ہے ۔ اور اگر سچی غیبت کی ہو تو آئندہ پھر کبھی اس کی برائی نہ کرے اور اس شخص سے معافی مانگے جس کی اس نے برائی کی تھی ۔ علماء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ معافی صرف اس صورت میں مانگنی چاہیے جبکہ اس شخص کو اس کا علم ہو چکا ہو ، ورنہ صرف توبہ پر اکتفا کرنا چاہیے ، کیونکہ اگر وہ شخص بے خبر ہو اور غیبت کرنے والا معافی مانگنے کی خاطر اسے جا کر یہ بتائے کہ میں نے تیری غیبت کی تھی تو یہ چیز اس کے لیے اذیت کی موجب ہو گی ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :27 اس فقرے میں اللہ تعالیٰ نے غیبت کو مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر اس فعل کے انتہائی گھناؤنا ہونے کا تصور دلایا ہے ۔ مردار کا گوشت کھانا بجائے خود نفرت کے قابل ہے ، کجا کہ وہ گوشت بھی کسی جانور کا نہیں بلکہ انسان کا ہو ، اور انسان بھی کوئی اور نہیں خود اپنا بھائی ہو ۔ پھر اس تشبیہ کو سوالیہ انداز میں پیش کر کے اور زیادہ مؤثر بنا دیا گیا ہے تاکہ ہر شخص اپنے ضمیر سے پوچھ کر خود فیصلہ کرے کہ آیا وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے لیے تیار ہے؟ اگر نہیں ہے اور اس کی فطرت اس چیز سے گھن کھاتی ہے تو آخر وہ کیسے یہ بات پسند کرتا ہے کہ اپنے ایک مومن بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت پر حملہ کرے جہاں وہ اپنی مدافعت نہیں کر سکتا اور جہاں اس کو یہ خبر تک نہیں ہے کہ اس کی بے عزتی کی جا رہی ہے؟ اس ارشاد سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ غیبت کے حرام ہونے کی بنیادی وجہ اس شخص کی دل آزاری نہیں ہے جس کی غیبت کی گئی ہو ، بلکہ کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرنا بجائے خود حرام ہے قطع نظر اس سے کہ اس کو اس کا علم ہو یا نہ ہو اور اس کا اس فعل سے اذیت پہنچے یا نہ پہنچے ۔ ظاہر ہے کہ مرے ہوئے آدمی کا گوشت کھانا اس لیے حرام نہیں ہے کہ مردے کو اس سے تکلیف ہوتی ہے ۔ مردہ بے چارہ تو اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد کوئی اس کی لاش بھنبوڑ رہا ہے ۔ مگر یہ فعل بجائے خود ایک نہایت گھناؤنا فعل ہے ۔ اسی طرح جس شخص کی غیبت کی گئی ہو اس کو بھی اگر کسی ذریعہ سے اس کی اطلاع نہ پہنچے تو وہ عمر بھر اس بات سے بے خبر رہے گا کہ کہاں کس شخص نے کب اس کی عزت پر کن لوگوں کے سامنے حملہ کیا تھا اور اس کی وجہ سے کس کس کی نظر میں وہ ذلیل و حقیر ہو کر رہ گیا ۔ اس بے خبری کی وجہ سے اسے اس غیبت کی سرے سے کوئی اذیت نہ پہنچے گی ، مگر اس کی عزت پر بہرحال اس سے حرف آئے گا ، اس لیے یہ فعل اپنی نوعیت میں مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے مختلف نہیں ہے ۔
دہشت گرد اور ہراس پھیلانے والے ناپسندیدہ لوگ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو بد گمانی کرنے ، تہمت رکھنے اپنوں اور غیروں کو خوفزدہ کرنے ، خواہ مخواہ کی دہشت دل میں رکھ لینے سے روکتا ہے اور فرماتا ہے کہ بسا اوقات اکثر اس قسم کے گمان بالکل گناہ ہوتے ہیں پس تمہیں اس میں پوری احتیاط چاہیے ۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا تیرے مسلمان بھائی کی زبان سے جو کلمہ نکلا ہو جہاں تک تجھ سے ہو سکے اسے بھلائی اور اچھائی پر محمول کر ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کعبہ کرتے ہوئے فرمایا تو کتنا پاک گھر ہے ؟ تو کیسی بڑی حرمت والا ہے؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ مومن کی حرمت اس کے مال اور اس کی جان کی حرمت اور اس کے ساتھ نیک گمان کرنے کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری حرمت سے بہت بڑی ہے ۔ یہ حدیث صرف ابن ماجہ میں ہی ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بد گمانی سے بچو گمان سب سے بڑی جھوٹی بات ہے بھید نہ ٹٹو لو ۔ ایک دوسرے کی ٹوہ حاصل کرنے کی کوشش میں نہ لگ جایا کرو حسد بغض اور ایک دوسرے سے منہ پھلانے سے بچو سب مل کر اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو سہو ۔ مسلم وغیرہ میں ہے ایک دوسرے سے روٹھ کر نہ بیٹھ جایا کرو ، ایک دوسرے سے میل جول ترک نہ کر لیا کرو ، ایک دوسرے کا حسد بغض نہ کیا کرو بلکہ سب مل کر اللہ کے بندے آپس میں دوسرے کے بھائی بند ہو کر زندگی گذارو ۔ کسی مسلمان کو حلال نہیں کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال اور میل جول چھوڑ دے طبرانی میں ہے کہ تین خصلتیں میری امت میں رہ جائیں گی فال لینا ، حسد کرنا اور بدگمانی کرنا ۔ ایک شخص نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر ان کا تدارک کیا ہے ؟ فرمایا جب حسد کرے تو استغفار کر لے ۔ جب گمان پیدا ہو تو اسے چھوڑ دے اور یقین نہ کر اور جب شگون لے خواہ نیک نکلے خواہ بد اپنے کام سے نہ رک اسے پورا کر ۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک شخص کو حضرت ابن مسعود کے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ اس کی ڈاڑھی سے شراب کے قطرے گر رہے ہیں آپ نے فرمایا ہمیں بھید ٹٹولنے سے منع فرمایا گیا ہے اگر ہمارے سامنے کوئی چیز ظاہر ہو گئی تو ہم اس پر پکڑ سکتے ہیں مسند احمد میں ہے کہ عقبہ کے کاتب وجین کے پاس گئے حضرت عقبہ گئے اور ان سے کہا کہ میرے پڑوس میں کچھ لوگ شرابی ہیں میرا ارادہ ہے کہ میں داروغہ کو بلا کر انہیں گرفتار کرا دوں ، آپ نے فرمایا ایسا نہ کرنا بلکہ انہیں سمجھاؤ بجھاؤ ڈانٹ ڈپٹ کر دو ، پھر کچھ دنوں کے بعد آئے اور کہا وہ باز نہیں آتے اب تو میں ضرور داروغہ کو بلاؤں گا آپ نے فرمایا افسوس افسوس تم ہرگز ہرگز ایسا نہ کرو سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کی پردہ داری کرے اسے اتنا ثواب ملے گا جیسے کسی نے زندہ درگور کردہ لڑکی کو بچا لیا ۔ ابو داؤد میں ہے حضرت معاویہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر تو لوگوں کے باطن اور ان کے راز ٹٹولنے کے درپے ہو گا تو تو انہیں بگاڑ دے گا یا فرمایا ممکن ہے تو انہیں خراب کر دے ۔ حضرت ابو درداء فرماتے ہیں اس حدیث سے اللہ تعالیٰ نے حضرت معاویہ کو بہت فائدہ پہنچایا ۔ ابو داؤد کی ایک اور حدیث میں ہے کہ امیر اور بادشاہ جب اپنے ماتحتوں اور رعایا کی برائیاں ٹٹولنے لگ جاتا ہے اور گہرا اترنا شروع کر دیتا ہے تو انہیں بگاڑ دیتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ تجسس نہ کرو یعنی برائیاں معلوم کرنے کی کوشش نہ کرو تاک جھانک نہ کیا کرو اسی سے جاسوس ماخذ ہے تجسس کا اطلاق عموما برائی پر ہوتا ہے اور تحسس کا اطلاق بھلائی ڈھونڈنے پر ۔ جیسے حضرت یعقوب اپنے بیٹوں سے فرماتے ہیں ( يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ وَلَا تَايْـــــَٔـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ 87؀ ) 12- یوسف:87 ) ، بچو تم جاؤ اور یوسف کو ڈھونڈو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو اور کبھی کبھی ان دونوں کا استعمال شر اور برائی میں بھی ہوتا ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے نہ تجسس کرو نہ تحسس کرو نہ حسد و بغض کرو نہ منہ موڑو بلکہ سب مل کر اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ امام اوزاعی فرماتے ہیں تجسس کہتے ہیں کسی چیز میں کرید کرنے کو اور تحسس کہتے ہیں ان لوگوں کی سرگوشی پر کان لگانے کو جو کسی کو اپنی باتیں سنانا نہ چاہتے ہوں ۔ اور تدابر کہتے ہیں ایک دوسرے سے رک کر آزردہ ہو کر قطع تعلقات کرنے کو ۔ پھر غیبت سے منہ فرماتا ہے ابو داؤد میں ہے لوگوں نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیبت کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنے مسلمان بھائی کی کسی ایسی بات کا ذکر کرے جو اسے بری معلوم ہو تو کہا گیا اگر وہ برائی اس میں ہو جب بھی ؟ فرمایا ہاں غیبت تو یہی ہے ورنہ بہتان اور تہمت ہے ۔ ابو داؤد میں ہے ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ صفیہ تو ایسی ایسی ہیں مسدد راوی کہتے ہیں یعنی کم قامت ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے ایسی بات کہی ہے کہ سمندر کے پانی میں اگر ملا دی جائے تو اسے بھی بگاڑ دے اور ایک مرتبہ آپ کے سامنے کسی شخص کی کچھ ایسی ہی باتیں بیان کی گئیں تو آپ نے فرمایا میں اسے پسند نہیں کرتا مجھے چاہے ایسا کرنے میں کوئی بہت بڑا نفع ہی ملتا ہو ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک بی بی صاحبہ حضرت عائشہ کے ہاں آئیں جب وہ جانے لگیں تو صدیقہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارے سے کہا کہ یہ بہت پست قامت ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ان کی غیبت کی الغرض غیبت حرام ہے اور اس کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ لیکن ہاں شرعی مصلحت کی بنا پر کسی کی ایسی بات کا ذکر کرنا غیبت میں داخل نہیں جیسے جرح و تعدیل نصیحت و خیر خواہی جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فاجر شخص کی نسبت فرمایا تھا یہ بہت برا آدمی ہے اور جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا معاویہ مفلس شخص ہے اور ابو الجہم بڑا مارنے پیٹنے والا آدمی ہے ۔ یہ آپ نے اس وقت فرمایا تھا جبکہ ان دونوں بزرگوں نے حضرت فاطمہ بنت قیس سے نکاح کا مانگا ڈالا تھا اور بھی جو باتیں اس طرح کی ہوں ان کی تو اجازت ہے باقی اور غیبت حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے ۔ اسی لئے یہاں فرمایا کہ جس طرح تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے گھن کرتے ہو اس سے بہت زیادہ نفرت تمہیں غیبت سے کرنی چاہیے ۔ جیسے حدیث میں ہے اپنے دئیے ہوئے ہبہ کو واپس لینے والا ایسا ہے جیسے کتا جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے اور فرمایا بری مثال ہمارے لئے لائق نہیں ۔ حجۃ الوداع کے خطبے میں ہے تمہارے خون مال آبرو تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسی حرمت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں ہے ۔ ابو داؤد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان کا مال اس کی عزت اور اس کا خون مسلمان پر حرام ہے انسان کو اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی حقارت کرے ۔ اور حدیث میں ہے اے وہ لوگو جن کی زبانیں تو ایمان لاچکیں ہیں لیکن دل ایماندار نہیں ہوئے تم مسلمانوں کی غیبتیں کرنا چھوڑ دو اور ان کے عیبوں کی کرید نہ کیا کرو یاد رکھو اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ خرابیوں کو ظاہر کر دے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھرانے والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے ، مسند ابو یعلی میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ سنایا جس میں آپ نے پردہ نشین عورتوں کے کانوں میں بھی اپنی آواز پہنچائی اور اس خطبہ میں اوپر والی حدیث بیان فرمائی ، حضرت ابن عمر نے ایک مرتبہ کعبہ کی طرف دیکھا اور فرمایا تیری حرمت و عظمت کا کیا ہی کہنا ہے لیکن تجھ سے بھی بہت زیادہ حرمت ایک ایماندار شخص کی اللہ کے نزدیک ہے ۔ ابو داؤد میں ہے جس نے کسی مسلمان کی برائی کر کے ایک نوالہ حاصل کیا اسے جہنم کی اتنی ہی غذا کھلائی جائے گی اسی طرح جس نے مسلمانوں کی برائی کرنے پر پوشاک حاصل کی اسے اسی جیسی پوشاک جہنم کی پہنائی جائے گی اور جو شخص کسی دوسرے کی بڑائی دکھانے سنانے کو کھڑا ہوا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دکھاوے سناوے کے مقام میں کھڑا کر دے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ناخن تانبے کے ہیں جن سے وہ اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے ہیں میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ وہ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتیں لوٹتے تھے ( ابو داؤد ) اور روایت میں ہے کہ لوگوں کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا معراج والی رات میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا جن میں مرد و عورت دونوں تھے کہ فرشتے انکے پہلوؤں سے گوشت کاٹتے ہیں اور پھر انہیں اس کے کھانے پر مجبور کر رہے ہیں اور وہ اسے چبا رہے ہیں میرے سوال پر کہا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو طعنہ زن ، غیبت گو ، چغل خور تھے ، انہیں جبراً آج خود ان کا گوشت کھلایا جا رہا ہے ( ابن ابی حاتم ) یہ حدیث بہت مطول ہے اور ہم نے پوری حدیث سورہ سبحٰن کی تفسیر میں بیان بھی کر دی ہے فالحمد اللہ ۔ مسند ابو داؤد طیالسی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو روزے کا حکم دیا اور فرمایا جب تک میں نہ کہوں کوئی افطار نہ کرے شام کو لوگ آنے لگے اور آپ سے دریافت کرنے لگے آپ انہیں اجازت دیتے اور وہ افطار کرتے اتنے میں ایک صاحب آئے اور عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں نے روزہ رکھا تھا جو آپ ہی کے متعلقین میں سے ہیں انہیں بھی آپ اجازت دیجئے کہ روزہ کھول لیں آپ نے اس سے منہ پھیر لیا اس نے دوبارہ عرض کی تو آپ نے فرمایا وہ روزے سے نہیں ہیں کیا وہ بھی روزے دار ہو سکتا ہے ؟ جو انسانی گوشت کھائے جاؤ انہیں کہو کہ اگر وہ روزے سے ہیں تو قے کریں چنانچہ انہوں نے قے کی جس میں خون جمے کے لوتھڑے نکلے اس نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی آپ نے فرمایا اگر یہ اسی حالت میں مر جاتیں تو آگ کا لقمہ بنتیں ۔ اس کی سند ضعیف ہے اور متن بھی غریب ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے کہا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں عورتوں کی روزے میں بری حالت ہے مارے پیاس کے مر رہی ہیں اور یہ دوپہر کا وقت تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی پر اس نے دوبارہ کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو مر گئی ہوں گی یا تھوڑی دیر میں مر جائیں گی آپ نے فرمایا جاؤ انہیں بلا لاؤ جب وہ آئیں تو آپ نے دودھ کا مٹکا ایک کے سامنے رکھ کر فرمایا اس میں قے کر اس نے قے کی تو اس میں پیپ خون جامد وغیرہ نکلی جس سے آدھا مٹکا بھر گیا پھر دوسری سے قے کرائی اس میں بھی یہی چیزیں اور گوشت کے لوتھڑے وغیرہ نکلے اور مٹکا بھر گیا ، اس وقت آپ نے فرمایا انہیں دیکھو حلال روزہ رکھے ہوئے تھیں اور حرام کھا رہی تھیں دونوں بیٹھ کر لوگوں کے گوشت کھانے لگی تھیں ( یعنی غیبت کر رہی تھیں ) ( مسند احمد ) مسند حافظ ابو یعلی میں ہے کہ حضرت ماعز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے زنا کیا ہے آپ نے منہ پھیر لیا یہاں تک کہ وہ چار مرتبہ کہہ چکے پھر پانچویں دفعہ آپ نے کہا تو نے زنا کیا ہے ؟ جواب دیا ہاں فرمایا جانتا ہے زنا کسے کہتے ہیں ؟ جواب دیا ہاں جس طرح انسان اپنی حلال عورت کے پاس جاتا ہے اسی طرح میں نے حرام عورت سے کیا ۔ آپ نے فرمایا اب تیرا مقصد کیا ہے ؟ کہا یہ کہ آپ مجھے اس گناہ سے پاک کریں آپ نے فرمایا کیا تو نے اسی طرح دخول کیا تھا جس طرح سلائی سرمہ دانی میں اور لکڑی کنویں میں ؟ کہا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ نے انہیں رجم کرنے یعنی پتھراؤ کرنے کا حکم دیا چنانچہ یہ رجم کر دئے گئے ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسے دیکھو اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی لیکن اس نے اپنے تئیں نہ چھوڑا یہاں تک کہ کتے کی طرح پتھراؤ کیا گیا ۔ آپ یہ سنتے ہوئے چلتے رہے تھوڑی دیر بعد آپ نے دیکھا کہ راسے میں ایک مردہ گدھا پڑا ہوا ہے فرمایا فلاں فلاں شخص کہاں ہیں ؟ وہ سواری سے اتریں اور اس گدھے کا گوشت کھائیں انہوں نے کہا یارسول اللہ ، اللہ تعالیٰ آپ کو بخشے کیا یہ کھانے کے قابل ہے ؟ آپ نے فرمایا ابھی جو تم نے اپنے بھائی کی بدی بیان کی تھی وہ اس سے بھی زیادہ بری چیز تھی ۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ شخص جسے تم نے برا کہا تھا وہ تو اب اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے ۔ اس کی اسناد صحیح ہے ۔ مسند احمد میں ہے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ نہایت سڑی ہوئی مرداری بو والی ہوا چلی آپ نے فرمایا جانتے ہو ؟ یہ بو کس چیز کی ہے؟ یہ بدبو ان کی ہے جو لوگوں کی غیبت کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ منافقوں کے ایک گروہ نے مسلمانوں کی غیبت کی ہے یہ بدبودار ہوا وہ ہے ۔ حضرت سدی فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان ایک سفر میں دو شخصوں کے ساتھ تھے جن کی یہ خدمت کرتے تھے اور وہ انہیں کھانا کھلاتے تھے ایک مرتبہ حضرت سلمان سو گئے تھے اور قافلہ آگے چل پڑا پڑاؤ ڈالنے کے بعد ان دونوں نے دیکھا کہ حضرت سلمان نہیں تو اپنے ہاتھوں سے انہیں خیمہ کھڑا کرنا پڑا اور غصہ سے کہا سلمان تو بس اتنے ہی کام کا ہے کہ پکی پکائی کھا لے اور تیار خیمے میں آ کر آرام کر لے ۔ تھوڑی دیر بعد حضرت سلمان پہنچے ان دونوں کے پاس سالن نہ تھا تو کہا تم جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لئے سالن لے آؤ ۔ یہ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرے دونوں ساتھیوں نے بھیجا ہے کہ اگر آپ کے پاس سالن ہو تو دے دیجئے آپ نے فرمایا وہ سالن کا کیا کریں گے ؟ انہوں نے تو سالن پا لیا ۔ حضرت سلمان واپس گئے اور جا کر ان سے یہ بات کہی وہ اٹھے اور خود حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تو سالن نہیں نہ آپ نے بھیجا آپ نے فرمایا تم نے مسلمان کے گوشت کا سالن کھا لیا جبکہ تم نے انہیں یوں کہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( میتاً ) اس لئے کہ وہ سوئے ہوئے تھے اور یہ ان کی غیبت کر رہے تھے ۔ مختار ابو ضیا میں تقریبًا ایسا ہی واقعہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے اس خادم کا گوشت تمہارے دانتوں میں اٹکا ہوا دیکھ رہا ہوں اور ان کا اپنے غلام سے جبکہ وہ سویا ہوا تھا اور ان کا کھانا تیار نہیں کیا تھا صرف اتنا ہی کہنا مروی ہے کہ یہ تو بڑا سونے والا ہے ان دونوں بزرگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ ہمارے لئے استغفار کریں ابو یعلی میں ہے جس نے دنیا میں اپنے بھائی کا گوشت کھایا ( یعنی اس کی غیبت کی ) قیامت کے دن اس کے سامنے وہ گوشت لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ جیسے اس کی زندگی میں تو نے اس کا گوشت کھایا تھا اب اس مردے کا گوشت بھی کھا ۔ اب یہ چیخے گا چلائے گا ہائے وائے کرے گا اور اسے جبراً وہ مردہ گوشت کھانا پڑے گا ۔ یہ روایت بہت غریب ہے پھر فرماتا ہے اللہ کا لحاظ کرو اس کے احکام بجا لاؤ اس کی منع کردہ چیزوں سے رک جاؤ اور اس سے ڈرتے رہا کرو ۔ جو اس کی طرف جھکے وہ اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جو اس پر بھروسہ کرے اس کی طرف رجوع کرے وہ اس پر رحم اور مہربانی فرماتا ہے ۔ جمہور علماء کرام فرماتے ہیں غیبت گو کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے اور پھر سے اس گناہ کو نہ کرے پہلے جو کر چکا ہے اس پر نادم ہونا بھی شرط ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے اور جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی حاصل کر لے ۔ بعض کہتے ہیں یہ بھی شرط نہیں اس لئے کہ ممکن ہے اسے خبر ہی نہ ہو اور معافی مانگنے کو جب جائے گا تو اسے اور رنج ہو گا ۔ پس اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جن مجلسوں میں اس کی برائی بیان کی تھی ان میں اب اس کی سچی صفائی بیان کرے اور اس برائی کو اپنی طاقت کے مطابق دفع کر دے تو اولا بدلہ ہو جائے گا ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اس وقت کسی مومن کی حمایت کرے جبکہ کوئی منافق اس کی مذمت بیان کر رہا ہو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو مقرر کر دیتا ہے جو قیامت والے دن اس کے گوشت کو نار جہنم سے بچائے گا اور جو شخص کسی مومن پر کوئی ایسی بات کہے گا جس سے اس کا ارادہ اسے مطعون کرنے کا ہو اسے اللہ تعالیٰ پل صراط پر روک لے گا یہاں تک کہ بدلا ہو جائے یہ حدیث ابو داؤد میں بھی ہے ابو داؤد کی ایک اور حدیث میں ہے جو شخص کسی مسلمان کی بےعزتی ایسی جگہ میں کرے جہاں اس کی آبرو ریزی اور توہین ہوتی ہو تو اسے بھی اللہ تعالیٰ ایسی جگہ رسوا کرے گا جہاں وہ اپنی مدد کا طالب ہو اور جو مسلمان ایسی جگہ اپنے بھائی کی حمایت کرے اللہ تعالیٰ بھی ایسی جگہ اس کی نصرت کرے گا ( ابو داؤد )