Surah

Information

Surah # 49 | Verses: 18 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 106 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ وَّاُنۡثٰى وَجَعَلۡنٰكُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآٮِٕلَ لِتَعَارَفُوۡا‌ ؕ اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَ تۡقٰٮكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ خَبِيۡرٌ‏ ﴿13﴾
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ( ہی ) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں ، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے ۔
يايها الناس انا خلقنكم من ذكر و انثى و جعلنكم شعوبا و قباىل لتعارفوا ان اكرمكم عند الله اتقىكم ان الله عليم خبير
O mankind, indeed We have created you from male and female and made you peoples and tribes that you may know one another. Indeed, the most noble of you in the sight of Allah is the most righteous of you. Indeed, Allah is Knowing and Acquainted.
Aey logo! Hum ney tum sabb ko aik ( hi ) mard-o-orat say peda kiya hai aur iss liye kay tum aapas mein aik doosray ko pehchano kunbay aur qabeelay bana diye hain Allah kay nazdeek tum sabb mein say ba-izzat woh hai jo sabb say ziyadah darney wala hai yaqeen mano kay Allah dana aur ba-khabar hai.
اے لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے ، اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو ، ( ٩ ) درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو ۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا ، ہر چیز سے باخبر ہے ۔
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد ( ف۲۹ ) اور ایک عورت ( ف۳۰ ) سے پیدا کیا ( ف۳۱ ) اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو ( ف۳۲ ) بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ( ف۳۳ ) بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے ،
لوگو ، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے 28 ۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے 29 ۔
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں ( بڑی بڑی ) قوموں اور قبیلوں میں ( تقسیم ) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو ، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :28 پچھلی آیات میں اہل ایمان کو خطاب کر کے وہ ہدایات دی گئی تھیں جو مسلم معاشرے کو خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں ۔ اب اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کر کے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کی موجب بنی رہی ہے ، یعنی نسل ، رنگ ، زبان ، وطن اور قومیت کا تعصب قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا ، اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے ۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھنچے گئے ہیں ۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان ، قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا ہے ، اور کہیں ایک جغرافی خطے میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہو جانا ۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی ہے کہ جنہیں اس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو کہ ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو ، بلکہ اس تمیز نے نفرت ، عداوت ، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کی بد ترین شکلیں اختیار کی ہیں ۔ اس کے لیے فلسفے گھڑے گئے ہیں ۔ مذہب ایجاد کیے گئے ہیں ۔ قوانین بنائے گئے ہیں ۔ اخلاقی اصول وضع کیے گئے ہیں ۔ قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پر عمل در آمد کیا ہے ۔ یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیلیوں سے فروتر رکھا ۔ ہندوؤں کے ہاں ورن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی رو سے برہمنوں کی برتری قائم کی گئی ، اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھہرائے گئے ، اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا ۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ، آج اس بیسویں صدی ہی میں ہر شخص اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ سکتا ہے ۔ یورپ کے لوگوں نے براعظم امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین نسل کے ساتھ جو سلوک کیا اور ایشیا اور افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کر کے جو برتاؤ ان کے ساتھ کیا اسکی تہ میں بھی یہی تصور کار فرما رہا کہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے حدود سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان ، مال اور آبرو ان پر مباح ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ ان کو لوٹیں ، غلام بنائیں ، اور ضرورت پڑے تو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں ۔ مغربی اقوام کی قوم پرستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کے لیے جس طرح درندہ بنا کر رکھ دیا ہے اس کی بد ترین مثالیں زمانہ قریب کی لڑائیوں میں دیکھی جاچکی ہیں اور آج دیکھی جا رہی ہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ نازی جرمنی کا فلسفہ نسلیت اور نارڈک نسل کی برتری کا تصور پچھلی جنگ عظیم میں جو کرشمے دکھا چکا ہے انہیں نگاہ میں رکھا جائے تو آدمی بآسانی یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم تباہ کن گمراہی ہے جس کی اصلاح کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں: ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہے ، ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے ، اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور ایک باپ سے شروع ہوئی تھی ۔ اس سلسلہ تخلیق میں کسی جگہ بھی اس تفرقے اور اونچ نیچ کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے جس کے زعم باطل میں تم مبتلا ہو ۔ ایک ہی خدا تمہارا خالق ہے ، ایسا نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کو مختلف خداؤں نے پیدا کیا ہو ۔ ایک ہی مادہ تخلیق سے تم بنے ہو ، ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ انسان کسی پاک یا بڑھیا مادے سے بنے ہوں اور کچھ دوسرے انسان کسی ناپاک یا گھٹیا مادے سے بن گئے ہوں ۔ ایک ہی طریقے سے تم پیدا ہوئے ہو ، یہ بھی نہیں ہے کہ مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیدا ہوئی ہوں ۔ دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا ایک فطری امر تھا ۔ ظاہر ہے کہ پوری روئے زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان تو نہیں ہو سکتا تھا ۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ بے شمار خاندان بنیں اور پھر خاندانوں سے قبائل اور اقوام وجود میں آجائیں ۔ اسی طرح زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کے بعد رنگ ، خد و خال ، زبانیں ، اور طرز بود و ماند بھی لا محالہ مختلف ہی ہو جانے تھے ، اور ایک خطے کے رہنے والوں کو باہم قریب تر اور دور دراز خطوں کے رہنے والوں کو بعید تر ہی ہونا تھا ۔ مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ نیچ ، شریف اور کمین ، برتر اور کمتر کے امتیازات قائم کیے جائیں ، ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے ، ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں ، ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوّق جمائے ، اور انسانی حقوق میں ایک ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح حاصل ہو ۔ خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ ان کے درمیان باہمی تعارف اور تعاون کی فطری صورت یہی تھی ۔ اسی طریقے سے ایک خاندان ، ایک برادری ، ایک قبیلے اور ایک قوم کے لوگ مل کر مشترک بنا سکتے تھے اور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے مددگار بن سکتے تھے ۔ مگر یہ محض شیطانی جہالت تھی کہ جس چیز کو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کا ذریعہ بنایا تھا اسے تفاخُر اور تنافُر کا ذریعہ بنا لیا گیا اور پھر نوبت ظلم و عدو ان تک پہنچا دی گئی ۔ تیسرے یہ کہ انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اور ہو سکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت ہے ۔ پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان یکساں ہیں ، کیونکہ ان کا پیدا کرنے والا ایک ہے ، ان کا مادہ پیدائش اور طریق پیدائش ایک ہی ہے ، اور ان سب کا نسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتا ہے ۔ علاوہ بریں کسی شخص کا کسی خاص ملک قوم یا برادری میں پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس میں اس کے اپنے ارادہ و انتخاب اور اس کی اپنی سعی و کوشش کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہو ۔ اصل چیز جس کی بنا پر ایک شخص کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا ، برائیوں سے بچنے والا ، اور نیکی و پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو ۔ ایسا آدمی خواہ کسی نسل ، کسی قوم اور کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو ، اپنی ذاتی خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے ۔ اور جس کا حال اس کے برعکس ہو وہ بہرحال ایک کمتر درجے کا انسان ہے چاہے وہ کالا ہو یا گورا ، مشرق میں پیدا ہوا ہو یا مغرب میں ۔ یہی حقائق جو قرآن کی ایک مختصر سی آیت میں بیان کیے گئے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے مختلف خطبات اور ارشادات میں زیادہ کھول کر بیان فرمایا ہے ۔ فتح مکہ کے موقع پر طواف کعبہ کے بعد آپ نے جو تقریر فرمائی تھی اس میں فرمایا: الحمد للہ الذی اذھب عنکم عیبۃ الجاھلیۃ و تکبرھا ۔ یاایھا الناس ، الناس رجلان ، برٌّ تقی کریمٌ علی اللہ ، و فاجر شقی ھَیِّنٌ علی اللہ ۔ الناس کلہم بنو اٰدم و خلق اللہ اٰدمَ من ترابٍ ۔ ( بیہقی فی شعب الایمان ۔ ترمذی ) شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کر دیا ۔ لوگو ، تمام انسان بس دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں ۔ ایک ، نیک اور پرہیز گار ، جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے ۔ دوسرا فاجر اور شقی ، جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے ۔ ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ایام تشریق کے وسط میں آپ نے ایک تقریر کی اور اس میں فرمایا: یا ایھا الناس ، الا ان ربکم واحدٌ لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علیٰ عربی ولا لاسود علی احمر ولا لاحمر علی اسود الا بالتقویٰ ، ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم ۔ الا ھل بلغتُ؟ قالوا بلیٰ یا رسول اللہ ، قال فلیبلغ الشاھد الغائب ۔ ( بیہقی ) لوگو ، خبردار رہو ، تم سب کا خدا ایک ہے ۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے اعتبار سے ۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو ۔ بتاؤ ، میں نے تمہیں بات پہنچا دی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ۔ فرمایا ، اچھا تو جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں ۔ ایک حدیث میں آپ کا رشاد ہے : کلکم بنو اٰدم و اٰدم خلق من تراب ولینتھینَّ قوم یفخرون بآبائِھم او لیکونن اھون علی اللہ من الجعلان ۔ ( بزار ) تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے ۔ لوگ اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا چھوڑ دیں ورنہ وہ اللہ کی نگاہ میں ایک حقیر کیڑے سے زیادہ ذلیل ہوں گے ۔ ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا: ان اللہ لا یسئلکم عن احسابکم ولا عن انسابکم یوم القیٰمۃ ، ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم ۔ ( ابن جریر ) اللہ قیامت کے روز تمہارا حسب نسب نہیں پوچھے گا ۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو ۔ ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں: انّ اللہ لا ینظر الیٰ صُورکم و اموالکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم ( مسلم ۔ ابن ماجہ ) اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے ۔ یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں رہی ہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر کے دکھا دی ہے جس میں رنگ ، نسل ، زبان ، وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہیں جس میں اونچ نیچ اور چھوت چھات اور تفریق و تعصب کا کوئی تصور نہیں ، جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ وہ کسی نسل و قوم اور ملک و وطن سے تعلق رکھتے ہوں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں ۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عملی شکل دی گئی ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی دین اور کسی نظام میں نہیں پائی جاتی نہ کبھی پائی گئی ہے ۔ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بے شمار نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنا دیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی کو رفع کر دینا بھی ضروری ہے ۔ شادی بیاہ کے معاملہ میں اسلامی قانون کفو کو جو اہمیت دیتا ہے اس کو بعض لوگ اس معنی میں لیتے ہیں کہ کچھ برادریاں شریف اور کچھ کمین ہیں اور ان کے درمیان مناکحت قابل اعتراض ہے ۔ لیکن دراصل یہ ایک غلط خیال ہے ۔ اسلامی قانون کی رو سے ہر مسلمان مرد کا ہر مسلمان عورت سے نکاح ہو سکتا ہے ، مگر ازدواجی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ زوجین کے درمیان عادات ، خصائل ، طرز زندگی ، خاندانی روایات اور معاشی و معاشرتی حالات میں زیادہ سے زیادہ مطابقت ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھی طرح نباہ کر سکیں ۔ یہی کفاءت کا اصل مقصد ہے ۔ جہاں مرد اور عورت کے درمیان اس لحاظ سے بہت زیادہ بعد ہو وہاں عمر بھر کی رفاقت نبھ جانے کی کم ہی توقع ہو سکتی ہے ، اس لیے اسلامی قانون ایسے جوڑ لگانے کو ناپسند کرتا ہے ، نہ اس بنا پر کہ فریقین میں سے ایک شریف اور دوسرا کمین ہے ، بلکہ اس بنا پر کہ حالات میں زیادہ بین فرق و اختلاف ہو تو شادی بیاہ کا تعلق کرنے میں ازدواجی زندگیوں کے ناکام ہو جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :29 یعنی یہ بات اللہ ہی جانتا ہے کہ کون فی الواقع ایک اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور کون اوصاف کے لحاظ سے ادنیٰ درجے کا ہے ۔ لوگوں نے بطور خود اعلیٰ اور ادنیٰ کے جو معیار بنا رکھے ہیں یہ اللہ کے ہاں چلنے والے نہیں ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ جس کو دنیا میں بہت بلند مرتبے کا آدمی سمجھا گیا ہو وہ اللہ کے آخری فیصلے میں کم ترین خلائق قرار پائے ، اور ہو سکتا ہے کہ جو یہاں بہت حقیر سمجھا گیا ہو ، وہ وہاں بڑا اونچا مرتبہ پائے ۔ اصل اہمیت دنیا کی عزت و ذلت کی نہیں بلکہ اس ذلت و عزت کی ہے جو خدا کے ہاں کسی کو نصیب ہو ۔ اس لیے انسان کو ساری فکر اس امر کی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اندر وہ حقیقی اوصاف پیدا کرے جو اسے اللہ کی نگاہ میں عزت کے لائق بنا سکتے ہوں ۔
نسل انسانی کا نکتہ آغاز اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے تمام انسانوں کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے یعنی حضرت آدم سے ان ہی سے ان کی بیوی صاحبہ حضرت حوا کو پیدا کیا تھا اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی پھیلی ۔ شعوب قبائل سے عام ہے مثال کے طور پر عرب تو شعوب میں داخل ہے پھر قریش غیر قریش پھر ان کی تقسیم میں یہ سب قبائل داخل ہے بعض کہتے ہیں شعوب سے مراد عجمی لوگ اور قبائل سے مراد عرب جماعتیں ۔ جیسے کہ بنی اسرائیل کو اسباط کہا گیا ہے میں نے ان تمام باتوں کو ایک علیحدہ مقدمہ میں لکھ دیا ہے جسے میں نے ابو عمر بن عبداللہ کی کتاب الانباہ اور کتاب القصد والامم فی معرفۃ انساب العرب والعجم سے جمع کیا ہے مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں توکل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی اطاعت اللہ اور اتباع نبوی کی وجہ سے ہو گی یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں کنبے قبیلے برادریاں اور جماعتیں صرف پہچان کے لئے ہیں تاکہ جتھا بندی اور ہمدردی قائم رہے ۔ فلاں بن فلاں قبیلے والا کہا جاسکے اور اس طرح ایک دوسرے کی پہچان آسان ہو جائے ورنہ بشریت کے اعتبار سے سب قومیں یکساں ہیں حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں قبیلہ حمیر اپنے حلفیوں کی طرف منسوب ہوتا تھا اور حجازی عرب اپنے قبیلوں کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نسب کا علم حاصل کرو تاکہ صلہ رحمی کر سکو صلہ رحمی سے لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے تمہارے مال اور تمہاری زندگی میں اللہ برکت دے گا ۔ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے پھر فرمایا حسب نسب اللہ کے ہاں نہیں چلتا وہاں تو فضیلت ، تقویٰ اور پرہیز گاری سے ملتی ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو لوگوں نے کہا ہم یہ عام بات نہیں پوچھتے فرمایا پھر سب سے زیادہ بزرگ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے نبی ذادے تھے دادا بھی نبی تھے پردادا تو خلیل اللہ تھے انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں پوچھتے ۔ فرمایا پھر عرب کے بارے میں پوچھتے ہو ؟ سنو ! ان کے جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں ممتاز تھے وہی اب اسلام میں بھی پسندیدہ ہیں جب کہ وہ علم دین کی سمجھ حاصل کرلیں صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر سے فرمایا خیال رکھ کہ تو کسی سرخ و سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ہاں تقویٰ میں بڑھ جا تو فضیلت ہے ۔ طبرانی میں ہے مسلمان سب آپس میں بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ ۔ مسند بزار میں ہے تم سب اولاد آدم ہو اور خود حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لوگو اپنے باپ دادوں کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادہ ہلکے ہو جاؤ گے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر طواف کیا اور ارکان کو آپ اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے ۔ پھر چونکہ مسجد میں اس کے بٹھانے کو جگہ نہ ملی تو لوگوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ اتارا اور انٹنی بطن مسیل میں لے جا کر بٹھایا ۔ اس کے بعد آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمدو ثنا بیان کر کے فرمایا لوگو اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ دادوں پر فخر کرنے کی رسم اب دور کر دی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیزگار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ پھر فرمایا میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے حضرت آدم کے لڑکے ہو کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین و تقویٰ سے ہے انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ وہ بدگو ، بخیل ، اور فحش کلام ہو ۔ ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا تم سب میں سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور علیہ السلام منبر پر تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ مہمان نواز سب سے زیادہ پرہیزگار سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا سب سے زیادہ بری بات سے روکنے والا سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی کوئی چیز یا کوئی شخص کبھی بھلا نہیں لگتا تھا مگر تقوے والے انسان کے اللہ تمہیں جانتا ہے اور تمہارے کاموں سے بھی خبردار ہے ہدایت کے لائق جو ہیں انہیں راہ راست دکھاتا ہے اور جو اس لائق نہیں وہ بےراہ ہو رہے ہیں ۔ رحم اور عذاب اس کی مشیت پر موقوف ہیں فضیلت اس کے ہاتھ ہے جسے چاہے جس پر چاہے بزرگی عطا فرمائے یہ تمام امور اس کے علم اور اس کی خبر پر مبنی ہیں ۔ اس آیت کریمہ اور ان احادیث شریفہ سے استدلال کر کے علماء نے فرمایا ہے کہ نکاح میں قومیت اور حسب نسب کی شرط نہیں سوائے دین کے اور کوئی شرط معتبر نہیں ۔ دوسروں نے کہا ہے کہ ہم نسبی اور قومیت بھی شرط ہے اور ان کے دلائل ان کے سوا اور ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں اور ہم بھی انہیں کتاب الاحکام میں ذکر کر چکے ہیں فالحمد اللہ ۔ طبرانی میں حضرت عبدالرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے بنو ہاشم میں سے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ نسبت اور تمام لوگوں کے بہت زیادہ قریب ہوں پس فرمایا تیرے سوا میں بھی بہت زیادہ قریب ہوں ان سے بہ نسبت تیرے جو تجھے آپ سے نسبت ہے ۔