Surah

Information

Surah # 49 | Verses: 18 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 106 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا‌ ؕ قُلْ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰـكِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَلَمَّا يَدۡخُلِ الۡاِيۡمَانُ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ‌ ۚ وَاِنۡ تُطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَا يَلِتۡكُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِكُمۡ شَيۡـًٔــا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿14﴾
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ( مخالفت چھوڑ کر مطیع ہو گئے ) حالانکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا ۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
قالت الاعراب امنا قل لم تؤمنوا و لكن قولوا اسلمنا و لما يدخل الايمان في قلوبكم و ان تطيعوا الله و رسوله لا يلتكم من اعمالكم شيا ان الله غفور رحيم
The bedouins say, "We have believed." Say, "You have not [yet] believed; but say [instead], 'We have submitted,' for faith has not yet entered your hearts. And if you obey Allah and His Messenger, He will not deprive you from your deeds of anything. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful."
Dehaati log kehtay hain kay hum eman laye. Aap keh dijiye kay darhaqeeqat tum eman nahi laye lekin tum yun kaho kay hum islam laye ( mukhalifat chor ker mutee hogaye ) halankay abhi tak tumharay dilon mein eman dakhil hi nahi hua. Tum agar Allah ki aur uss kay rasool ki farmabardaari kerney lago gay to Allah tumharay aemaal mein say kuch bhi kum na keray ga. Be-shak Allah bakhshney wala meharbaan hai.
یہ دیہاتی کہتے ہیں کہ : ہم ایمان لے آئے ہیں ۔ ان سے کہو کہ : تم ایمان تو نہیں لائے ، البتہ یہ کہو کہ ہم نے ہتھیار ڈال دیے ہیں ، ( ١٠ ) اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ۔ اور اگر تم واقعی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال ( کے ثواب ) میں ذرا بھی کمی نہیں کرے گا ۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا ، بہت مہربان ہے ۔
گنوار بولے ہم ایمان لائے ( ف۳٤ ) تم فرماؤ تم ایمان تو نہ لائے ( ف۳۵ ) ہاں یوں کہوں کہ ہم مطیع ہوئے ( ف۳٦ ) اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں کہاں داخل ہوا ( ف۳۷ ) اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے ( ف۳۸ ) تو تمہارے کسی عمل کا تمہیں نقصان نہ دے گا ( ف۳۹ ) بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لاۓ 30 ۔ ان سے کہو تم ایمان نہیں لاۓ ، بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہو گئے 31 ۔ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے ۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا ، یقیناً اللہ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے ۔
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں ، آپ فرما دیجئے: تم ایمان نہیں لائے ، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا ، اور اگر تم اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال ( کے ثواب میں ) سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا ، بیشک اﷲ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :30 اس سے مراد تمام بدوی نہیں ہیں بلکہ یہاں ذکر چند خاص بدوی گروہوں کا ہو رہا ہے جو اسلام میں بڑھتی ہوئی طاقت دیکھ کر محض اس خیال سے مسلمان ہو گئے تھے کہ وہ مسلمانوں کی ضرب سے محفوظ بھی رہیں گے اور اسلامی فتوحات کے قواعد سے متمتع بھی ہوں گے ۔ یہ لوگ حقیقت میں سچے دل سے ایمان نہیں لائے تھے ، محض زبانی اقرار ایمان کر کے انہوں نے مصلحۃً اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرا لیا تھا ۔ اور ان کی اس باطنی حالت کا راز اس وقت فاش ہو جاتا تھا جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر طرح طرح کے مطالبے کرتے تھے ، اور اپنا حق اس طرح جتاتے تھے کہ گویا انہوں نے اسلام قبول کر کے آپ پر بڑا احسان کیا ہے ۔ روایات میں متعدد قبائلی گروہوں کے اس رویے کا ذکر آیا ہے ۔ مثلاً مُزینہ ، جہینہ ، اسلم ، اشجع ، غِفار وغیرہ ۔ خاص طور پر بنی اَسد بن خزیمہ کے متعلق ابن عباس اور سعید بن جُبیر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ خشک سالی کے زمانہ میں وہ مدینہ آئے اور مالی مدد کا مطالبہ کرتے ہوئے بار بار انہوں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے کہا کہ ہم بغیر لڑے بھڑے مسلمان ہوئے ہیں ، ہم نے آپ سے اس طرح جنگ نہیں کی جس طرح فلاں اور فلاں قبیلوں نے جنگ کی ہے اس سے ان کا صاف مطلب یہ تھا کہ اللہ کے رسول سے جنگ نہ کرنا اور اسلام قبول کر لینا ان کا ایک احسان ہے جس کا معاوضہ انہیں رسول اور اہل ایمان سے ملنا چاہیے ۔ اطراف مدینہ کے بدوی گروہوں کا یہی وہ طرز عمل ہے جس پر ان آیات میں بات زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :31 اصل میں قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہو ہم مسلمان ہو گئے ہیں ان الفاظ سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ قرآن مجید کی زبان میں مومن اور مسلم دو متقابل اصطلاحیں ہیں ، مومن وہ ہے جو سچے دل سے ایمان لایا ہو اور مسلم وہ ہے جس نے ایمان کے بغیر محض ظاہر میں اسلام قبول کر لیا ہو ۔ لیکن در حقیقت یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اس جگہ ایمان کا لفظ قلبی تصدیق کے لیے اور اسلام کا لفظ محض ظاہر اطاعت کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ مگر یہ سمجھ لینا صحیح نہیں ہے کہ یہ قرآن مجید کی دو مستقل اور باہم متقابل اصطلاحیں ہیں ۔ قرآن کی جن آیات میں اسلام اور مسلم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان تتبعُّ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں اسلام اس دین حق کا نام ہے جو اللہ نے نوع انسانی کے لیے نازل کیا ہے ، اس کے مفہوم میں ایمان اور اطاعت امر دونوں شامل ہیں ، اور مسلم وہ ہے جو سچے دل سے مانے اور عملاً اطاعت کرے ۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ ( آل عمران 19 ) یقیناً اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْناً فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ۔ ( آل عمران ۔ 85 ) اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے اس کا وہ دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً ( المائدہ ۔ 3 ) اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیا ہے ۔ فَمَنْ یُّرِدِ اللہُ اَنْ یَّھْدِیَہ یَشْرَحْ صَدْرَہ لِلْاِسْلَامِ ۔ ( الانعام ۔ 125 ) اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینا اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان آیات میں اسلام سے مراد اطاعت بلا ایمان نہیں ہے ۔ پھر دیکھیے جگہ جگہ اس مضمون کی آیات آتی ہیں: قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ ۔ ( الانعام ۔ 14 ) اے نبی کہو مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والا میں ہوں ۔ فَاِنْ اَسْلَمُوا فَقَدِ اھْتَدَوْا ( آل عمران ۔ 20 ) پھر اگر وہ اسلام لے آئیں تو انہوں نے ہدایت پالی ۔ یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا ( المائدہ ۔ 44 ) تمام انبیاء جو اسلام لائے تھے تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے ۔ کیا یہاں اور اس طرح کے بیسیوں دوسرے مقامات پر اسلام قبول کرنے یا اسلام لانے کا مطلب ایمان کے بغیر اطاعت اختیار کر لینا ہے؟ اسی طرح مسلم کا لفظ بار بار جس معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے لیے نمونے کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں ۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا تَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔ ( آل عمرآن ۔ 102 ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ۔ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذا ( الحج ۔ 78 ) اس نے تمہارا نام پہلے بھی مسلم رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی ۔ مَا کَانَ اِبْرَاھِیْمُ یَھُودِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً ۔ ( آل عمران ۔ 67 ) ابراہیم ( علیہ السلام ) نہ یہودی تھا نہ نصرانی ، بلکہ وہ یک سُو مسلم تھا ۔ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ۔ ( البقرہ ۔ 128 ) ( تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم و اسماعیل کی دعا ) اے ہمارے رب ، اور ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری مسلم ہو ۔ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللہَ اصْطَفیٰ لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ( البقرہ ۔ 132 ) ( حضرت یعقوب کی وصیت اپنی اولاد کو ) اے میرے بچو! اللہ نے تمہارے لءے یہی دین پسند کیا ہے پس تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ۔ ان آیات کو پڑھ کر آخر کون یہ خیال کر سکتا ہے کہ ان میں مسلم سے مراد وہ شخص ہے جو دل سے نہ مانے ، بس ظاہری طور پر اسلام قبول کر لے؟ اس لیے یہ دعویٰ کرنا قطعی غلط ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں اسلام سے مراد اطاعت بلا ایمان ہے ، اور مسلم قرآن کی زبان میں محض بظاہر اسلام قبول کر لینے والے کو کہتے ہیں ۔ اسی طرح یہ دعویٰ کرنا بھی غلط ہے کہ ایمان اور مومن کے الفاظ قرآن مجید میں لازماً سچے دل سے ماننے ہی کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ بلا شبہ اکثر مقامات پر یہ الفاظ اسی مفہوم کے لیے آئے ہیں ، لیکن بکثرت مقامات ایسے بھی ہیں جہاں یہ الفاظ ظاہری اقرار ایمان کے لیے بھی استعمال کیے گئے ہیں ، اور یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔ کہہ کر ان سب لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے جو زبانی اقرار کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوئے ہوں ، قطع نظر اس سے کہ وہ سچے مومن ہوں ، یا ضعیف الایمان ، یا محض منافق ۔ اس کی بہت سی مثالوں میں سے صرف چند کے لیے ملاحظہ ہو آل عمران ، آیت 156 ۔ النساء ، 136 ۔ المائدہ ، 54 ۔ الانفال ، 20 ۔ 27 ۔ التوبہ ، 38 الحدید ، 28 ۔ الصّف ، 2 ۔
ایمان کا دعویٰ کرنے والے اپنا جائزہ تو لیں کچھ اعرابی لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہی اپنے ایمان کا بڑھا چڑھا کر دعویٰ کرنے لگتے تھے حالانکہ دراصل ان کے دل میں اب تک ایمان کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی تھیں ان کو اللہ تعالیٰ اس دعوے سے روکتا ہے یہ کہتے تھے ہم ایمان لائے ۔ اللہ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ ان کو کہئے اب تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا تم یوں نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوئے یعنی اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے نبی کی اطاعت میں آئے ہیں اس آیت نے یہ فائدہ دیا کہ ایمان اسلام سے مخصوص چیز ہے جیسے کہ اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے جبرائیل علیہ السلام والی حدیث بھی اسی پر دلالت کرتی ہے جبکہ انہوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا پھر ایمان کے بارے میں پھر احسان کے بارے میں ۔ پس وہ زینہ بہ زینہ چڑھتے گئے عام سے خاص کی طرف آئے اور پھر خاص سے اخص کی طرف آئے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو عطیہ اور انعام دیا اور ایک شخص کو کچھ بھی نہ دیا اس پر حضرت سعد نے فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو بالکل چھوڑ دیا حالانکہ وہ مومن ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان ؟ تین مرتبہ یکے بعد دیگرے حضرت سعد نے یہی کہا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی جواب دیا پھر فرمایا اے سعد میں لوگوں کو دیتا ہوں اور جو ان میں مجھے بہت زیادہ محبوب ہوتا ہے اسے نہیں دیتا ہوں ، دیتا ہوں اس ڈر سے کہ کہیں وہ اوندھے منہ آگ میں نہ گر پڑیں ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے پس اس حدیث میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن و مسلم میں فرق کیا اور معلوم ہو گیا کہ ایمان زیادہ خاص ہے بہ نسبت اسلام کے ۔ ہم نے اسے مع دلائل صحیح بخاری کی کتاب الایمان کی شرح میں ذکر کر دیا ہے فالحمد للہ ۔ اور اس حدیث میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ یہ شخص مسلمان تھے منافق نہ تھے اس لئے کہ آپ نے انہیں کوئی عطیہ عطا نہیں فرمایا اور اسے اس کے اسلام کے سپرد کر دیا ۔ پس معلوم ہوا کہ یہ اعراب جن کا ذکر اس آیت میں ہے منافق نہ تھے تھے تو مسلمان لیکن اب تک ان کے دلوں میں ایمان صحیح طور پر مستحکم نہ ہوا تھا اور انہوں نے اس بلند مقام تک اپنی رسائی ہو جانے کا ابھی سے دعویٰ کر دیا تھا اس لئے انہیں ادب سکھایا گیا ۔ حضرت ابن عباس اور ابراہیم نخعی اور قتادہ کے قول کا یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر نے اختیار کیا ہے ہمیں یہ سب یوں کہنا پڑا کہ حضرت امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ لوگ منافق تھے جو ایمان ظاہر کرتے تھے لیکن دراصل مومن نہ تھے ( یہ یاد رہے ایمان و اسلام میں فرق اس وقت ہے جبکہ اسلام اپنی حقیقت پر نہ ہو جب اسلام حقیقی ہو تو وہی اسلام ایمان ہے اور اسوقت ایمان اسلام میں کوئی فرق نہیں اس کے بہت سے قوی دلائل امام الائمہ حضرت امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں کتاب الایمان میں بیان فرمائے ہیں اور ان لوگوں کا منافق ہونا اس کا ثبوت بھی موجود ہے واللہ اعلم ۔ ( مترجم ) حضرت سعید بن جبیر ، حضرت مجاہد ، حضرت ابن زید فرماتے ہیں یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بلکہ تم ( اسلمنا ) کہو اس سے مراد یہ ہے کہ ہم قتل اور قید بند ہونے سے بچنے کے لئے تابع ہو گئے ہیں ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ یہ آیت بنو اسد بن خزیمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے حالانکہ اب تک وہاں پہنچے نہ تھے پس انہیں ادب سکھایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اب تک ایمان تک نہیں پہنچے اگر یہ منافق ہوتے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی اور ان کی رسوائی کی جاتی جیسے کہ سورہ برات میں منافقوں کا ذکر کیا گیا لیکن یہاں تو انہیں صرف ادب سکھایا گیا ۔ پھر فرماتا ہے اگر تم اللہ اور اسی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماں بردار رہو گے تو تمہارے کسی عمل کا اجر مارا نہ جائے گا ۔ جیسے فرمایا آیت ( وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21؀ ) 52- الطور:21 ) ہم نے ان کے اعمال میں سے کچھ بھی نہیں گھٹایا ۔ پھر فرمایا جو اللہ کی طرف رجوع کرے برائی سے لوٹ آئے اللہ اس کے گناہ معاف فرمانے والا اور اس کی طرف رحم بھری نگاہوں سے دیکھنے والا ہے پھر فرماتا ہے کہ کامل ایمان والے صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دل سے یقین رکھتے ہیں پھر نہ شک کرتے ہیں نہ کبھی ان کے دل میں کوئی نکما خیال پیدا ہوتا ہے بلکہ اسی خیال تصدیق پر اور کامل یقین پر جم جاتے ہیں اور جمے ہی رہتے ہیں اور اپنے نفس اور دل کی پسندیدہ دولت کو بلکہ اپنی جانوں کو بھی راہ اللہ کے جہاد میں خرچ کرتے ہیں ۔ یہ سچے لوگ ہیں یعنی یہ ہیں جو کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں یہ ان لوگوں کی طرح نہیں جو صرف زبان سے ہی ایمان کا دعویٰ کر کے رہ جاتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میں مومن کی تین قسمیں ہیں ( ١ ) وہ جو اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے شک شبہ نہ کیا اور اپنی جان اور اپنے مال سے راہ اللہ میں جہاد کیا ( ٢ ) وہ جن سے لوگوں نے امن پا لیا نہ یہ کسی کا مال ماریں نہ کسی کی جان لیں ( ٣ ) وہ جو طمع کی طرف جب جھانکتے ہیں اللہ عزوجل کی یاد کرتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا تم اپنے دل کا یقین و دین اللہ کو دکھاتے ہو ؟ وہ تو ایسا ہے کہ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ اس سے مخفی نہیں وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ پھر فرمایا جو اعراب اپنے اسلام لانے کا بار احسان تجھ پر رکھتے ہیں ان سے کہدو کہ مجھ پر اسلام لانے کا احسان نہ جتاؤ تم اگر اسلام قبول کرو گے میری فرماں برداری کرو گے میری مدد کرو گے تو اس کا نفع تمہیں کو ملے گا ۔ بلکہ دراصل ایمان کی دولت تمہیں دینا یہ اللہ ہی کا احسان ہے اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو ۔ ( اب غور فرمائیے کہ کیا اسلام لانے کا احسان پیغمبر اللہ پر جتانے والے سچے مسلمان تھے ؟ پس آیات کی ترتیب سے ظاہر ہے کہ ان کا اسلام حقیقت پر مبنی نہ تھا اور یہی الفاظ بھی ہیں کہ ایمان اب تک ان کے ذہن نشین نہیں ہوا اور جب تک اسلام حقیقت پر مبنی نہ ہو تب تک بیشک وہ ایمان نہیں لیکن جب وہ اپنی حقیقت پر صحیح معنی میں ہو تو پھر ایمان اسلام ایک ہی چیز ہے ۔ خود اس آیت کے الفاظ میں غور فرمائیے ارشاد ہے اپنے اسلام کا احسان تجھ پر رکھتے ہیں حالانکہ دراصل ایمان کی ہدایت اللہ کا خود ان پر احسان ہے ۔ پس وہاں احسان اسلام رکھنے کو بیان کر کے اپنا احسان ہدایت ایمان جتانا بھی ایمان و اسلام کے ایک ہونے پر باریک اشارہ ہے ، مزید دلائل صحیح بخاری شریف وغیرہ ملاحظہ ہوں مترجم ) پس اللہ تعالیٰ کا کسی کو ایمان کی راہ دکھانا اس پر احسان کرنا ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین والے دن انصار سے فرمایا تھا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے تم میں اتفاق دیا تم مفلس تھے میری وجہ سے اللہ نے تمہیں مالدار کیا جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فرماتے وہ کہتے بیشک اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی زیادہ احسانوں والے ہیں بزار میں ہے کہ بنو اسد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم مسلمان ہوئے عرب آپ سے لڑتے رہے لیکن ہم آپ سے نہیں لڑے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سمجھ بہت کم ہے شیطان ان کی زبانوں پر بول رہا ہے اور یہ آیت ( يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 17؀ ) 49- الحجرات:17 ) ، نازل ہوئی پھر دوبارہ اللہ رب العزت نے اپنے وسیع علم اور اپنی سچی باخبری اور مخلوق کے اعمال سے آگاہی کو بیان فرمایا کہ آسمان و زمین کے غیب اس پر ظاہر ہیں اور وہ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے الحمد اللہ سورہ حجرات کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کا شکر ہے ۔ توفیق اور ہمت اسی کے ہاتھ ہے ۔