Surah

Information

Surah # 50 | Verses: 45 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 34 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 38, from Madina
رِّزۡقًا لِّلۡعِبَادِ‌ ۙ وَاَحۡيَيۡنَا بِهٖ بَلۡدَةً مَّيۡـتًا‌ ؕ كَذٰلِكَ الۡخُـرُوۡجُ‏ ﴿11﴾
بندوں کی روزی کے لئے اور ہم نے پانی سے مردہ شہر کو زندہ کر دیا ۔ اسی طرح ( قبروں سے ) نکلنا ہے ۔
رزقا للعباد و احيينا به بلدة ميتا كذلك الخروج
As provision for the servants, and We have given life thereby to a dead land. Thus is the resurrection.
Bandon ki rozi kay liye aur hum ney pani say murda shehar ko zinda ker diya. Issi tarah ( qabron say ) nikalna hai.
تاکہ ہم بندوں کو رزق عطا کریں اور ( اس طرح ) ہم نے اس پانی سے ایک مردہ پڑے ہوئے شہر کو زندگی دے دی ، بس اسی طرح ( انسانوں کا قبروں سے ) نکلنا بھی ہوگا ۔ ( ٤ )
ندووں کی روزی کے لیے اور ہم نے اس ( ف۱۹ ) سے مردہ شہر جِلایا ( ف۲۰ ) یونہی قبروں سے تمہارا نکلنا ہے ( ف۲۱ )
یہ انتظام ہے بندوں کو رزق دینے کا ۔ اس پانی سے ہم ایک مردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں 10 ( مرے ہوئے انسانوں کا زمین سے ) نکلنا بھی اسی طرح ہو گا11 ۔
۔ ( یہ سب کچھ اپنے ) بندوں کی روزی کے لئے ( کیا ) اور ہم نے اس ( پانی ) سے مُردہ زمین کو زندہ کیا ، اسی طرح ( تمہارا ) قبروں سے نکلنا ہوگا
سورة قٓ حاشیہ نمبر :10 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، النمل ، حواشی 73 ۔ 74 ۔ 81 ۔ الروم ، حواشی 25 ۔ 33 ۔ 35 ۔ جلد چہارم ، ی یسٰ ، حاشیہ 29 ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :11 استدلال یہ ہے کہ جس خدا نے زمین کے اس کرے کو زندہ مخلوقات کی سکونت کے لیے موزوں مقام بنایا ، اور جس نے زمین کی بے جان مٹی کو آسمان کے بے جان پانی کے ساتھ ملا کر اتنی اعلیٰ درجے کی نباتی زندگی پیدا کر دی جسے تم اپنے باغوں اور کھیتوں کی شکل میں لہلہاتے دیکھ رہے ہو ، اور جس نے اس نباتات کو انسان و حیوان سب کے لیے رزق کا ذریعہ بنا دیا ، اس کے متعلق تمہارا یہ گمان کہ وہ تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے ، سراسر بے عقلی کا گمان ہے ۔ تم اپنی آنکھوں سے آئے دن دیکھتے ہو کہ ایک علاقہ بالکل خشک اور بے جان پڑا ہوا ہے ۔ بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی اس کے اندر یکایک زندگی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں ، مدتوں کی مری ہوئی جڑیں یک لخت جی اٹھتی ہیں ، اور طرح طرح کے حشرات الارض زمین کی تہوں سے نکل کر اچھل کود شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی ناممکن نہیں ہے ۔ اپنے اس صریح مشاہدے کو جب تم نہیں جھٹلا سکتے تو اس بات کو کیسے جھٹلاتے ہو کہ جب خدا چاہے گا تم خود بھی اسی طرح زمین سے نکل آؤ گے جس طرح نباتات کی کونپلیں نکل آتی ہیں ۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرب کی سر زمین میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں بسا اوقات پانچ پانچ برس بارش نہیں ہوتی ، بلکہ کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ مدت گزر جاتی ہے اور آسمان سے ایک خطرہ تک نہیں ٹپکتا ۔ اتنے طویل زمانے تک تپتے ہوئے ریگستانوں میں گھاس کی جڑوں اور حشرات الارض کا زندہ رہنا قابل تصور نہیں ہے ۔ اس کے باوجود جب وہاں کسی وقت تھوڑی سی بارش بھی ہو جاتی ہے تو گھاس نکل آتی ہے اور حشرات الارض جی اٹھتے ہیں ۔ اس لیے عرب کے لوگ اس استدلال کو ان لوگوں کی بہ نسبت زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جنہیں اتنی طویل خشک سالی کا تجربہ نہیں ہوتا ۔