Surah

Information

Surah # 50 | Verses: 45 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 34 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 38, from Madina
كَذَّبَتۡ قَبۡلَهُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّاَصۡحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوۡدُۙ‏ ﴿12﴾
ان سے پہلے نوح کی قوم نے اور رس والوں نے اور ثمود نے ۔
كذبت قبلهم قوم نوح و اصحب الرس و ثمود
The people of Noah denied before them, and the companions of the well and Thamud
Inn say pehlay Nooh ki qom ney aur rass walon ney aur samood ney.
ان سے پہلے نوح کی قوم اور اصحاب الرس اور ثمود کے لوگوں نے بھی ( اس بات کو ) جھٹلایا تھا ۔
ان سے پہلے جھٹلایا ( ف۲۲ ) نوح کی قوم اور رس والوں ( ف۲۳ ) اور ثمود
ان سے پہلے نوح علیہ السلام کی قوم ، اور اصحاب الرَّس 12 ، اور ثمود ،
اِن ( کفّارِ مکہ ) سے پہلے قومِ نوح نے ، اور ( سرزمینِ یمامہ کے اندھے ) کنویں والوں نے ، اور ( مدینہ سے شام کی طرف تبوک کے قریب بستیِ حجر میں آباد صالح علیہ السلام کی قوم ) ثمود نے جھٹلایا
سورة قٓ حاشیہ نمبر :12 اس سے پہلے سورہ فرقان ، آیت 28 میں اصحاب الرس کا ذکر گزر چکا ہے ، اور دوسری مرتبہ اب یہاں ان کا ذکر ہو رہا ہے ۔ مگر دونوں جگہ انبیاء کو جھٹلانے والی قوموں کے سلسلے میں صرف ان کا نام ہی لیا گیا ہے ، کوئی تفصیل ان کے قصے کی بیان نہیں کی گئی ہے ۔ عرب کی روایات میں الرس کے نام سے دو مقام معروف ہیں ، ایک نجد میں ، دوسرا شمالی حجاز میں ۔ ان میں نجد کا الرس زیادہ مشہور ہے اور اشعار جاہلیت میں زیادہ تر اسی کا ذکر سنا ہے ۔ اب یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اصحاب الرس ان دونوں میں سے کس جگہ کے رہنے والے تھے ۔ ان کے قصے کی بھی کوئی قابل اعتماد تفصیل کسی روایت میں نہیں ملتی ۔ زیادہ سے زیادہ بس اتنی بات صحت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ کوئی ایسی قوم تھی جس نے اپنے نبی کو کنوئیں میں پھینک دیا تھا ۔ لیکن قرآن مجید میں جس طرح ان کی طرف محض ایک اشارہ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے اس سے خیال ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں اہل عرب بالعموم اس قوم اور اس کے قصے سے واقف تھے اور بعد میں یہ روایات تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکیں ۔
ان کو شامت اعمال ہی شد تھی اللہ تعالیٰ اہل مکہ کو ان عذابوں سے ڈرا رہا ہے جو ان جیسے جھٹلانے والوں پر ان سے پہلے آچکے ہیں جیسے کہ نوح کی قوم جنہیں اللہ تعالیٰ نے پانی میں غرق کر دیا اور اصحاب رس جن کا پورا قصہ سورہ فرقان کی تفسیر میں گذر چکا ہے اور ثمود اور عاد اور امت لوط جسے زمین میں دھنسا دیا اور اس زمین کو سڑا ہوا دلدل بنا دیا یہ سب کیا تھا ؟ ان کے کفر ، ان کی سرکشی ، اور مخالفت حق کا نتیجہ تھا اصحاب ایکہ سے مراد قوم شعیب ہے علیہ الصلوۃ والسلام اور قوم تبع سے مراد یمانی ہیں ، سورہ دخان میں ان کا واقعہ بھی گزر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر ہے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں فالحمد للہ ۔ ان تمام امتوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی تھی اور عذاب اللہ سے ہلاک کر دئیے گئے یہی اللہ کا اصول جاری ہے ۔ یہ یاد رہے کہ ایک رسول کا جھٹلانے والا تمام رسولوں کا منکر ہے جیسے اللہ عزوجل و علا کا فرمان ہے آیت ( كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ ١٠٥؁ښ ) 26- الشعراء:105 ) قوم نوح نے رسولوں کا انکار کیا حالانکہ ان کے پاس صرف نوح علیہ السلام ہی آئے تھے پس دراصل یہ تھے ایسے کہ اگر ان کے پاس تمام رسول آجاتے تو یہ سب کو جھٹلاتے ایک کو بھی نہ مانتے سب کی تکذیب کرتے ایک کی بھی تصدیق نہ کرتے ان سب پر اللہ کے عذاب کا وعدہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ثابت ہو گیا اور صادق آگیا ۔ پس اہل مکہ اور دیگر مخاطب لوگوں کو بھی اس بدخصلت سے پرہیز کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ عذاب کا کوڑا ان پر بھی برس پڑے کیا جب یہ کچھ نہ تھے ان کا بسانا ہم پر بھاری پڑا تھا ؟ جو اب دوبارہ پیدا کرنے کے منکر ہو رہے ہیں ابتداء سے تو اعادہ بہت ہی آسان ہوا کرتا ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ ۭ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ 27؀ۧ ) 30- الروم:27 ) یعنی بتداءً اسی نے پیدا کیا ہے اور دوبارہ بھی وہی اعادہ کرے گا اور یہ اس پر بہت آسان ہے سورہ یٰسین میں فرمان الہٰی جل جلالہ گذر چکا کہ آیت ( وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ ۭ قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِيْمٌ 78؀ ) 36-يس:78 ) ، یعنی اپنی پیدائش کو بھول کر ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگا اور کہنے لگا بوسیدہ سڑی گلی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ ان کو تو جواب دے کہ وہ جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا اور تمام خلق کو جانتا ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے بنی آدم ایذاء دیتا ہے جب یہ کہتا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا دوبارہ پیدا کرنے سے کچھ آسان نہیں ۔