سورة قٓ حاشیہ نمبر :13
قوم فرعون کے بجائے صرف فرعون کا نام لیا گیا ہے ، کیونکہ وہ اپنی قوم پر اس طرح مسلط تھا کہ اس کے مقابلے میں قوم کی کوئی آزادانہ رائے اور عزیمت باقی نہیں رہی تھی ۔ جس گمراہی کی طرف وہ جاتا تھا ، قوم اس کے پیچھے گھسٹتی چلی جاتی تھی ۔ اس بنا پر پوری قوم کی گمراہی کا ذمہ دار تنہا اس شخص کو قرار دیا گیا ۔ جہاں قوم کے لیے رائے اور عمل کی آزادی موجود ہو وہاں اپنے اعمال کا بوجھ وہ خود اٹھاتی ہے ۔ اور جہاں ایک آدمی کی آمریت نے قوم کو بے بس کر رکھا ہو ، وہاں وہی ایک آدمی پوری قوم کے گناہوں کا بار اپنے سر لے لیتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرد واحد پر یہ بوجھ لَد جانے کے بعد قوم سبکدوش ہو جاتی ہے ۔ نہیں ، قوم پر اس صورت میں اس اخلاقی کمزوری کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے کیوں اپنے اوپر ایک آدمی کو اس طرح مسلط ہونے دیا ۔ اسی چیز کی طرف سورۂ زخرف ، آیت 54 میں اشارہ کیا گیا ہے کہ : فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہ فَاَطَاعُوْہُ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْماً فَاسِقِیْنَ ۔ فرعون نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی ، در حقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ زخرف ، حاشیہ 50 ) ۔