Surah

Information

Surah # 50 | Verses: 45 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 34 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 38, from Madina
وَّاَصۡحٰبُ الۡاَيۡكَةِ وَقَوۡمُ تُبَّعٍ‌ؕ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيۡدِ‏ ﴿14﴾
اور ایکہ والوں نے اور تبع کی قوم نے بھی تکذیب کی تھی ۔ سب نے پیغمبروں کو جھٹلایا پس میرا وعدہ عذاب ان پر صادق آگیا ۔
و اصحب الايكة و قوم تبع كل كذب الرسل فحق وعيد
And the companions of the thicket and the people of Tubba'. All denied the messengers, so My threat was justly fulfilled.
Aur aeeka walon ney aur tubba ki qom ney bhi takzeeb ki thi.sab ney payghambron ko jhutlaya pus mera wada-e-azab inn per sadiq aagaya.
اور اصحاب الایکہ اور تبع قوم نے بھی ۔ ان سب نے پیغمبروں کو جھٹلایا تھا ، اس لیے میں نے جس عذاب سے ڈریا تھا ، وہ سچ ہو کر رہا ۔
اور بَن والوں اور تبع کی قوم نے ( ف۲٤ ) ان میں ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرے عذاب کا وعدہ ثابت ہوگیا ( ف۲۵ )
اور ایکہ والے ، اور تبع کی قوم14 کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں 15 ۔ ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا16 ، اور آخر کار میری وعید ان پر چسپاں ہو گئی 17 ۔
اور ( مَدیَن کے گھنے درختوں والے بَن ) اَیکہ کے رہنے والوں نے ( یہ قومِ شعیب تھی ) اور ( بادشاہِ یَمن اسعَد ابوکریب ) تُبّع ( الحِمیَری ) کی قوم نے ، ( الغرض اِن ) سب نے رسولوں کو جھٹلایا ، پس ( اِن پر ) میرا وعدۂ عذاب ثابت ہو کر رہا
سورة قٓ حاشیہ نمبر :14 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ سبا ، حاشیہ 37 ۔ سورہ دخان ، حاشیہ 32 ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :15 یعنی ان سب نے اپنے رسولوں کی رسالت کو بھی جھٹلایا اور ان کی دی ہوئی اس خبر کو بھی جھٹلایا کہ تم مرنے کے بعد پھر اٹھائے جاؤ گے ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :16 اگرچہ ہر قوم نے صرف اس رسول کو جھٹلایا جو اس کے پاس بھیجا گیا تھا ، مگر چونکہ وہ اس خبر کو جھٹلا رہی تھی جو تمام رسول بالاتفاق پیش کرتے رہے ہیں ، اس لیے ایک رسول کو جھٹلانا در حقیقت تمام رسولوں کو جھٹلا دینا تھا ۔ علاوہ بریں ان قوموں میں سے ہر ایک نے محض اپنے ہاں آنے والے رسول ہی کی رسالت کا انکار نہ کیا تھا بلکہ وہ سرے سے یہی بات ماننے کے لیے تیار نہ تھیں کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آ سکتا ہے ، اس لیے نفس رسالت کی منکر تھیں اور ان میں سے کسی کا جرم بھی صرف ایک رسول کی تکذیب تک محدود نہ تھا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :17 یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے ۔ اس سے پہلے کی 6 آیتوں میں امکان آخرت کے دلائل دیے گئے تھے ، اور اب ان آیات میں عرب اور اس کے گرد و پیش کی قوموں کے تاریخی انجام کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ آخرت کا جو عقیدہ تمام انبیاء علیہم السلام پیش کرتے رہے ہیں وہی حقیقت کے عین مطابق ہے ، کیونکہ اس کا انکار جس قوم نے بھی کیا وہ شدید اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہو کر رہی اور آخر کار خدا کے عذاب نے آ کر اس کے وجود سے دنیا کو پاک کیا ۔ آخرت کے انکار اور اخلاق کے بگاڑ کا یہ لزوم ، جو تاریخ کے دوران میں مسلسل نظر آرہا ہے ، اس امر کا صریح ثبوت ہے کہ انسان فی الواقع اس دنیا میں غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ اسے لازماً اپنی مہلت عمل ختم ہونے کے بعد اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔ اسی لیے تو جب کبھی وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر دنیا میں کام کرتا ہے ، اس کی پوری زندگی تباہی کے راستے پر چل پڑتی ہے ۔ کسی کام سے اگر پے در پے غلط نتائج برآمد ہوتے چلے جائیں تو یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ وہ کام حقیقت سے متصادم ہو رہا ہے ۔