Surah

Information

Surah # 50 | Verses: 45 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 34 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 38, from Madina
وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَنَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِهٖ نَفۡسُهٗ ۖۚ وَنَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَيۡهِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِيۡدِ‏ ﴿16﴾
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں ۔
و لقد خلقنا الانسان و نعلم ما توسوس به نفسه و نحن اقرب اليه من حبل الوريد
And We have already created man and know what his soul whispers to him, and We are closer to him than [his] jugular vein
Hum ney insan ko peda kiya hai aur iss kay dil mein jo khayalat uthtay hain unn say hum waqif hain aur hum uss ki rag-e-jaan say bhi ziyadah uss say qareeb hain.
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اور اس کے دل میں جو خیالات آتے ہیں ، ان ( تک ) سے ہم خوب واقف ہیں ، اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔
اور بیشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے ( ف۲۸ ) اور ہم دل کی رگ سے بھی اس سے زیادہ نزدیک ہیں ( ف۲۹ )
19 ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں 20 ، اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔
اور بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اُن وسوسوں کو ( بھی ) جانتے ہیں جو اس کا نفس ( اس کے دل و دماغ میں ) ڈالتا ہے ۔ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں
سورة قٓ حاشیہ نمبر :19 آخرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم چاہے اس آخرت کو مانو یا اس کا انکار کرو ، بہرحال اس کو آنا ہے اور یہ ایک ایسا امر واقعہ ہے جو تمہارے انکار کے باوجود پیش آکر رہے گا ۔ انبیاء کی پیشگی تنبیہ کو مان کر اس وقت کے لیے پہلے سے تیاری کر لو گے تو اپنا بھلا کرو گے ۔ نہ مانو گے تو خود ہی اپنی شامت بلاؤ گے ۔ تمہارے نہ ماننے سے آخرت آتے آتے رک نہیں جائے گی اور خدا کا قانون عدل معطل نہ ہو جائے گا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :20 یعنی ہماری قدرت اور ہمارے علم نے انسان کا اندر اور باہر سے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ اس کی رگ گردن بھی اس سے اتنی قریب نہیں ہے جتنا ہمارا علم اور ہماری قدرت اس سے قریب ہے ۔ اس کی بات سننے کے لیے ہمیں کہیں سے چل کر نہیں آنا پڑتا ، اس کے دل میں آنے والے خیالات تک کو ہم براہ راست جانتے ہیں ۔ اسی طرح اگر اسے پکڑنا ہوگا تو ہم کہیں سے آ کر اس کو نہیں پکڑیں گے ، وہ جہاں بھی ہے ہر وقت ہماری گرفت میں ہے ، جب چاہیں گے اسے دھر لیں گے ۔
دائیں اور بائیں دو فرشتے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہی انسان کا خالق ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ انسان کے دل میں جو بھلے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں انہیں بھی وہ جانتا ہے صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل میں جو خیالات آئیں ان سے درگذر فرما لیا ہے جب تک کہ وہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ کریں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں یعنی ہمارے فرشتے اور بعض نے کہا ہے ہمارا علم ان کی غرض یہ ہے کہ کہیں حلول اور اتحاد نہ لازم آ جائے جو بالاجماع اس رب کی مقدس ذات سے بعید ہے اور وہ اس سے بالکل پاک ہے لیکن لفظ کا اقتضاء یہ نہیں ہے اس لئے کہ ( وانا ) نہیں کہا بلکہ ( ونحن ) کہا ہے یعنی میں نہیں کہا بلکہ ہم کہا ہے ۔ یہی لفظ اس شخص کے بارے میں کہے گئے ہیں جس کی موت قریب آگئی ہو اور وہ نزع کے عالم میں ہو فرمان ہے آیت ( ونحن اقرب الیہ منکم ) الخ ، یعنی ہم تم سب سے زیادہ اس سے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے یہاں بھی مراد فرشتوں کا اس قدر قریب ہونا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ Ḍ۝ ) 15- الحجر:9 ) یعنی ہم نے ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ بھی ہیں فرشتے ہی ذکر قرآن کریم کو لے کر نازل ہوئے ہیں اور یہاں بھی مراد فرشتوں کی اتنی نزدیکی ہے جس پر اللہ نے انہیں قدرت بخش رکھی ہے پس انسان پر ایک پہرا فرشتے کا ہوتا ہے اور ایک شیطان کا اسی طرح شیطان بھی جسم انسان میں اسی طرح پھرتا ہے جس طرح کون جیسے کہ سچوں کے سچے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ دو فرشتے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں ابن آدم کے منہ سے جو کلمہ نکلتا ہے اسے محفوظ رکھنے والے اور اسے نہ چھوڑنے والے اور فورًا لکھ لینے والے فرشتے مقرر ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ 10۝ۙ ) 82- الإنفطار:10 ) ، تم پر محافظ ہیں بزرگ فرشتے جو تمہارے فعل سے باخبر ہیں اور لکھنے والے ہیں حضرت حسن اور حضرت قتادہ تو فرماتے ہیں یہ فرشتے ہر نیک و بد عمل لکھ لیا کرتے ہیں ابن عباس کے دو قول ہیں ایک تو یہی ہے دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ ثواب وعذاب لکھ لیا کرتے ہیں ۔ لیکن آیت کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی ہی تائید کرتے ہیں کیونکہ فرمان ہے جو لفظ نکلتا ہے اس کے پاس محافظ تیار ہیں ۔ مسند احمد میں ہے انسان ایک کلمہ اللہ کی رضامندی کا کہہ گذرتا ہے جسے وہ کوئی بہت بڑا اجر کا کلمہ نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اپنی رضامندی اس کے لئے قیامت تک کی لکھ دیتا ہے ۔ اور کوئی برائی کا کلمہ ناراضگی اللہ کا اسی طرح بےپرواہی سے کہہ گذرتا ہے جس کی وجہ سے اللہ اپنی ناراضی اس پر اپنی ملاقات کے دن تک کی لکھ دیتا ہے ، حضرت علقمہ فرماتے ہیں اس حدیث نے مجھے بہت سی باتوں سے بچا لیا ۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن بتلاتے ہیں احنف بن قیس فرماتے ہیں دائیں طرف والا نیکیاں لکھتا ہے اور یہ بائیں طرف والے پر امین ہے ۔ جب بندے سے کوئی خطا ہو جاتی ہے تو یہ کہتا ہے ٹھہر جا اگر اس نے اسی وقت توبہ کر لی تو اسے لکھنے نہیں دیتا اور اگر اس نے توبہ نہ کی تو وہ لکھ لیتا ہے ( ابن ابی حاتم ) امام حسن بصری اس آیت کی تلاوت کر کے فرماتے تھے اے ابن آدم تیرے لئے صحیفہ کھول دیا گیا ہے اور دو بزرگ فرشتے تجھ پر مقرر کر دئیے گئے ہیں ایک تیرے داہنے دوسرا بائیں ۔ دائیں طرف والا تو تیری نیکیوں کی حفاظت کرتا ہے اور بائیں طرف والا برائیوں کو دیکھتا رہتا ہے اب تو جو چاہ عمل کر کمی کر یا زیادتی کر جب تو مرے گا تو یہ دفتر لپیٹ دیا جائے گا اور تیرے ساتھ تیری قبر میں رکھ دیا جائے گا اور قیامت کے دن جب تو اپنی قبر سے اٹھے گا تو یہ تیرے سامنے پیش کر دیا جائے گا ۔ اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ ۭ وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا 13؀ ) 17- الإسراء:13 ) ہر انسان کی شامت اعمال کی تفصیل ہم نے اس کے گلے لگا دی ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے سامنے نامہ اعمال کی ایک کتاب پھینک دیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا پھر اس سے کہیں گے کہ اپنی کتاب پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے ۔ پھر حضرت حسن نے فرمایا اللہ کی قسم اس نے بڑا ہی عدل کیا جس نے خود تجھے ہی تیرا محاسب بنا دیا ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو کچھ تو بھلا برا کلمہ زبان سے نکالتا ہے وہ سب لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ تیرا یہ کہنا بھی کہ میں نے کھایا میں نے پیا میں گیا میں آیا میں نے دیکھا ۔ پھر جمعرات والے دن اس کے اقوال و افعال پیش کئے جاتے ہیں خیر و شر باقی رکھ لی جاتی ہے اور سب کچھ مٹا دیا جاتا ہے یہی معنی ہیں فرمان باری تعالیٰ شانہ کے آتی ( يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ښ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ 39؁ ) 13- الرعد:39 ) حضرت امام احمد کی بابت مروی ہے کہ آپ اپنے مرض الموت میں کراہ رہے تھے تو آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ فرشتے اسے بھی لکھتے ہیں چنانچہ آپ نے کراہنا بھی چھوڑ دیا اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اپنی موت کے وقت تک اف بھی نہ کی ۔ پھر فرماتا ہے اے انسان موت کی بیہوشی یقینًا آئے گی اس وقت وہ شک دور ہو جائے گا جس میں آجکل تو مبتلا ہے اس وقت تجھ سے کہا جائے گا کہ یہی ہے جس سے تو بھاگتا پھرتا تھا اب وہ آگئی تو کسی طرح اس سے نجات نہیں پا سکتا نہ بچ سکتا ہے نہ اسے روک سکتا ہے نہ اسے دفع کر سکتا ہے نہ ٹال سکتا ہے نہ مقابلہ کر سکتا ہے نہ کسی کی مدد و سفارش کچھ کام آسکتی ہے صحیح یہی ہے کہ یہاں خطاب مطلق انسان سے ہے اگرچہ بعض نے کہا ہے کافر سے ہے اور بعض نے کچھ اور بھی کہا ہے حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں میں اپنے والد کے آخری وقت میں آپ کے سرہانے بیٹھی تھی آپ پر غشی طاری ہوئی تو میں نے یہ بیت پڑھا من لا یزال دمعہ سقنعا فانہ لا بدمرۃ مدفوق مطلب یہ ہے کہ جس کے آنسو ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی ایک مرتبہ ٹپک پڑیں گے ۔ تو آپ نے اپنا سر اٹھا کر کہا پیاری بچی یوں نہیں بلکہ جس طرح اللہ نے فرمایا آیت ( وَجَاۗءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ 19؀ ) 50-ق:19 ) ، اور روایت میں بیت کا پڑھنا اور صدیق اکبر کا یہ فرمانا مروی ہے کہ یوں نہیں بلکہ یہ آیت پڑھو ۔ اس اثر کے اور بھی بہت سے طریق ہیں جنہیں میں نے سیرۃ الصدیق میں آپ کی وفات کے بیان میں جمع کر دیا ہے صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جب موت کی غشی طاری ہونے لگی تو آپ اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھتے جاتے اور فرماتے جاتے سبحان اللہ موت کی بڑی سختیاں ہیں ۔ اس آیت کے پچھلے جملے کی تفسیر دو طرح کی گئی ہے ایک تو یہ کہ ( ما ) موصولہ ہے یعنی یہ وہی ہے جسے تو بعید از مکان جانتا تھا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں ( ما ) نافیہ ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ چیز ہے جس کے جدا کرنے کی جس سے بچنے کی تجھے قدرت نہیں تو اس سے ہٹ نہیں سکتا ۔ معجم کبیر طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس شخص کی مثال جو موت سے بھاگتا ہے اس لومڑی جیسی ہے جس سے زمین اپنا قرضہ طلب کرنے لگی اور یہ اس سے بھاگنے لگی بھاگتے بھاگتے جب تھک گئی اور بالکل چکنا چور ہو گئی تو اپنے بھٹ میں جا گھسی ۔ زمین چونکہ وہاں بھی موجود تھی اس نے لومڑی سے کہا میرا قرض دے تو یہ وہاں سے پھر بھاگی سانس پھولا ہوا تھا حال برا ہو رہا تھا آخر یونہی بھاگتے بھاگتے بےدم ہو کر مر گئی ۔ الغرض جس طرح اس لومڑی کو زمین سے بھاگنے کی راہیں بند تھیں اسی طرح انسان کو موت سے بچنے کے راستے بند ہیں اس کے بعد صور پھونکے جانے کا ذکر ہے جس کی پوری تفسیر والی حدیث گذر چکی ہے اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں کس طرح راحت وآرام حاصل کر سکتا ہوں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور منہ میں لے لیا ہے اور گردن جھکائے حکم اللہ کا انتظار کر رہا ہے کہ کب حکم ملے اور کب وہ پھونک دے صحابہ نے کہا پھر یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا کہو آیت ( وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ١٧٣؁ ) 3-آل عمران:173 ) پھر فرماتا ہے ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ تو میدان محشر کی طرف لانے والا ہو گا اور ایک فرشتہ اس کے اعمال کی گواہی دینے والا ہو گا ۔ ظاہر آیت یہی ہے اور امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ حضرت عثمان بن عفان نے اس آیت کی تلاوت منبر پر کی اور فرمایا ایک چلانے والا جس کے ہمراہ یہ میدان محشر میں آئے گا اور ایک گواہ ہو گا جو اس کے اعمال کی شہادت دے گا ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں سائق سے مراد فرشتہ ہے اور شہید سے مراد عمل ہے ابن عباس کا قول ہے سائق فرشتوں میں سے ہوں گے اور شہید سے مراد خود انسان ہے جو اپنے اوپر آپ گواہی دے گا ۔ پھر اس کے بعد کی آیت میں جو خطاب ہے اس کی نسبت تین قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ خطاب کافر سے ہو گا دوسرا یہ کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نیک و بد سب تیسرا یہ کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ دوسرے قول کی توجیہ یہ ہے کہ آخرت اور دنیا میں وہی نسبت ہے جو بیداری اور خواب میں ہے اور تیسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ تو اس قرآن کی وحی سے پہلے غفلت میں تھا ۔ ہم نے یہ قرآن نازل فرما کر تیری آنکھوں پر سے پردہ ہٹا دیا اور تیری نظر قوی ہو گئی ۔ لیکن الفاظ قرآنی سے تو ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد عام ہے یعنی ہر شخص سے کہا جائے گا کہ تو اس دن سے غافل تھا اس لئے کہ قیامت کے دن ہر شخص کی آنکھیں خوب کھل جائیں گی یہاں تک کہ کافر بھی استقامت پر ہو جائے گا لیکن یہ استقامت اسے نفع نہ دے گی جیسے فرمان باری ہے آیت ( اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ ۙيَوْمَ يَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 38؀ ) 19-مريم:38 ) یعنی جس روز یہ ہمارے پاس آئیں گے خوب دیکھتے سنتے ہوں گے اور آیت میں ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ؀ ) 32- السجدة:12 ) ، یعنی کاش کہ تو دیکھتا جب گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں پڑے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں لوٹا دے تو ہم نیک اعمال کریں گے اور کامل یقین رکھیں گے ۔