Surah

Information

Surah # 50 | Verses: 45 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 34 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 38, from Madina
مَّنَّاعٍ لِّلۡخَيۡرِ مُعۡتَدٍ مُّرِيۡبِ ۙ‏ ﴿25﴾
جو نیک کام سے روکنے والا حد سے گزر جانے والا اور شک کرنے والا تھا ۔
مناع للخير معتد مريب
Preventer of good, aggressor, and doubter,
Jo nek kaam say rikney wala aur hadd say guzar janay wala aur shak kerney wala tha.
جو دوسروں کو بھلائی سے روکنے کا عادی ، بے حد زیادتی کرنے والا اور ( حق بات میں ) شک ڈالنے والا تھا ۔
جو بھلائی سے بہت روکنے والا حد سے بڑھنے والا شک کرنے والا ( ف٤٤ )
خیر کو روکنے والا 30 اور حد سے تجاوز کرنے والا تھا31 ، شک میں پڑا ہوا تھا 32
جو نیکی سے روکنے والا ہے ، حد سے بڑھ جانے والا ہے ، شک کرنے اور ڈالنے والا ہے
سورة قٓ حاشیہ نمبر :30 خیر کا لفظ عربی زبان میں مال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور بھلائی کے لیے بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مال میں سے کسی کا حق ادا نہ کرتا تھا ۔ نہ خدا کا نہ بندوں کا ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ وہ بھلائی کے راستے سے خود ہی رک جانے پر اکتفا نہ کرتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے روکتا تھا ۔ دنیا میں خیر کے لیے سدِّ راہ بنا ہوا تھا ۔ اپنی ساری قوتیں اس کام میں صرف کر رہا تھا کہ نیکی کسی طرح پھیلنے نہ پائے ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :31 یعنی اپنے ہر کام میں اخلاق کی حدیں توڑ دینے والا تھا ۔ اپنے مفاد اور اپنی اغراض اور خواہشات کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار تھا ۔ حرام طریقوں سے مال سمیٹتا اور حرام راستوں میں صرف کرتا تھا ۔ لوگوں کے حقوق پر دست درازیاں کرتا تھا ۔ نہ اس کی زبان کسی حد کی پابند تھی نہ اس کے ہاتھ کسی ظلم اور زیادتی سے رکتے تھے ۔ بھلائی کے راستے میں صرف رکاوٹیں ڈالنے ہی پر بس نہ کرتا تھا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بھلائی اختیار کرنے والوں کو ستاتا تھا اور بھلائی کے لیے کام کرنے والوں پر ستم ڈھاتا تھا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :32 اصل میں لفظ مُرِیْب استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں ۔ ایک ، شک کرنے والا ۔ دوسرے ، شک میں ڈالنے والا ۔ اور دونوں ہی معنی یہاں مراد ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ خود شک میں پڑا ہوا تھا اور دوسروں کے دلوں میں شکوک ڈالتا تھا ۔ اس کے نزدیک اللہ اور آخرت اور ملائکہ اور رسالت اور وحی ، غرض دین کی سب صداقتیں مشکوک تھیں ۔ حق کی جو بات بھی انبیاء کی طرف سے پیش کی جاتی تھی اس کے خیال میں وہ قابل یقین نہ تھی ۔ اور یہی بیماری وہ اللہ کے دوسرے بندوں کو لگاتا پھرتا تھا ۔ جس شخص سے بھی اس کو سابقہ پیش آتا اس کے دل میں وہ کوئی نہ کوئی شک اور کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتا ۔