Surah

Information

Surah # 51 | Verses: 60 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 67 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
يَوۡمَ هُمۡ عَلَى النَّارِ يُفۡتَنُوۡنَ‏ ﴿13﴾
ہاں یہ وہ دن ہے کہ یہ آگ پر تپائے جائیں گے ۔
يوم هم على النار يفتنون
[It is] the Day they will be tormented over the Fire
han yeh woh din hai kay yeh aag per tapaye jayen gey.
اس دن ہوگا جب انہیں آگ پر تپایا جائے گا ۔
اس دن ہوگا جس دن وہ آگ پر تپائے جائیں گے ( ف۱٤ )
وہ اس روز آئے گا جب یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے 10 ۔
۔ ( فرما دیجئے: ) اُس دن ( ہوگا جب ) وہ آتشِ دوزخ میں تپائے جائیں گے
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :10 کفار کا یہ سوال کہ روز جزاء کب آئے گا ، علم حاصل کرنے کے لیے نہ تھا بلکہ طعن اور استہزاء کے طور پر تھا ، اس لیے ان کو جواب اس اندازے سے دیا گیا ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کو بد کرداریوں سے باز نہ آنے کی نصیحت کرتے ہوئے اس سے کہیں کہ ایک روز ان حرکات کا برا نتیجہ دیکھو گے ، اور وہ اس پر ایک ٹھٹھا مار کر آپ سے پوچھے کہ حضرت ، آخر وہ دن کب آئے گا ؟ ظاہر ہے کہ اس کا یہ سوال اس برے انجام کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے نہیں بلکہ آپ کی نصیحتوں کا مذاق اڑانے کے لیے ہو گا ۔ اس لیے اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ وہ اس روز آئے گا جب تمہاری شامت آئے گی ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آخرت کے مسئلے پر اگر کوئی منکر آخرت سنجیدگی کے ساتھ بحث کر رہا ہو تو وہ اس کے موافق و مخالف دلائل پر تو بات کر سکتا ہے ، مگر جب تک اس کا دماغ بالکل ہی خراب نہ ہو چکا ہو ، یہ سوال وہ کبھی نہیں کر سکتا کہ بتاؤ ، وہ آخرت کس تاریخ کو آئے گی ۔ اس کی طرف سے یہ سوال جب بھی ہو گا طنز اور تمسخر کے طور پر ہی ہو گا ۔ اس لیے کہ آخرت کے آنے کی تاریخ بیان کرنے اور نہ کرنے کا کوئی اثر بھی اصل بحث پر نہیں پڑتا ۔ کوئی شخص نہ اس بنا پر آخرت کا انکار کرتا ہے کہ اس کی آمد کا سال ، مہینہ اور دن نہیں بتایا گیا ہے ، اور نہ یہ سن کر اس کی آمد کو مان سکتا ہے کہ وہ فلاں سال فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو آئے گی ۔ تاریخ کا تعین سے کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ وہ کسی منکر کو اقرار پر آمادہ کر دے ، کیونکہ اس کے بعد پھر یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ دن آنے سے پہلے آخر کیسے یہ یقین کر لیا جائے کہ اس روز واقعی آخرت برپا ہو جائے گی ۔