Surah

Information

Surah # 51 | Verses: 60 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 67 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَلَا تَجۡعَلُوۡا مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ‌ؕ اِنِّىۡ لَـكُمۡ مِّنۡهُ نَذِيۡرٌ مُّبِيۡنٌ‌ۚ‏ ﴿51﴾
اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہراؤ بیشک میں تمہیں اس کی طرف سے کھلا ڈرانے والا ہوں ۔
و لا تجعلوا مع الله الها اخر اني لكم منه نذير مبين
And do not make [as equal] with Allah another deity. Indeed, I am to you from Him a clear warner.
Aur Allah kay sath kissi aur ko mabood na therao. be-shak mein tumhen uss ki taraf say khula daraney wala hun.
اور اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود نہ بناؤ ۔ یقین جانو میں اس کی طرف سے تمہارے لیے صاف صاف خبردار کرنے والا ( بن کر آیا ) ہوں ۔
اور اللہ کے ساتھ اور معبود نہ ٹھہراؤ ، بیشک میں اس کی طرف سے تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں ،
اور نہ بناؤ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ، میں تمہارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں48
اور اﷲ کے سوا کوئی دوسرا معبود نہ بناؤ ، بیشک میں اس کی جانب سے تمہیں کھلا ڈر سنانے والا ہوں
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :48 یہ فقرے اگرچہ اللہ ہی کا کلام ہیں مگر ان میں متکلم اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ گویا بات دراصل یوں ہے کہ اللہ اپنے نبی کی زبان سے کہلوا رہا ہے کہ دوڑو اللہ کی طرف ، میں تمہیں اس کی طرف سے خبردار کرتا ہوں ۔ اس طرز کلام کی مثال قرآن کی اولین سورۃ ، یعنی سورہ فاتحہ میں موجود جس میں کلام تو اللہ تعالیٰ ہی کا ہے مگر متکلم کی حیثیت سے بندے عرض کرتے ہیں: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّا کَ نَسْتَعِیْنُ ، اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔ جس طرح وہاں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ اے اہل ایمان تم اپنے رب سے یوں دعا مانگو ، مگر فَحوائے کلام سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ ایک دعا ہے جو اللہ اپنے بندوں کو سکھا رہا ہے ، اسی طرح یہاں بھی یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ اے نبی تم ان لوگوں سے کہو ، مگر فحوائے کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ توحید کی ایک دعوت ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں ۔ سورہ فاتحہ کے علاوہ اس طرز کلام کی اور بھی متعدد نظیریں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں کلام تو اللہ ہی کا ہوتا ہے مگر متکلم کہیں فرشتے ہوتے ہیں اور کہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اور اس امر کی تصریح کے بغیر کہ یہاں متکلم کون ہے ، سیاق عبارت سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اللہ اپنا یہ کلام کس کی زبان سے ادا کر رہا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ مریم 64 ۔ 65 ۔ الصافات 159 تا 167 ۔ الشوریٰ 10 ۔