Surah

Information

Surah # 52 | Verses: 49 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 76 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
مَّا لَهٗ مِنۡ دَافِعٍۙ‏ ﴿8﴾
اسے کوئی روکنے والا نہیں ۔
ما له من دافع
Of it there is no preventer.
Ussay koi rokney wala nahi.
کوئی ہیں ہے جو اسے روک سکے ۔
اسے کوئی ٹالنے والا نہیں
جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں 6 ۔
اسے کوئی دفع کرنے والا نہیں
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :6 یہ ہے وہ حقیقت جس پر ان پانچ چیزوں کی قَسم کھائی گئی ہے ۔ رب کے عذاب سے مراد آخرت ہے ۔ چونکہ یہاں اس پر ایمان لانے والے مخاطب نہیں ہیں بلکہ اس کا انکار کرنے والے مخاطب ہیں ، اور ان کے حق میں اس کا آنا عذاب ہی ہے ، اس لیے اس کو قیامت یا آخرت یا روز جزا کہنے کے بجائے رب کا عذاب کہا گیا ہے ۔ اب غور کیجیے کہ اس کے وقوع پر وہ پانچ چیزیں کس طرح دلالت کرتی ہیں جن کی قَسم کھائی گئی ہے ۔ طور وہ جگہ ہے جہاں ایک دبی اور پسی ہوئی قوم کو اٹھانے اور ایک غالب و قاہر قوم کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا ، اور یہ فیصلہ قانونِ طبیعی ( Physical Law ) کی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون اخلاقی ( Moral Law ) اور قانون مکافات ( Law of Retribution ) کی بنیاد پر تھا ۔ اس لیے آخرت کے حق میں تاریخی استدلال کے طَور پر طُور کو بطور ایک علامت کے پیش کیا گیا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل جیسی ایک بے بس قوم کا اٹھایا جانا اور فرعون جیسے ایک زبردست فرمانروا کا اپنے لشکروں سمیت غرق کر دیا جانا ، جس کا فیصلہ ایک سنسان رات میں کوہ طُور پر کیا گیا تھا ، انسانی تاریخ میں اس امر کی ایک نمایاں ترین مثال ہے کہ سلطنت کائنات کا مزاج کس طرح انسان جیسی ایک ذی عقل و ذی اختیار مخلوق کے معاملہ میں اخلاقی محاسبے اور جزائے اعمال کا تقاضا کرتا ہے ، اور اس تقاضے کی تکمیل کے لیے ایک ایسا یوم الحساب ضروری ہے جس میں پوری نوع انسانی کو اکٹھا کر کے اس کا محاسبہ کیا جائے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ ذاریات ، حاشیہ 21 ) ۔ کُتُب مُقدَّسہ کے مجموعے کی قَسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے دنیا میں جتنے بھی انبیاء آئے اور جو کتابیں بھی وہ لائے ، ان سب نے ہر زمانے میں وہی ایک خبر دی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے ہیں ، یعنی یہ کہ تمام اگلے پچھلے انسانوں کو ایک دن از سر نو زندہ ہو کر اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا پانی ہے ۔ کوئی کتاب آسمانی کبھی ایسی نہیں آئی ہے جو اس خبر سے خالی ہو ، یا جس نے انسان کو الٹی یہ اطلاع دی ہو کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے ، اور انسان بس مر کر مٹی ہو جانے والا ہے جس کے بعد نہ کوئی حساب ہے نہ کتاب ۔ بیت المعمور کی قَسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ خاص طور پر اہل عرب کے لیے اس زمانے میں خانہ کعبہ کی عمارت ایک ایسی کھلی نشانی تھی جو اللہ کے پیغمبروں کی صداقت پر اور اس حقیقت پر کہ اللہ جل شانہ کی حکمت بالغہ و قدرت قاہر ان کی پشت پر ہے ، صریح شہادت دے رہی تھی ۔ ان آیات کے نزول سے ڈھائی ہزار برس پہلے بے آب و گیاہ اور خیر آباد پہاڑوں میں ایک شخص کسی لاؤ لشکر اور سر و سامان کے بغیر آتا ہے اور اپنی ایک بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو بالکل بے سہارا چھوڑ کر چلا جاتا ہے ۔ پھر کچھ مدت بعد وہی شخص آ کر اس سنسان جگہ پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ایک گھر بناتا ہے اور پکار دیتا ہے کہ لوگو ، آؤ اس گھر کا حج کرو ۔ اس تعمیر اور اس پکار کو یہ حیرت انگیز مقبولیت حاصل ہوتی ہے کہ وہی گھر تمام اہل عرب کا مرکز بن جاتا ہے ، اس پکار پر عرب کے ہر گوشے سے لوگ لبیک لبیک کہتے ہوئے کھچے چلے آتے ہیں ، ڈھائی ہزار برس تک یہ گھر ایسا امن کا گہوارہ بنا رہتا ہے کہ اس کے گرد و پیش سارے ملک میں کشت و خون کا بازار گرم ہوتا ہے مگر اس کے حدود میں آ کر کسی کو کسی پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی ، اور اسی گھر کی بدولت عرب کو ہر سال چار مہینے ایسے امن کے میسر آ جاتے ہیں جن میں قافلے اطمینان سے سفر کرتے ہیں ، تجارت چمکتی ہے اور بازار لگتے ہیں ۔ پھر اس گھر کا یہ دبدبہ تھا کہ اس پوری مدت میں کوئی بڑے سے بڑا جبار بھی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکا ، اور جس نے یہ جرأت کی وہ اللہ کے غضب کا ایسا شکار ہوا کہ عبرت بن کر رہ گیا ۔ یہ کرشمہ ان آیات کے نزول سے صرف 45 ہی برس پہلے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اور اس کے دیکھنے والے بہت سے آدمی اس وقت مکہ معظمہ میں زندہ موجود تھے جب یہ آیات اہل مکہ کو سنائی جا رہی تھیں ۔ اس سے بڑھ کر کیا چیز اس بات کی دلیل ہو سکتی تھی کہ خدا کے پیغمبر ہوائی باتیں نہیں کیا کرتے ۔ اس کی آنکھیں وہ کچھ دیکھتی ہیں جو دوسروں کو نظر نہیں آتیں ۔ ان کی زبان پر وہ حقائق جاری ہوتے ہیں جن تک دوسروں کی عقل نہیں پہنچ سکتی ۔ وہ بظاہر ایسے کام کرتے ہیں جن کو ایک وقت کے لوگ دیکھیں تو دیوانگی سمجھیں اور صدیوں بعد کے لوگ ان ہی کو دیکھ کر ان کی بصیرت پر دنگ رہ جائیں ۔ اس شان کے لوگ جب بالاتفاق ہر زمانے میں یہ خبر دیتے رہے ہیں کہ قیامت آئے گی اور حشر و نشر ہو گا تو اسے دیوانوں کی بڑ سمجھنا خود دیوانگی ہے ۔ اونچی چھت ( آسمان ) اور موجزن سمندر کی قَسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ یہ دونوں چیزیں اللہ کی حکمت اور اس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں اور اسی حکمت و قدرت سے آخرت کا امکان بھی ثابت ہوتا ہے اور اس کا وقوع و وجوب بھی ۔ آسمان کی دلالت پر ہم اس سے پہلے تفسیر سورۃ ق حاشیہ نمبر 7 میں کلام کرچکے ہیں ۔ رہا سمندر ، تو جو شخص بھی انکار کا پیشگی فیصلہ کیے بغیر اس کو نگاہ غور سے دیکھے گا اس کا دل یہ گواہی دے گا کہ زمین پر پانی کے اتنے بڑے ذخیرے کا فراہم ہو جانا بجائے خود ایک ایسی کاریگری ہے جو کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہو سکتی ۔ پھر اس کے ساتھ اتنی بے شمار حکمتیں وابستہ ہیں کہ اتفاقاً ایسا حکیمانہ نظام قائم ہو جانا ممکن نہیں ہے ۔ اس میں بے حد و حساب حیوانات پیدا کیے گئے ہیں جن میں سے ہر نوع کا نظام جسمانی ٹھیک اس گہرائی کے لیے موزوں بنایا گیا ہے جس کے اندر اسے رہنا ہے ۔ اس کے پانی کو نمکین بنا دیا گیا ہے تاکہ روزانہ کروڑوں جانور جو اس میں مرتے ہیں ان کی لاشیں سڑ نہ جائیں ۔ اس کے پانی کو ایک خاص حد پر اس طرح روک رکھا گیا ہے کہ نہ تو وہ زمین کے شگافوں سے گزر کر اس کے پیٹ میں اتر جاتا ہے اور نہ خشکی پر چڑھ کر اسے غرق کر دیتا ہے ، بلکہ لاکھوں کروڑوں برس سے وہ اسی حد پر رکا ہوا ہے ۔ اسی عظیم ذخیرہ آب کے موجود اور برقرار رہنے سے زمین کے خشک حصوں پر بارش کا انتظام ہوتا ہے جس میں سورج کی گرمی اور ہواؤں کی گردش اس کے ساتھ پوری باقاعدگی کے ساتھ تعاون کرتی ہے ۔ اسی کے غیر آباد نہ ہونے اور طرح طرح کی مخلوقات اس میں پیدا ہونے سے یہ فائدہ حاصل ہوا ہے کہ انسان اس سے اپنی غذا اور اپنی ضرورت کی بہت سی چیزیں کثیر مقدار میں حاصل کر رہا ہے ۔ اسی کے ایک حد پر رکے رہنے سے وہ بر اعظم اور جزیرے قائم ہیں جن پر انسان بس رہا ہے اور اسی کے چند اٹل قواعد کی پابندی کرنے سے یہ ممکن ہوا ہے کہ انسان اس میں جہاز رانی کر سکے ۔ ایک حکیم کی حکمت اور ایک قادر مطلق کی زبردست قدرت کے بغیر اس انتظام کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور نہ یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ انسان اور زمین کی دوسرے مخلوقات کے مفاد سے سمندر کے اس انتظام کا یہ گہرا تعلق بس الل ٹپ ہی قائم ہو گیا ہے ۔ اب اگر فی الواقع یہ اس امر کی ناقابل انکار شہادت ہے کہ ایک خدائے حکیم و قادر نے انسان کو زمین پر آباد کرنے کے لیے دوسرے بے شمار انتظامات کے ساتھ یہ بحر شور بھی اس شان کا پیدا کیا ہے تو وہ شخص سخت احمق ہوگا جو اس حکیم سے اس نادانی کی توقع رکھے کہ وہ اس سمندر سے انسان کی کھیتیاں سیراب کرنے اور اس کے ذریعہ سے انسان کو رزق دینے کا انتظام تو کر دے گا مگر اس سے کبھی یہ نہ پوچھے گا کہ تو نے میرا رزق کھا کر اس کا حق کیسے ادا کیا ، اور وہ اس سمندر کے سینے پر اپنے جہاز دوڑانے کی قدرت تو انسان کو عطا کر دے گا مگر اس سے کبھی یہ نہ پوچھے گا کہ یہ جہاز تو نے حق اور راستی کے ساتھ دوڑائے تھے یا ان کے ذریعے سے دنیا میں ڈاکے مارتا پھرتا تھا ۔ اسی طرح یہ تصور کرنا بھی ایک بہت بڑی کند ذہنی ہے کہ جس قادر مطلق کی قدرت کا ایک ادنیٰ کرشمہ اس عظیم الشان سمندر کی تخلیق ہے ، جس نے فضا میں گھومنے والے اس معلق کُرّے پر پانی کے اتنے بڑے ذخیرے کو تھام رکھا ہے ، جس نے نمک کی اتنی بڑی مقدار اس میں گھول دی ہے ، جس نے طرح طرح کی ان گنت مخلوقات اس میں پیدا کی ہیں اور ان سب کی رزق رسانی کا انتظام اسی کے اندر کر دیا ہے ، جو ہر سال اربوں ٹن پانی اس میں سے اٹھا کر ہوا کے دوش پر لے جاتا ہے اور کروڑوں مربع میل کے خشک علاقہ پر اسے بڑی باقاعدگی کے ساتھ بر ساتا رہتا ہے ، وہ انسان کا ایک دفعہ پیدا کر دینے کے بعد ایسا عاجز ہو جاتا ہے کہ پھر اسے پیدا کرنا چاہے بھی تو نہیں کر سکتا ۔