سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :33
اشارہ ہے ان تدبیروں کی طرف جو کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زک دینے اور آپ کو ہلاک کرنے کے لیے آپس میں بیٹھ بیٹھ کر سوچا کرتے تھے ۔
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :34
یہ قرآن کی صریح پیشن گوئیوں میں سے ایک ہے ۔ مکی دور کے ابتدائی زمانے میں ، جب مٹھی بھر بے سر و سامان مسلمانوں کے سوا بظاہر کوئی طاقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ تھی ، اور پوری قوم آپ کے خلاف برسر پیکار تھی ، اسلام اور کفر کا مقابلہ ہر دیکھنے والے کو انتہائی نامساوی مقابلہ نظر آ رہا تھا ۔ کوئی شخص بھی اس وقت یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ چند سال کے بعد یہاں کفر کی بساط بالکل الٹ جانے والی ہے ۔ بلکہ ظاہر میں نگاہ تو یہ دیکھ رہی تھی کہ قریش اور سارے عرب کی مخالفت آخر کار اس دعوت کا خاتمہ کر کے چھوڑے گی ۔ مگر اس حالت میں پوری تحدی کے ساتھ کفار سے یہ صاف صاف کہہ دیا گیا کہ اس دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے جو تدبیریں بھی تم کرنا چاہو کر کے سیکھ لو ۔ وہ سب الٹی تمہارے ہی خلاف پڑیں گی اور تم اسے شکست دینے میں ہرگز کامیاب نہ ہو سکو گے ۔