Surah

Information

Surah # 52 | Verses: 49 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 76 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَاصۡبِرۡ لِحُكۡمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعۡيُنِنَا‌ وَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ حِيۡنَ تَقُوۡمُۙ‏ ﴿48﴾
تو اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر سے کام لے ، بیشک تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ صبح کو جب تو اٹھے اپنے رب کی پاکی اور حمد بیان کر ۔
و اصبر لحكم ربك فانك باعيننا و سبح بحمد ربك حين تقوم
And be patient, [O Muhammad], for the decision of your Lord, for indeed, you are in Our eyes. And exalt [ Allah ] with praise of your Lord when you arise.
Tu apney rab kay hukum kay intezar kein sabar say kaam ley be-shak tu humari aankhon kay samney hai subah ko jab tu uthay apney rab ki paki aur hamd biyan ker.
اور تم اپنے پروردگار کے حکم پر جمے رہو ، کیونکہ تم ہماری نگاہوں میں ہو ، ( ١٥ ) اور جب تم اٹھتے ہو اس وقت اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیا کرو ۔ ( ١٦ )
اور اے محبوب! تم اپنے رب کے حکم پر ٹھہرے رہو ( ف٦۲ ) کہ بیشک تم ہماری نگہداشت میں ہو ( ف٦۳ ) اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو جب تم کھڑے ہو ( ف٦٤ )
اے نبی ، اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو 38 ، تم ہماری نگاہ میں ہو39 ۔ تم جب اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو 40 ،
اور ( اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غم زدہ نہ ہوں ) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بیشک آپ ( ہر وقت ) ہماری آنکھوں کے سامنے ( رہتے ) ہیں٭ اور آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے جب بھی آپ کھڑے ہوں
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :38 دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی تعمیل پر ڈٹے رہو ۔ سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :39 یعنی ہم تمہاری نگہبانی کر رہے ہیں ۔ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے ۔ سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :40 اس ارشاد کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں ، اور بعید نہیں کہ وہ سب ہی مراد ہوں ۔ ایک مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم کسی مجلس سے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح کر کے اٹھو ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس پر عمل فرماتے تھے ، اور آپ نے مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی مجلس سے اٹھتے وقت اللہ کی حمد و تسبیح کر لیا کریں ، اس سے ان تمام باتوں کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے جو اس مجلس میں ہوئی ہوں ۔ ابوداؤد ، ترمذی نسائی اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ کے واسطے سے حضور کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور اس میں خوب قیل و قال ہوئی ہو ، وہ اگر اٹھنے سے پہلے یہ الفاظ کہے تو اللہ ان باتوں کو معاف کر دیتا ہے جو وہاں ہوں : سبحانک اللہم و بحمدک ، اشھد ان لا اِلٰہ الا انت ، استغفرک و اتوب الیک ۔ خداوندا ، میں تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں ۔ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نیند سے بیدار ہو کر اپنے بستر سے اٹھو تو اپنے رب کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد کرو ۔ اس پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود عمل فرماتے تھے اور اپنے اصحاب کو آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ نیند سے جب بیدار ہوں تو یہ الفاظ کہا کریں : لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شیءٍ قدیر ۔ سبحان اللہ والحمد لِلہ ولا اِلہ الا اللہ ، واللہ اکبر ، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔ ( مسند احمد ، بخاری بروایت عبادہ بن الصامت ) تیسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو ۔ اسی حکم کی تعمیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ نماز کی ابتدا تکبیر تحریمہ کے بعد ان الفاظ سے کی جائے سبحانک اللہم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک ۔ چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو ۔ یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول تھا کہ آپ ہمیشہ اپنے خطبوں کا آغاز حمد و ثنا سے فرمایا کرتے تھے ۔ مفسر ابن جریر نے اس کا ایک اور مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جب تم دوپہر کو قیلولہ کر کے اٹھو تو نماز پڑھو ، اور اس سے مراد نماز ظہر ہے ۔