Surah

Information

Surah # 52 | Verses: 49 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 76 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَاِنَّ لِلَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا عَذَابًا دُوۡنَ ذٰلِكَ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿47﴾
بیشک ظالموں کے لئے اس کے علاوہ اور عذاب بھی ہیں لیکن ان لوگوں میں سے اکثر بے علم ہیں ۔
و ان للذين ظلموا عذابا دون ذلك و لكن اكثرهم لا يعلمون
And indeed, for those who have wronged is a punishment before that, but most of them do not know.
Be-shak zalimon kay liye iss kay ilawa aur azab bhi hain lekin inn logon mein say aksar bey-ilm hain.
اور اس سے پہلے بھی ان ظالموں کے لیے ایک عذاب ہے ۔ ( ١٤ ) لیکن ان میں سے اکثر لوگوں کو پتہ نہیں ہے ۔
اور بیشک ظالموں کے لیے اس سے پہلے ایک عذاب ہے ( ف٦۰ ) مگر ان میں اکثر کو خبر نہیں ( ف٦۱ )
اور اس وقت کے آنے سے پہلے بھی ظالموں کے لیے ایک عذاب ہے ، مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں 37 ۔
اور بیشک جو لوگ ظلم کر رہے ہیں اُن کے لئے اس عذاب کے علاوہ بھی عذاب ہے ، لیکن اُن میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :37 یہ اسی مضمون کا اعادہ ہے جو سورہ السجدہ ، آیت 21 میں گزر چکا ہے کہ اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں کسی نہ کسی چھوٹے عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے ، شاید کہ یہ اپنی باغیانہ روش سے باز آ جائیں ۔ یعنی دنیا میں وقتاً فوقتاً شخصی اور قومی مصیبتیں نازل کر کے ہم انہیں یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ اوپر بالا تر طاقت ان کی قسمتوں کے فیصلے کر رہی ہے اور کوئی اس کے فیصلوں کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ مگر جو لوگ جہالت میں مبتلا ہیں انہوں نے نہ پہلے کبھی ان واقعات سے سبق لیا ہے نہ آئندہ کبھی لیں گے ۔ وہ دنیا میں رونما ہونے والے حوادث کے معنی نہیں سمجھتے ، اس لیے ان کی ہر وہ تاویل کرتے ہیں جو حقیقت کے فہم سے ان کو اور زیادہ دور لے جانے والی ہو ، اور کسی ایسی تاویل کی طرف ان کا ذہن کبھی مائل نہیں ہوتا جس سے اپنی دہریت یا اپنے شرک کی غلطی ان پر واضح ہو جائے ۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے کہ : ان المنافق اذا مرض ثم اعفی کان کالبعیر عقلہ اھلہ ثم ارسلوہ فَلَمْ یدر لِمَ عقلوہ ولم یدر لِمَ ارسلوہO ( ابو داؤد ، کتاب الجنائز ) یعنی منافق جب بیمار پڑتا ہے اور پھر اچھا ہو جاتا ہے تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہوتی ہے جسے اس کے مالکوں نے باندھا تو اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیوں باندھا ہے اور جب کھول دیا تو وہ کچھ نہ سمجھا کہ کیوں کھول دیا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الانبیاء ، حاشیہ 45 ۔ النمل ، حاشیہ 66 ، ۔ العنکبوت ، حاشیہ 72 ۔ 73 ) ۔