Surah

Information

Surah # 53 | Verses: 62 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 23 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD). Except 32, from Madina
مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَمَا طَغٰى‏ ﴿17﴾
نہ تو نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی ۔
ما زاغ البصر و ما طغى
The sight [of the Prophet] did not swerve, nor did it transgress [its limit].
Na to nigah behki na had say barhi.
۔ ( پیغمبر کی ) آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی ۔ ( ٩ )
آنکھ نہ کسی طرف پھر نہ حد سے بڑھی ( ف۱۹ )
نگاہ نہ چوندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی 13
اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی ( جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی )
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :13 یعنی ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال تحمل کا حال یہ تھا کہ ایسی زبردست تجلیات کے سامنے بھی آپ کی نگاہ میں کوئی چکا چوند پیدا نہ ہوئی اور آپ پورے سکون کے ساتھ ان کو دیکھتے رہے ۔ دوسری طرف آپ کے ضبط اور یکسوئی کا کمال یہ تھا کہ جس مقصد کے لیے آپ نے ایک تماشائی کی طرح ہر طرف نگاہیں دوڑانی نہ شروع کر دیں ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو ایک عظیم و جلیل بادشاہ کے دربار میں حاضری کا موقع ملتا ہے اور وہاں وہ کچھ شان و شوکت اس کے سامنے آتی ہے جو اس کی چشم تصور نے بھی نہ دیکھی تھی ۔ اب اگر وہ شخص کم ظرف ہو تو وہاں پہنچ کر بھونچکا رہ جائے گا ، اور اگر آداب حضوری سے ناآشنا ہو تو مقام شاہی سے غافل ہو کر دربار کی سجاوٹ کا نظارہ کرنے کے لیے ہر طرف مڑ مڑ کر دیکھنے لگے گا ۔ لیکن ایک عالی ظرف ، ادب آشنا اور فرض شناس آدمی نہ تو وہاں پہنچ کر مبہوت ہو گا اور نہ دربار کا تماشا دیکھنے میں مشغول ہو جائے گا ، بلکہ وہ پورے وقار کے ساتھ حاضر ہو گا اور اپنی ساری توجہ اس مقصد پر مرتکز رکھے گا جس کے لیے دربار شاہی میں اس کو طلب کیا گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی خوبی ہے جس کی تعریف اس آیت میں کی گئی ہے ۔