سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :20 ان الفاظ سے خود بخود یہ صورت حال مترشح ہوتی ہے کہ وہ اونٹنی ایک مدت تک ان کی بستیوں میں دندناتی پھری ۔ اس کی باری کے دن کسی کو پانی پر آنے کی ہمت نہ ہوتی تھی ۔ آخر کار اپنی قوم کے ایک من چلے سردار کو انہوں پکارا کہ تو بڑا جری اور بے باک آدمی ہے ۔ بات بات پر آستینیں چڑھا کر مارنے اور مرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ، ذرا ہمت کر کے اس اونٹنی کا قصہ بھی پاک کر دکھا ۔ ان کے بڑھاوے چڑھاوے دینے پر اس نے یہ مہم سر کرنے کا بیڑا اٹھا لیا اور اونٹنی کو مار ڈالا ۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ اس اونٹنی سے سخت مرعوب تھے ، ان کا یہ احساس تھا کہ اس کی پشت پر کوئی غیر معمولی طاقت ہے ، اس پر ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ ڈرتے تھے ، اور اسی بنا پر محض ایک اونٹنی کا مار ڈالنا ، ایسی حالت میں بھی جبکہ اس کے پیش کرنے والے پیغمبر کے پاس کوئی فوج نہ تھی جس کا انہیں ڈر ہوتا ، ان کے لیے ایک بڑی مہم سر کرنے کا ہم معنی تھا ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف حاشیہ 58 ۔ جلد سوم ، الشعراء ، حاشیہ 104 ۔ 105 ) ۔