Surah

Information

Surah # 55 | Verses: 78 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 97 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَّالنَّجۡمُ وَالشَّجَرُ يَسۡجُدٰنِ‏ ﴿6﴾
اور ستارے اور درخت دونوں سجدہ کرتے ہیں ۔
و النجم و الشجر يسجدن
And the stars and trees prostrate.
Aur sitaray aur darakht dono sajdah kertay hain.
اور بیلیں اور درخت سب اس کے آگے سجدہ کرتے ہیں ۔ ( ٢ )
اور سبزے اور پیڑ سجدہ کرتے ہیں ( ف۵ )
اور تارے5 درخت سب سجدہ ریز ہیں 6 ۔
اور زمین پر پھیلنے والی بوٹیاں اور سب درخت ( اسی کو ) سجدہ کر رہے ہیں
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :5 اصل میں لفظ النجم استعمال ہوا ہے جس کے معروف اور متبادر معنی تارے کے ہیں ۔ لیکن لغت عرب میں یہ لفظ ایسے پودوں اور بیل بوٹوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے جن کا تنا نہیں ہوتا ، مثلاً ترکاریاں ، خربوزے ، تربوز وغیرہ ۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ یہاں یہ لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ ابن عباس سعید بن جبیر ، سدی اور سفیان ثوری اس کو بے تنے والی نباتات کے معنی میں لیتے ہیں ، کیونکہ اس کے بعد لفظ الشجر ( درخت ) استعمال فرمایا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہی معنی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں ۔ بخلاف اس کے مجاہد ، قتادہ اور حسن بصری کہتے ہیں کہ نجم سے مراد یہاں بھی زمین کے بوٹے نہیں بلکہ آسمان کے تارے ہی ہیں ، کیونکہ یہی اس کے معروف معنی ہیں ، اس لفظ کو سن کر سب سے پہلے آدمی کا ذہن اسی معنی کی طرف جاتا ہے ، اور شمس و قمر کے بعد تاروں کا ذکر بالکل فطری مناسبت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ مفسرین و مترجمین کی اکثریت نے اگرچہ پہلے معنی کو ترجیح دی ہے ، اور اس کو بھی غلط نہیں کہا جا سکتا ، لیکن ہمارے نزدیک حافظ ابن کثیر کی رائے صحیح ہے کہ زبان اور مضمون دونوں کے لحاظ سے دوسرا مفہوم زیادہ قابل ترجیح نظر آتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر بھی نجوم اور شجر کے سجدہ ریز ہونے کا ذکر آیا ہے ۔ اور وہاں نجوم کو تاروں کے سوا اور کسی معنی میں نہیں لیا جا سکتا ۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یَسْجُدُ لَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ والشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ …………… ( الحج ۔ 18 ) ۔ یہاں نجوم کا ذکر شمس و قمر کے ساتھ ہے اور شجر کا ذکر پہاڑوں اور جانوروں کے ساتھ ، اور فرمایا گیا ہے کہ یہ سب اللہ کے آگے سجدہ ریز ہیں ۔ سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :6 یعنی آسمان کے تارے اور زمین کے درخت ، اس اللہ تعالیٰ کے مطیع فرمان اور اس کے قانون کے پابند ہیں ، جو ضابطہ ان کے لیے بنا دیا گیا ہے اس سے یَک سَرِ مُو تجاوز نہیں کر سکتے ۔ ان دونوں آیتوں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کائنات کا سارا نظام اللہ تعالیٰ کا آفریدہ ہے اور اسی کی اطاعت میں چل رہا ہے ۔ زمین سے لے کر آسمانوں تک نہ کوئی خود مختار ہے ، نہ کسی اور کی خدائی اس جہان میں چل رہی ہے ، نہ خدا کی خدائی میں کسی کا کوئی دخل ہے ، اور نہ کسی کا یہ مقام ہے کہ اسے معبود بنا یا جائے ۔ سب بندے اور غلام ہیں ، آقا تنہا ایک رب قدیر ہے ۔ لہٰذا توحیدی حق ہے جس کی تعلیم یہ قرآن دے رہا ہے ۔ اس کو چھوڑ کر جو شخص بھی شرک یا کفر کر رہا ہے وہ دراصل کائنات کے پورے نظام سے بر سر پیکار ہے ۔