Surah

Information

Surah # 55 | Verses: 78 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 97 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿13﴾
پس ( اے انسانو اور جنو! ) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
فباي الاء ربكما تكذبن
So which of the favors of your Lord would you deny?
Pus ( aey insano aur jinno! ) tum apney perwerdigaar ki kiss kiss nemat ko jhutlao gey.
۔ ( اے انسانو اور جنات ) اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
تو اے جن و انس! تم دونوں اپنے رب کی کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ( ف۱۲ )
پس اے جن و انس ، تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں 12 کو جھٹلاؤ گے 13؟
پس ( اے گروہِ جنّ و انسان! ) تم دونوں اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :12 اصل میں لفظ آلاء استعمال ہوا ہے جسے آگے کی آیتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے اور ہم نے مختلف مقامات پر اس کا مفہوم مختلف الفاظ میں ادا کیا ہے ۔ اس لیے آغاز ہی میں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس لفظ میں معنی کی کتنی وسعت ہے اور اس میں کیا کیا مفہومات شامل ہیں ۔ آلاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم نعمتوں کے بیان کیے ہیں ۔ تمام مترجمین نے بھی یہی اس لفظ کا ترجمہ کیا ہے ۔ اور یہی معنی ابن عباس ، قتادہ اور حسن بصری سے منقول ہیں ۔ سب سے بڑی دلیل اس معنی کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لا بشیء من نعمک ربنا نکذب کہتے تھے ۔ لہذا زمانۂ حال کے بعض محققین کی اس رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ آلاء نعمتوں کے معنی میں سرے سے استعمال ہی نہیں ہوتا ۔ دوسرے معنی اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں ۔ ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ فبای الاء ربکما کے معنی ہیں فبای قدرۃ اللہ ۔ ابن جریر نے خود بھی آیات 37 ۔ 38 کی تفسیر میں آلاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے ۔ امام رازی نے بھی آیات 14 ۔ 15 ۔ 16 کی تفسیر میں لکھا ہے ۔ ان آیات بیان نعمت کے لیے نہیں بلکہ بیان قدرت کے لیے ہیں ۔ اور آیات 22 ۔ 23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے عجائب قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمتوں کے بیان میں ۔ اس کے تیسرے معنی ہیں خوبیاں ، اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل ۔ اس معنی کو اہل لغت اور تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے ، مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ نابغہ کہتا ہے : ھم الملوک وابناء الملوک لھم فضل علی الناس فی الالاء والنعم وہ بادشاہ اور شاہزادے ہیں ان کو لوگوں پر اپنی خوبیوں ور نعمتوں میں فضیلت حاصل ہے ۔ مہلہل اپنے بھائی کلیب کے مرثیہ میں کہتا ہے : الحزم والعزم کانا من طبائعہ ما کل اٰلائہ یا قوم احصیھا حزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے ۔ لوگوں میں اس کی ساری خوبیاں شمار نہیں کر رہا ہوں ۔ فضالہ بن زید المعدوانی غریبی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غریب اچھا کام بھی کرے تو برا بنتا ہے اور: وتحمد اٰلاء البخیل المدرھم مالدار بخیل کے کمالات کی تعریف کی جاتی ہے اجدع ہمدانی اپنے گھوڑے کمیت کی تعریف میں کہتا ہے : ورضیت اٰلاء الکمیت فمن یبع فرسا فلیس جوادنا بمباع مجھے کُمیت کے عمدہ اوصاف پسند ہیں ۔ اگر کوئی شخص کسی گھوڑے کو بیچتا ہے بیچے ، ہمارا گھوڑا بکنے والا نہیں ہے ۔ حماسہ کا ایک شاعر جس کا نام ابو تمام نے نہیں لیا ہے ، اپنے ممدوح ولید بن ادھم کے اقتدار کا مرثیہ کہتا ہے : اذا ما امرؤ اثنی بالاء میت فلا یبعد اللہ الولید بن ادھما جب بھی کوئی شخص کسی مرنے والے کی خوبیاں بیان کرے تو خدا نہ کرے کہ ولید بن ادھم اس موقع پر فراموش ہو ۔ فما کان مفراحا اذا الخیر مسہ ولا کان منانا اذا ھوا نعما اس پر اچھے حالات آتے تو پھولتا نہ تھا اور کسی پر احسان کرتا تو جتاتا نہ تھا طرفہ ایک شخص کی تعریف میں کہتا ہے : کامل یجمع اٰلاء الفتیٰ نبہ سید سادات خضم ”وہ کامل اور جوانمردی کے اوصاف کا جامع ہے ۔ شریف ہے ، سرداروں کا سردار ، دریا دل “ ان شواہد و نظائر کو نگاہ میں رکھ کر ہم نے لفظ آلاء کو اس کے وسیع معنی میں لیا ہے اور ہر جگہ موقع و محل کے لحاظ سے اسکے جو معنی مناسب تر نظر آئے ہیں وہی ترجمے میں درج کر دیے ہیں ۔ لیکن بعض مقامات پر ایک ہی جگہ آلاء کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں ، اور ترجمے کی مجبوریوں سے ہم کو اس کے ایک ہی معنی اختیار کرنے پڑے ہیں ، کیونکہ اردو زبان میں کوئی لفظ اتنا جامع نہیں ہے کہ ان سارے مفہومات کو بیک وقت ادا کر سکے ۔ مثلاً اس آیت میں زمین کی تخلیق اور اس میں مخلوقات کی رزق رسانی کے بہترین انتظامات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رب کے کن کن آلاء کو جھٹلاؤ گے ۔ اس موقع پر آلاء صرف نعمتوں کے معنی ہی میں نہیں ہے ، بلکہ اللہ جل شانہ کی قدرت کے کمالات اور اس کی صفات حمیدہ کے معنی میں بھی ہے ۔ یہ اس کی قدرت کا کمال ہے کہ اس نے اس کرۂ خاکی کو اس عجیب طریقے سے بنایا کہ اس میں بے شمار اقسام کی زندہ مخلوقات رہتی ہیں اور طرح طرح کے پھل اور غلے اس کے اندر پیدا ہوتے ہیں ۔ اور یہ اس کی صفات حمیدہ ہی ہیں کہ اس نے ان مخلوقات کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں ان کی پرورش اور رزق رسانی کا بھی انتظام کیا ، اور انتظام بھی اس شان کا کہ ان کی خوراک میں نری غذائیت ہی نہیں ہے بلکہ لذت کام و دہن اور ذوق فطرت کی بھی ان گنت رعایتیں ہیں ۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی کاریگری کے صرف ایک کمال کی طرف بطور نمونہ اشارہ کیا گیا ہے کہ کھجور کے درختوں میں پھل کس طرح غلافوں میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے ۔ اس ایک مال کو نگاہ میں رکھ کر ذرا دیکھیے کہ کیلے ، انار ، سنترے ، ناریل اور دوسرے پھلوں کے پیکنگ میں آرٹ کے کیسے کیسے کمالات دکھائے گیے ہیں ، اور یہ طرح طرح کے غلے اور دالیں اور جوب ، جو ہم بے فکر کے ساتھ پکا پکا کر کھاتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک کو کیسی کیسی نفیس بالوں اور خوشوں کی شکل میں پیک کر کے اور نازک چھلکوں میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے ۔ سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :13 جھٹلانے سے مراد وہ متعدد رویے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی قدرت کے کرشموں اور اس کی صفات حمیدہ کے معاملہ میں لوگ اختیار کرتے ہیں ، مثلاً : بعض لوگ سرے سے یہی نہیں مانتے کہ ان ساری چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ محض مادے کے اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے ، یا ایک حادثہ ہے جس میں کسی حکمت اور صناعی کا کوئی دخل نہیں ۔ یہ کھلی کھلی تکذیب ہے ۔ بعض دوسرے لوگ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ان چیزوں کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے مگر اس کے ساتھ دوسروں کو خدائی میں شریک ٹھہراتے ہیں ، اس کی نعمتوں کا شکریہ دوسروں کو ادا کرتے ہیں ، اور اس کا رزق کھا کر دوسروں کے گن گاتے ہیں ۔ یہ تکذیب کی ایک اور شکل ہے ۔ ایک آدمی جب تسلیم کرے کہ آپ نے اس پر فلاں احسان کیا ہے اور پھر اسی وقت آپ کے سامنے کسی ایسے شخص کا شکریہ ادا کرنے لگے جس نے در حقیقت اس پر وہ احسان نہیں کیا ہے تو آپ خود کہہ دیں گے کہ اس نے بدترین احسان فراموشی کا ارتکاب کیا ہے ، کیونکہ اس کی یہ حرکت اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ وہ آپ کو نہیں بلکہ اس شخص کو اپنا محسن مان رہا ہے جس کا وہ شکریہ ادا کر رہا ہے ۔ کچھ اور لوگ ہیں جو ساری چیزوں کا خالق اور تمام نعمتوں کا دینے والا اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں ، مگر اس بات کو نہیں مانتے کہ انہیں اپنے خالق و پروردگار کے احکام کی اطاعت اور اس کی ہدایات کی پیروی کرنی چاہئے ۔ یہ احسان فراموشی اور انکار نعمت کی ایک اور صورت ہے ، کیونکہ جو شخص یہ حرکت کرتا ہے وہ نعمت کو ماننے کے باوجود نعمت دینے والے کے حق کو جھٹلاتا ہے ۔ کچھ اور لوگ زبان سے نہ نعمت کا انکار کرتے ہیں نہ نعمت دینے والے کے حق کو جھٹلاتے ہیں ، مگر عملاً ان کی زندگی اور ایک منکر و مکذب کی زندگی میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں ہوتا ۔ یہ تکذیب بالقول نہیں بلکہ تکذیب بالفعل ہے ۔