Surah

Information

Surah # 55 | Verses: 78 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 97 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ كَالۡفَخَّارِۙ‏ ﴿14﴾
اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی ۔
خلق الانسان من صلصال كالفخار
He created man from clay like [that of] pottery.
Uss ney insan ko bajney wali mitti say peda kiya jo theekri ki tarah thi .
اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ۔
اس نے آدمی کو بنایا بجتی مٹی سے جیسے ٹھیکری ( ف۱۳ )
انسان کو اس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنا یا 14
اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے سے بنایا
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :14 تخلیق انسانی کے ابتدائی مراتب جو قرآن مجید میں بیان کیے گیے ہیں ان کی سلسلہ وار ترتیب مختلف مقامات کی تصریحات کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہوتی ہے : ( 1 ) تراب ، یعنی مٹی یا خاک ( 2 ) طین ، یعنی گارا جو مٹی میں پانی ملا کر بنایا جاتا ہے ( 3 ) طینِ لازِب ، لیس دار گارا ، یعنی وہ گارا جس کے اندر کافی دیر تک پڑے رہنے کے باعث لیس پیدا ہو جائے ۔ ( 4 ) حَمَأٍ مَسْنون ، وہ گارا جس کے اندر بو پیدا ہو جائے ( 5 ) صلصال من حمأ مسنون کالفخار ، یعنی وہ سڑا ہوا گارا جو سوکھنے کے بعد پکی ہوئی مٹی کے ٹھیکرے جیسا ہو جائے ( 6 ) بشر جو مٹی کی اس آخری صورت سے بنایا گیا ، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص روح پھونکی ، جس کو فرشتوں سے سجدہ کرایا گیا ، اور جس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا گیا ۔ ( 7 ) ٹُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَآءٍ مَّھِیْنِ ۔ پھر آگے اس کی نسل ایک حقیر پانی جیسے ست سے چلائی گئی جس کے لیے دوسرے مقامات پر نطفہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ ان مدارج کے لیے قرآن مجید کی حسب ذیل آیات کو ترتیب وار ملاحظہ کیجیے : کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ( آل عمران ۔ 59 ) ۔ بَدَأَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ ۔ ( السجدہ ۔ 7 ) ۔ اِنَّا خَلَقْنٰھُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ ( الصافّات ۔ 11 ) چوتھا اور پانچواں مرتبہ آیت زیر تفسیر میں بیان ہو چکا ہے ۔ اور اس کے بعد کے مراتب ان آیات زیر تفسیر میں بیان ہو چکا ہے ۔ اور اس کے بعد کے مراتب ان آیات میں بیان کیے گئے ہیں : اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَراً مِّنْ طِیْنٍ o فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہ سَاجِدِیْنَ ( ص ۔ 71 ۔ 72 ) خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْراً وَّ نِسَآءً ( النساء ۔ 1 ) ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِنْ مَآءٍ مَّھِیْنٍ ( السجدہ ۔ 8 ) ۔ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ ( الحج ۔ 5 ) ۔
انسان اور جنات کی پیدائش میں فرق یہاں بیان ہو رہا ہے کہ انسان کی پیدائش بجنے والی ٹھیکری جیسی مٹی سے ہوئی ہے اور جنات کی پیدائش آگ کے شعلے سے ہوئی ہے جو خالص اور احسن تھا مسند کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فرشتے نور سے جنات نار سے اور انسان اس مٹی سے جس کا ذکر تمہارے سامنے ہو چکا ہے پیدا کئے گئے ہیں پھر اپنی کسی نعمت کے جھٹلانے کی ہدایت کر کے فرماتا ہے جاڑے اور گرمی کے دو سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے مقامات کا رب اللہ ہی ہے دو سے مراد سورج نکلنے اور ڈوبنے کی دو مختلف جگہیں ہیں کہ وہاں سے سورج چڑھتا اترتا ہے اور موسم کے لحاظ سے یہ بدلتی جگہیں رہتی ہیں ہر دن انقلاب لاتا ہے جیسے دوسری آیت میں مشرق و مغرب کا رب وہی ہے تو اسی کو اپنا وکیل سمجھ تو یہاں مراد جنس مشرق و مغرب ہے اور دوسری مشرق مغرب سے مراد طلوع و غرب کی دو جگہ ہیں ، اور چونکہ طلوع و غروب کی جگہ کے جدا جدا ہونے میں انسانی منفعت اور اس کی مصلحت بینی تھی اس لئے پھر فرمایا کہ کیا اب بھی تم اپنے رب کی نعمتوں کے منکر ہی رہو گے ؟ اس کی قدرت کا مظاہرہ دیکھو کہ دو سمندر برابر چل رہے ہیں ایک کھاری پانی کا ہے دوسرا میٹھے پانی کا لیکن نہ اس کا پانی اس میں مل کر اسے کھاری کرتا ہے نہ اس کا میٹھا پانی اس میں مل کر اسے میٹھا کر سکتا ہے بلکہ دونوں اپنی رفتار سے چل رہے ہیں دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے نہ وہ اس میں مل سکے نہ وہ اس میں جا سکے یہ اپنی حد میں ہے وہ اپنی حد میں اور قدرتی فاصلہ انہیں الگ الگ کئے ہوئے ہے حالانکہ دونوں پانی ملے ہوئے ہیں ۔ سورہ فرقان کی آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۚ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا 53؀ ) 25- الفرقان:53 ) ، کی تفسیر میں اس کی پوری تشریح گذر چکی ہے امام ابن جریر یہ بھی فرماتے ہیں کہ آسمان میں جو پانی کا قطرہ ہے اور صدف جو زمین کے دریا میں ہے ان دونوں سے مل کر لؤلؤ پیدا ہوتا ہے واقعہ تو یہ ٹھیک ہے لیکن اس آیت کی تفسیر اس طرح کرنی کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتی اس لئے کہ آیت میں ان دونوں کے درمیان برزخ یعنی آڑ کا ہونا بیان فرمایا گیا ہے جو اس کو اس سے اور اس کو اس سے روکے ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں زمین میں ہی ہیں بلکہ ایک دوسرے سے لگے لگے چلتے ہیں مگر قدرت انہیں جدا رکھتی ہے آسمان و زمین کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ برزخ اور حجر نہیں کہا جاتا اس لئے صحیح قول یہی ہے کہ یہ زمین کے دو دریاؤں کا ذکر ہے نہ کہ آسمان اور زمین کے دریا کا ۔ ان دونوں میں سے یعنی دونوں میں سے ایک میں سے ۔ جیسے اور جگہ جن و انس کو خطاب کر کے سوال ہوا ہے کہ کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ ظاہر ہے کہ رسول صرف انسان میں سے ہی ہوئے ہیں جنات میں کوئی جن رسول نہیں آیا تو جیسے یہاں اطلاع صحیح ہے حالانکہ وقوع ایک میں ہی ہے اسی طرح اس آیت میں بھی اطلاق دونوں دریا پر ہے اور وقوع ایک میں ہی ہے لؤلؤ یعنی موتی کو کہتے ہیں کہ اور کہا گیا ہے کہ بہترین اور عمدہ موتی کو مرجان کہتے ہیں بعض کہتے ہیں سرخ رنگ جواہر کو کہتے ہیں ، بعض کہتے ہیں سرخ مہرے کا نام ہے اور آیت میں ہے ( وَمِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحـْـمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 12؀ ) 35- فاطر:12 ) یعنی تم ہر ایک میں سے نکلا ہوا گوشت کھاتے ہو جو تازہ ہوتا ہے اور پہننے کے زیور نکالتے ہو تو خیر مچھلی تو کھاری اور میٹھے دونوں پانی سے نکلتی ہے اور موتی مونگے صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں میٹھے میں سے نہیں نکلتے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آسمان کا جو قطرہ سمندر کی سیپ کے منہ میں سیدھا جاتا ہے وہ لؤلؤ بن جاتا ہے اور جب صدف میں نہیں جاتا تو اس سے عنبر پیدا ہوتا ہے مینہ برستے وقت سیپ اپنا منہ کھول دیتی ہے پس اس نعمت کو بیان فرما کر پھر دریافت فرماتا ہے کہ ایسی ہی بیشمار نعمتیں جس رب کی ہیں تم بھلا کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے ؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ سمندر میں چلنے والے بڑے بڑے بادبانوں والے جہاز جو دور سے نظر پڑتے ہیں اور پہاڑوں کی طرح کھڑے دکھائی دیتے ہیں جو ہزاروں من مال اور سینکڑوں انسانوں کو ادھر سے ادھر لے آتے ہیں یہ بھی تو اس اللہ کی ملکیت میں ہیں اس عالیشان نعمت کو یاد دلا کر پھر پوچھتا ہے کہ اب بتاؤ انکار کئے کیسے بن آئے گی ؟ حضرت عمیری بن سوید فرماتے ہیں میں اللہ کے شیر حضرت علی مرتضٰی کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے پر تھا ایک بلند و بالا بڑا جہاز آ رہا تھا اسے دیکھ کر آپ نے اس کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے پہاڑوں جیسی ان کشتیوں کو امواج سمندر میں جاری کیا ہے نہ میں نے عثمان غنی کو قتل کیا نہ ان کے قتل کا ارادہ کیا نہ قاتلوں کے ساتھ شریک ہوا نہ ان سے خوش نہ ان پر نرم ۔