Surah

Information

Surah # 55 | Verses: 78 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 97 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَخَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ‌ۚ‏ ﴿15﴾
اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا ۔
و خلق الجان من مارج من نار
And He created the jinn from a smokeless flame of fire.
Aur jinnaat ko aag kay sholay say peda kiya.
اور جنات کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا ۔
اور جن کو پیدا فرمایا آگ کے لُوکے ( لپیٹ ) سے ( ف۱٤ )
اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا 15
اور جنّات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :15 اصل الفاظ ہیں مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ۔ نار سے مراد ایک خاص نوعیت کی آگ ہے نہ کہ وہ آگ جو لکڑی یا کوئلہ جلانے سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس مارج کے معنی ہیں خالص شعلہ جس میں دھواں نہ ہو اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا ، پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے اس کا لبد خاکی نے گوشت پوست کے زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفہ سے چلی ، اسی طرح پہلا جن خالص آگ کے شعلے ، یا آگ کی لَپَٹ سے پیدا کیا گیا ، اور بعد میں اس کی ذریت سے جِنوں کی نسل پیدا ہوئی ۔ اس پہلے جن کی حیثیت جِنوں کے معاملہ میں وہی ہے جو آدم علیہ السلام کی حیثیت انسانوں کے معاملہ میں ہے ۔ زندہ بشر بن جانے کے بعد حضرت آدم اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے انسانوں کے جسم کو اس مٹی سے کوئی مناسبت باقی نہ رہی جس سے ان کو پیدا کیا گیا تھا ۔ اگرچہ اب بھی ہمارا جسم پورا کا پورا زمین ہی کے اجزاء سے مرکب ہے ، لیکن ان اجزاء نے گوشت پوست اور خون کی شکل اختیار کر لی ہے اور جان پڑنے کے بعد وہ تودہ خاک کی بہ نسبت ایک بالکل ہی مختلف چیز بن گیا ہے ۔ ایسا ہی معاملہ جنوں کا بھی ہے ۔ ان کا وجود بھی اصلاً ایک آتشیں وجود ہی ہے ، لیکن جس طرح ہم محض تودہ خاک نہیں ہیں اسی طرح وہ بھی محض شعلہ آتش نہیں ہیں ۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔ ایک یہ کہ جن مجّرد روح نہیں ہیں بلکہ ایک خاص نوعیت کے مادی اجسام ہی ہیں ، مگر چونکہ وہ خالص آتشیں اجزاء سے مرکب ہیں اس لیے وہ خاکی اجزاء سے بنے ہوئے انسانوں کو نظر نہیں آتے ۔ اسی چیز کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِنَّہ یَرٰکُمْ ھُوَ وَقَبِیْلُہ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ ۔ شیطان اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھ رہا ہے جہاں تم اس کو نہیں دیکھتے ۔ ( الاعراف ۔ 27 ) ۔ اسی طرح جِنوں کا سریع الحرکت ہو نا ، ان کا بہ آسانی مختلف شکلیں اختیار کر لینا ، اور ان مقامات پر غیر محسوس طریقے سے نفوذ کر جانا جہاں خاکی اجزاء سے بنی ہوئی چیزیں جہاں خاکی اجزاء سے بنی ہوئی چیزیں نفوذ نہیں کر سکتیں ، یا نفوذ کرتی ہیں تو ان کا نفوذ محسوس ہو جاتا ہے ، یہ سب امور بھی اسی وجہ سے ممکن اور قابل فہم ہیں کہ وہ فی الاصل آتشیں مخلوق ہیں ۔ دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ جن نہ صرف یہ کہ انسان سے بالکل الگ نوعیت کی مخلوق ہیں ، بلکہ ان کا مادہ تخلیق ہی انسان ، حیوان ، نباتات اور جمادات سے قطعی مختلف ہے یہ صریح الفاظ میں ان لوگوں کے خیال کی غلطی ثابت کر رہی ہے جو جنوں کو انسانوں ہی کی ایک قسم قرار دیتے ہیں ۔ وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ مٹی سے انسان کو اور آگ سے جن کو پیدا کرنے کا مطلب دراصل دو قسم کے لوگوں کی مزاجی کیفیت کا فرق بیان کرنا ہے ، ایک قسم کے انسان منکسر المزاج ہوتے ہیں جنہیں آدمی کے بجائے شیطان کہنا زیادہ صحیح ہوتا ہے ۔ لیکن یہ قرآن کی تفسیر نہیں بلکہ تحریف ہے ۔ اوپر حاشیہ نمبر 14 میں ہم نے تفصیل کے ساتھ یہ دکھایا ہے کہ قرآن مجید مٹی سے انسان کے پیدا کیے جانے کا مطلب کتنی وضاحت کے ساتھ خود بیان کرتا ہے ۔ کیا ان ساری تفصیلات کو پڑھ کر کوئی معقول آدمی یہ معنی لے سکتا ہے کہ ان ساری باتوں کا مقصد محض اچھے انسانوں کے منکسر المزاج ہونے کی تعریف بیان کرنا ہے؟ پھر آخر یہ بات کسی صحیح العقل آدمی کے ذہن میں کیسے آسکتی ہے کہ انسان کی تخلیق سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے کرنے ، اور جن کی تخلیق خالص آگ کے شعلے سے کرنے کا مطلب ایک ہی نوع انسان کے دو مختلف المزاج افراد یا گرہوں کی جدا گانہ اخلاقی خصوصیات کا فرق ہے؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ ذاریات ، حاشیہ 53 ) ۔