سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :17
دو مشرقوں اور دو مغربوں سے مراد جاڑے کے چھوٹے سے چھوٹے دن اور گرمی کے بڑے سے بڑے دن کے مشرق و مغرب بھی ہو سکتے ہیں ، اور زمین کے دونوں نصف کروں کے مشرق و مغرب بھی ۔ جاڑے کے سب سے چھوٹے دن میں سورج ایک نہایت تنگ زاویہ بنا کر طلوع و غروب ہوتا ہے ، اور اس کے برعکس گرمی کے سب سے بڑے دن میں وہ انتہائی وسیع زاویہ بناتے ہوئے نکلتا اور ڈوبتا ہے ۔ ان دونوں کے درمیان ہر روز اس کا مطلع اور مغرب مختلف ہوتا رہتا ہے جس کے لیے ایک دوسرے مقام پر قرآن میں رَبُّ الْمشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ ( المعارج ۔ 40 ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ اسی طرح زمین کے ایک نصف کرے میں جس وقت سورج طلوع ہوتا ہے اسی وقت دوسرے نصف کرے میں وہ غروب ہوتا ہے ۔ یوں بھی زمین کے دو مشرق اور دو مغرب بن جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو ان دونوں مشرقوں اور مغربوں کا رب کہنے کے کئی معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ اسی کے حکم سے سورج کے طلوع و غروب اور سال کے دوران میں ان کے مسلسل بدلتے رہنے کا یہ نظام قائم ہے ۔ دوسرے یہ کہ زمین اور سورج کا مالک و فرمانروا وہی ہے ، ورنہ ان دونوں کے رب الگ الگ ہوتے تو زمین پر سورج کے طلوع و غروب کا یہ باقاعدہ نظام کیسے قائم ہو سکتا تھا اور دائماً کیسے قائم رہ سکتا تھا ۔ تیسرے یہ کہ ان دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک و پروردگار وہی ہے ، ان کے درمیان رہنے والی مخلوقات اسی کی ملک ہیں ، وہی ان کو پال رہا ہے ، اور اسی پرورش کے لیے اس نے زمین پر سورج کے ڈوبنے اور نکلنے کا یہ حکیمانہ نظام قائم کیا ہے ۔