Surah

Information

Surah # 55 | Verses: 78 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 97 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَلِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ‌ۚ‏ ﴿46﴾
اور اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں ۔
و لمن خاف مقام ربه جنتن
But for he who has feared the position of his Lord are two gardens -
Aur uss shaks kay liye jo apney rab kay samnay khara honay say dara do jannaten hain.
اور جو شخص ( دنیا میں ) اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا تھا ، اس کے لیے دو باغ ہوں گے ۔
اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے ( ف۳۷ ) اس کے لیے دو جنتیں ہیں ( ف۳۸ )
اور ہر اس شخص کے لیئے جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا خوف رکھتا 40 ہو ، دو باغ 41 ہیں ۔
اور جو شخص اپنے رب کے حضور ( پیشی کے لئے ) کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اُس کے لئے دو جنتیں ہیں
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :40 یعنی جس نے دنیا میں خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی ہو ، جسے ہمیشہ یہ احساس رہا ہو کہ میں دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہوں ، بلکہ ایک روز مجھے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔ یہ عقیدہ جس شخص کا ہو وہ لامحالہ خواہشات نفس کی بندگی سے بچے گا اندھا دھند ہر راستے پر نہ چل کھڑا ہو گا ۔ حق و باطل ، ظلم و انصاف ، پاک و ناپاک اور حلال و حرام میں تمیز کرے گا ۔ اور جان بوجھ کر خدا کے احکام کی پیروی سے منہ نہ موڑے گا ۔ یہی اس جزا کی اصل علّت ہے جو آگے بیان کی جا رہی ہے ۔ سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :41 جنت کے اصل معنی باغ کے ہیں ۔ قرآن مجید میں کہیں تو اس پورے عالم کو جس میں نیک لوگ رکھے جائیں گے جنت کہا گیا ہے ، گویا کہ وہ پورا کا پورا ایک باغ ہے ۔ اور کہیں فرمایا گیا ہے کہ ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس بڑے باغ میں بے شمار باغات ہوں گے ۔ اور یہاں تعین کے ساتھ ارشاد ہوا ہے کہ ہر نیک شخص کو اس بڑی جنت میں دو دو جنتیں دی جائیں گی جو اسی کے لیے مخصوص ہوں گی ، جن میں اس کے اپنے قصر ہوں گے ، جن میں وہ اپنے متعلقین اور خدام کے ساتھ شاہانہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہے گا ، جن میں اس کے لیے وہ کچھ سرو سامان فراہم ہوگا جس کا ذکر آگے آ رہا ہے ۔
فکر آخرت اور انسان ابن شوذب اور عطا خراسانی فرماتے ہیں آیت ( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ 46۝ۚ ) 55- الرحمن:46 ) حضرت صدیق اکبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، حضرت عطیہ بن قیس فرماتے ہیں یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے کہا تھا مجھے آگ میں جلا دینا تاکہ میں اللہ تعالیٰ کو ڈھونڈانے پر نہ ملوں یہ کلمہ کہنے کے بعد ایک رات ایک دن توبہ کی اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لی اور اسے جنت میں لے گیا ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے حضرت ابن عباس وغیرہ کا قول بھی یہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے کا ڈر اپنے دل میں رکھتا ہے اور اپنے آپ کو نفس کی خواہشوں سے بچاتا ہے اور سرکشی نہیں کرتا زندگانی دنیا کے پیچھے پڑ کر آخرت سے غفلت نہیں کرتا بلکہ آخرت کی فکر زیادہ کرتا ہے اور اسے بہتر اور پائدار سمجھتا ہے فرائض بجا لاتا ہے محرمات سے رکتا ہے قیامت کے دن اسے ایک چھوڑ دو دو جنتیں ملیں گی ۔ صحیح بخاری میں ہے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دو جنتیں چاندی کی ہوں گی اور ان کا تمام سامان بھی چاندی کا ہی ہو گا اور دو جنتیں سونے کی ہوں گی ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سب سونے کا ہوگا ان جنتیوں میں اور دیدار باری میں کوئی چیز حائل نہ ہو گی سوائے اس کبریائی کے پردے کے جو اللہ عزوجل کے چہرے پر ہے یہ جنت عدن میں ہوں گے یہ حدیث صحاح کی اور کتابوں میں بھی ہے بجز ابو داؤد کے راوی حدیث حضرت حماد فرماتے ہیں میرے خیال میں تو یہ حدیث مرفوع ہے ۔ تفسیر ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت ( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ 46۝ۚ ) 55- الرحمن:46 ) اور آیت ( وَمِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ 62۝ۚ ) 55- الرحمن:62 ) کی ۔ سونے کی دو جنتیں مقربین کے لئے اور چاندی کی دو جنتیں یمین کے لئے ۔ حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس آیت کی تلاوت کی تو میں نے کہا اگرچہ زنا اور چوری بھی اس سے ہو گئی ہو آپ نے پھر اسی آیت کی تلاوت کی میں نے پھر یہی کہا آپ نے پھر یہی آیت پڑھی میں نے پھر یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا اگرچہ ابو الدرداء کی ناک خاک آلود ہو جائے ۔ نسائی بعض سند سے یہ روایت موقوف بھی مروی ہے اور حضرت ابو الدرداء سے یہ بھی مروی ہے کہ جس دل میں اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف ہو گا ناممکن ہے کہ اس سے زنا ہو یا وہ چوری کرے یہ آیت عام ہے انسانوں اور جنات دونوں کو شامل ہے اور اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ جنوں میں بھی جو ایمان لائیں اور تقویٰ کریں وہ جنت میں جائیں گے اسی لئے جن وانس کو اس کے بعد خطاب کر کے فرماتا ہے کہ اب تم اپنے رب کی کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے ؟ پھر ان دونوں جنتوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے کہ یہ نہایت ہی سرسبز و شاداب ہیں بہترین اعلیٰ خوش ذائقہ عمدہ اور تیار پھل ہر قسم کے ان میں موجود ہیں ۔ تمہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ تم اپنے پروردگار کی کسی نعمت کا انکار کرو ۔ ( افنان ) شاخوں اور ڈالیوں کو کہتے ہیں یہ اپنی کثرت سے ایک دوسری سے ملی جلی ہوئی ہوں گی اور سایہ دار ہوں گی جن کا سایہ دیواروں پر بھی چڑھا ہوا ہو گا ، عکرمہ یہی معنی بیان کرتے ہیں اور عربی کے شعر کو اس پر دلیل میں وارد کرتے ہیں یہ شاخیں سیدھی اور پھیلی ہوئی رنگ برنگ کی ہوں گی ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ ان میں طرح طرح کے میوے ہوں گے کشادہ اور گھنے سایہ والی ہوں گی ۔ یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ان میں کوئی منافاۃ نہیں یہ تمام اوصاف ان شاخوں میں ہوں گے حضرت اسماء سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا اس کی شاخوں کا سایہ اس قدر دراز ہے کہ سوار سو سال تک اس میں چلا جائے ۔ یا فرمایا کہ سو سوار اس کے تلے سایہ حاصل کرلیں ۔ سونے کی ٹڈیاں اس پر چھائی ہوئی تھیں اس کے پھل بڑے بڑے منکوں اور بڑی گول جتنے تھے ( ترمذی ) پھر ان میں نہریں بہہ رہی ہیں تاکہ ان درختوں اور شاخوں کو سیراب کرتی رہیں اور بکثرت اور عمدہ پھل لائیں ۔ اب تو تمہیں اپنے رب کی نعمتوں کی قدر کرنی چاہیے ایک کا نام تسنیم ہے دوسری کا سلسبیل ہے یہ دونوں نہریں پوری روانی کے ساتھ بہہ رہی ہیں ۔ ایک ستھرے پانی کی دوسری لذت والے بےنشے کے شراب کی ان میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے بھی موجود ہیں اور پھل بھی وہ جن سے تم صورت شناس تو ہو لیکن لذت شناس نہیں ہو کیونکہ وہاں کی نعمتیں کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں نہ کسی دماغ میں آسکتی ہیں تمہیں رب کی نعمتوں کی ناشکری سے رک جانا چاہیے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں دنیا میں جتنے بھی کڑوے میٹھے پھل ہیں وہ سب جنت میں ہوں گے یہاں تک کہ حنظل یعنی اندرائن بھی ۔ ہاں دنیا کی ان چیزوں اور جنت کی ان چیزوں کے نام تو ملتے جلتے ہیں حقیقت اور لذت بالکل ہی جدا گانہ ہے یہاں تو صرف نام ہیں اصلیت تو جنت میں ہے اس فضیلت کا فرق وہاں جانے کے بعد ہی معلوم ہو سکتا ہے ۔