سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :40
یعنی جس نے دنیا میں خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی ہو ، جسے ہمیشہ یہ احساس رہا ہو کہ میں دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہوں ، بلکہ ایک روز مجھے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔ یہ عقیدہ جس شخص کا ہو وہ لامحالہ خواہشات نفس کی بندگی سے بچے گا اندھا دھند ہر راستے پر نہ چل کھڑا ہو گا ۔ حق و باطل ، ظلم و انصاف ، پاک و ناپاک اور حلال و حرام میں تمیز کرے گا ۔ اور جان بوجھ کر خدا کے احکام کی پیروی سے منہ نہ موڑے گا ۔ یہی اس جزا کی اصل علّت ہے جو آگے بیان کی جا رہی ہے ۔
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :41
جنت کے اصل معنی باغ کے ہیں ۔ قرآن مجید میں کہیں تو اس پورے عالم کو جس میں نیک لوگ رکھے جائیں گے جنت کہا گیا ہے ، گویا کہ وہ پورا کا پورا ایک باغ ہے ۔ اور کہیں فرمایا گیا ہے کہ ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس بڑے باغ میں بے شمار باغات ہوں گے ۔ اور یہاں تعین کے ساتھ ارشاد ہوا ہے کہ ہر نیک شخص کو اس بڑی جنت میں دو دو جنتیں دی جائیں گی جو اسی کے لیے مخصوص ہوں گی ، جن میں اس کے اپنے قصر ہوں گے ، جن میں وہ اپنے متعلقین اور خدام کے ساتھ شاہانہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہے گا ، جن میں اس کے لیے وہ کچھ سرو سامان فراہم ہوگا جس کا ذکر آگے آ رہا ہے ۔