سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :9
اس سے مراد ہیں ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے ، انکی عمر ہمیشہ ایک ہی حالت پر ٹھری رہے گی ۔ حضرت علی اور حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ اہل دنیا کے وہ بچے ہیں جو بالغ ہونے سے پہلے مر گئے ، اس لیے نہ ان کی کچھ نیکیاں ہونگی کہ ان کی جزا پائیں اور نہ بدیاں ہونگی کہ ان کی سزا پائیں ۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ اس سے مراد صرف وہی اہل دنیا ہو سکتے ہیں جن کو جنت نصیب نہ ہوئی ہو ۔ رہے مومنین صالحین ، تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں یہ ضمانت دی ہے کہ ان کی ذریت ان کے ساتھ جنت میں لا ملائی جائے گی ( الطور ، آیت 21 ) ۔ اسی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو ابو داؤد طیالسی ، طبرانی اور بزار نے حضرت انس اور حضرت سمرہ بن جندب ( رضی اللہ عنہم ) سے نقل کی ہے ۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مشرکین کے بچے اہل جنت کے خادم ہوں گے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ صافات ، حاشیہ 26 ۔ جلد پنجم ، الطور ، حاشیہ 19 )