Surah

Information

Surah # 56 | Verses: 96 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 46 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 81 and 82, from Madina
اَفَرَءَيۡتُمۡ مَّا تَحۡرُثُوۡنَؕ‏ ﴿63﴾
اچھا پھر یہ بھی بتلاؤ کہ تم جو کچھ بوتے ہو ۔
افرءيتم ما تحرثون
And have you seen that [seed] which you sow?
Acha phir yeh bhi batlao kay tum jo kuch botay ho
اچھا یہ بتاؤ کہ جو کچھ تم زمین میں بوتے ہو ،
تو بھلا بتاؤ تو جو بوتے ہو ،
کبھی تم نے سوچا ، یہ بیچ جو تم بوتے ہو ،
بھلا یہ بتاؤ جو ( بیج ) تم کاشت کرتے ہو
آگ اور پانی کا خالق کون؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تم جو کھیتیاں بوتے ہو زمین کھود کر بیج ڈالتے ہو پھر ان بیجوں کو اگانا بھی کیا تمہارے بس میں ہے؟ نہیں نہیں بلکہ انہیں اگانا انہیں پھل پھول دینا ہمارا کام ہے ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زراعت نہ کہا کرو بلکہ حرثت کہا کرو یعنی یوں کہو میں نے بویا یوں نہ کہو کہ میں نے اگایا ۔ حضرت ابو ہریرہ نے یہ حدیث سنا کر پھر اسی آیت کی تلاوت کی ۔ امام حجر مدری ان آیتوں کے ایسے سوال کے موقعوں کو جب پڑھتے تو کہتے ( بل انت یا ربی ) ہم نے نہیں بلکہ اے ہمارے رب تو نے ہی ۔ پھر فرماتا ہے کہ پیدا کرنے کے بعد بھی ہماری مہربانی ہے کہ ہم اسے بڑھائیں اور پکائیں ورنہ ہمیں قدرت ہے کہ سکھا دیں اور مضبوط نہ ہونے دیں برباد کر دیں اور بےنشان دنیا بنا دیں ۔ اور تم ہاتھ ملتے اور باتیں بناتے ہی رہ جاؤ ۔ کہ ہائے ہم پر آفت آگئی ہائے ہماری تو اصل بھی ماری گئی بڑا نقصان ہوگیا نفع ایک طرف پونجی بھی غارت ہوگئی غم و رنج سے نہ جانیں کیا کیا بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگ جاؤ ۔ کبھی کہو کاش کہ اب کی مرتبہ بوتے ہی نہیں کاش کہ یوں کرتے ووں کرتے ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اس وقت تم اپنے گناہوں پر نادم ہو جاؤ ( تفکہ ) کا لفظ اپنے میں دونوں معنی رکھتا ہے نفع کے اور غم کے مزن بادل کو کہتے ہیں ۔ پھر اپنی پانی جیسی اعلیٰ نعمت کا ذکر کرتا ہے کہ دیکھو اسکا برسانا بھی میرے قبضہ میں ہے کوئی ہے جو اس بادل سے اتار لائے ؟ اور جب اتر آیا پھر بھی اس میں مٹھاس ، کڑواہٹ پیدا کرنے پر مجھے قدرت ہے ۔ یہ میٹھا پانی بیٹھے بٹھائے میں تمہیں دوں جس سے تم نہاؤ دھوؤ کپڑے صاف کرو کھیتیوں اور باغوں کو سیراب کرو جانوروں کو پلاؤ پھر کیا تمہیں یہی چاہیئے کہ میرا شکر بھی ادا نہ کرو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی پی کر فرمایا کرتے دعا ( الحمد اللہ اللذی سقاناہ عذبا فراتا برحمتہ ولم یجعلہ ملحا اجاجا بذنوبنا ) ۔ یعنی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں میٹھا اور عمدہ پانی اپنی رحمت سے لایا اور ہمارے گناہوں کے باعث اسے کھاری اور کڑوا نہ بنا دیا ۔ عرب میں دو درخت ہوتے ہیں مرخ اور عفار ان کی سبز شاخیں جب ایک دوسری سے رگڑی جائیں تو آگ نکلتی ہے اس نعمت کو یاد دلا کر فرماتا ہے کہ یہ آگ جس سے تم پکاتے رہتے ہو اور سینکڑوں فائدے حاصل کر رہے ہو بتاؤ کہ اصل یعنی درخت اس کے پیدا کرنے والے تم ہو یا میں ؟ اس آگ کو ہم نے تذکرہ بنایا ہے یعنی اسے دیکھ کر جہنم کی آگ کو یاد کرو اور اس سے بچنے کی راہ لو ۔ حضرت قتادہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری یہ دنیا کی آگ دوزخ کی آگ کا سترواں حصہ ہے لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہی بہت کچھ ہے آپ نے فرمایا ہاں پھر یہ سترواں حصہ بھی دو مرتبہ پانی سے بجھایا گیا ہے ، اب یہ اس قابل ہوا کہ تم اس سے نفع اٹھا سکو اور اس کے قریب جا سکو ۔ یہ مرسل حدیث مسند میں مروی ہے اور باکل صحیح ہے ۔ مقوین مراد مسافر ہیں ، بعض نے کہا ہے جنگل میں رہنے سہنے والے لوگ مراد ہیں ۔ بعض نے کہا ہے ہر بھوکا مراد ہے ۔ غرض دراصل ہر وہ شخص مراد ہے جسے آگ کی ضرورت ہو اور وہ اس سے فائدہ حاصل کرنے کا محتاج ہو ، ہر امیر فقیر شہری دیہاتی مسافر مقیم کو اس کی حاجت ہوتی ہے ، پکانے کے لئے اپنے ساتھ لے جا سکے اور ضرورت کے وقت اپنا کام نکال سکے ۔ ابو داؤد وغیرہ میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین چیزوں میں تمام مسلمانوں کا برابر کا حصہ ہے آگ گھاس اور پانی ۔ ابن ماجہ میں ہے یہ تینوں چیزیں روکنے کا کسی کو حق نہیں ۔ ایک روایت میں ان کی قیمت کا ذکر بھی ہے ۔ لیکن اس کی سند ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے تم سب کو چاہیئے کہ اس بہت بڑی قدرتوں کے مالک اللہ کی ہر وقت پاکیزگی بیان کرتے رہو جس نے آگ جیسی جلا دینے والی چیز کو تمہارے لئے نفع دینے والی بنا دیا ۔ جس نے پانی کو کھاری اور کڑوا نہ کر دیا کہ تم پیاس کے مارے تکلیف اٹھاؤ بلکہ اسے میٹھا صاف شفاف اور مزیدار بنایا ، دنیا میں رب کی ان نعمتوں سے فائدے اٹھاؤ اور اس کا شکر بجا لاؤ تو پھر آخرت میں بھی فائدے ہی فائدے ہیں دنیا میں یہ آگ اس نے تمہارے فائدہ کے لئے بنائی ہے اور ساتھ ہی اس لئے کہ آخرت کی آگ کا بھی اندازہ تم کر سکو اور اس سے بچنے کے لئے اللہ کے فرمانبردار بن جاؤ ۔