Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَلَا تَلۡبِسُوا الۡحَـقَّ بِالۡبَاطِلِ وَتَكۡتُمُوا الۡحَـقَّ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿42﴾
اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ ، تمہیں تو خود اس کا علم ہے ۔
و لا تلبسوا الحق بالباطل و تكتموا الحق و انتم تعلمون
And do not mix the truth with falsehood or conceal the truth while you know [it].
Aur haq ko baatil kay sath khalat malat na kero aur na haq ko chupao tumhen to khud iss ka ilm hai.
اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو ، اور نہ حق بات کو چھپاؤ جبکہ ( اصل حقیقت ) تم اچھی طرح جانتے ہو
اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ ۔
باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتےحق کو چھپانے کی کوشش کرو ۔ 58
اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :58 اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اہل عرب بالعمُوم ناخواندہ لوگ تھے اور ان کے مقابلے میں یہودیوں کے اندر ویسے بھی تعلیم کا چرچا زیادہ تھا ، اور انفرادی طور پر ان میں ایسے ایسے جلیل القدر عالم پائے جاتے تھے جن کی شہرت عرب کے باہر تک پہنچی ہوئی تھی ۔ اس وجہ سے عربوں پر یہودیوں کا علمی رُعب بہت زیادہ تھا ۔ پھر ان کے علما اور مشائخ نے اپنے مذہبی درباروں کی ظاہری شان جما کر اور اپنی جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کا کاروبار چلا کر اس رُعب کو اور بھی زیادہ گہرا اور وسیع کر دیا تھا ۔ خصُوصیت کے ساتھ اہل مدینہ ان سے بے حد مرعوب تھے ، کیونکہ ان کے آس پاس بڑے بڑے یہودی قبائل آباد تھے ، رات دن کا ان سے میل جول تھا ، اور اس میل جول میں وہ ان سے اسی طرح شدت کے ساتھ متاثر تھے جس طرح ایک اَن پڑھ آبادی زیادہ تعلیم یافتہ ، زیادہ متمدّن اور زیادہ نمایاں مذہبی تشخّص رکھنے والے ہمسایوں سے متاثر ہوا کرتی ہے ۔ ان حالات میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینی شروع کی ، تو قدرتی بات تھی کہ اَن پڑھ عرب اہل کتاب یہودیوں سے جا کر پُوچھتے کہ آپ لوگ بھی ایک نبی کے پیرو ہیں اور ایک کتاب کو مانتے ہیں ، آپ ہمیں بتائیں کہ یہ صاحب جو ہمارے اندر نبوّت کا دعویٰ لے کر اُٹھے ہیں ، ان کے متعلق اور ان کی تعلیم کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ۔ چنانچہ یہ سوال مکّے کے لوگوں نے بھی یہودیوں سے بارہا کیا ، اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے ، تو یہاں بھی بکثرت لوگ یہُودی علما کے پاس جاجا کر یہی بات پُوچھتے تھے ۔ مگر ان علماء نے کبھی لوگوں کو صحیح بات نہ بتائی ۔ ان کے لیے یہ کہنا تو مشکل تھا کہ وہ توحید ، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں غلط ہے ، یا انبیاء اور کتب آسمانی اور ملائکہ اور آخرت کے بارے میں جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں ، اس میں کوئی غلطی ہے ، یا وہ اخلاقی اُصول ، جن کی آپ تعلیم دے رہے ہیں ، ان میں سے کوئی چیز غلط ہے ۔ لیکن وہ صاف صاف اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ جو کچھ آپ ؐ پیش کر رہے ہیں ، وہ صحیح ہے ۔ وہ نہ سچائی کی کھُلی کھُلی تردید کر سکتے تھے ، نہ سیدھی طرح اس کو سچائی مان لینے پر آمادہ تھے ۔ ان دونوں راستوں کے درمیان انہوں نے طریقہ یہ اختیار کیا تھا کہ ہر سائل کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ، آپ ؐ کی جماعت کے خلاف ، اور آپ ؐ کے مشن کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتے تھے ، کوئی الزام آپ ؐ پر چسپاں کر دیتے تھے ، کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے تھے جس سے لوگ شکوک و شبہات میں پڑ جائیں ، اور طرح طرح کے اُلجھن میں ڈالنے والے سوالات چھیڑ دیتے تھے تاکہ لوگ ان میں خود بھی اُلجھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے پیرووں کو بھی اُلجھا نے کی کوشش کریں ۔ ان کا یہی رویّہ تھا ، جس کی بنا پر ان سے فرمایا جارہا ہے کہ حق پر باطل کے پردے نہ ڈالو ، اپنے جھوٹے پروپیگنڈے اور شریرانہ شبہات و اعتراضات سے حق کو دبانے اور چُھپانے کی کوشش نہ کرو ، اور حق و باطل کو خلط ملط کر کے دنیا کو دھوکا نہ دو ۔
بدخو یہودی یہودیوں کی اس بدخصلت پر ان کو تنبہہ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ جاننے کے باوجود کبھی تو حق و باطل کو خلط ملط کر دیا کرتے تھے کبھی حق کو چھپا لیا کرتے تھے ۔ کبھی باطل کو ظاہر کرتے تھے ۔ لہذا انہیں ان ناپاک عادتوں کے چھوڑنے کو کہا گیا ہے اور حق کو ظاہر کرنے اور اسے کھول کھول کر بیان کرنے کی ہدایت کی حق و باطل سچ جھوٹ کو آپس میں نہ ملاؤ اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کرو ۔ یہودیت و نصرانیت کی بدعات کو اسلام کی تعلیم کے ساتھ نہ ملاؤ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پیشنگوئیاں جو تمہاری کتابوں میں پاتے ہو انہیں عوام الناس سے نہ چھپاؤ تکتموا مجزوم بھی ہو سکتا ہے اور منصوب بھی یعنی اسے اور اسے جمع نہ کرو ۔ ابن مسعود کی قرأت میں تکتمون بھی ہے ۔ یہ حال ہو گا اور اس کے بعد کا جملہ بھی حال ہے معین یہ ہوئے کہ حق کو حق جانتے ہوئے ایسی بےحیائی نہ کرو ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ علم کے باوجود اسے چھپانے اور ملاوٹ کرنے کا کیسا عذاب ہو گا ۔ اس کا علم ہو کر بھی افسوس کہ تم بدکرداری پر آمادہ نظر آتے ہو ۔ پھر انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھو زکوٰۃ دو اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکوع و سجود میں شامل رہا کرو ، انہیں میں مل جاؤ اور خود بھی آپ ہی امت بن جاؤ ، اطاعت و اخلاص کو بھی زکوٰۃ کہتے ہیں ۔ ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں زکوٰۃ دو سو درہم پر ۔ پھر اس سے زیادہ رقم پر واجب ہوتی ہے نماز و زکوٰۃ و فرض و واجب ہے ۔ اس کے بغیر سبھی اعمال غارت ہیں ۔ زکوٰۃ سے بعض لوگوں نے فطرہ بھی مراد لیا ہے ۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو سے مراد یہ ہے کہ اچھے اعمال میں ایمانداروں کا ساتھ دو اور ان میں بہترین چیز نماز ہے اس آیت سے اکثر علماء نے نماز باجماعت کے فرض ہونے پر بھی استدلال کیا ہے اور یہاں پر امام قرطبی نے مسائل جماعت کو سبط سے بیان فرمایا ہے ۔