Surah

Information

Surah # 56 | Verses: 96 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 46 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 81 and 82, from Madina
لَوۡ نَشَآءُ جَعَلۡنٰهُ اُجَاجًا فَلَوۡلَا تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿70﴾
اگر ہماری منشا ہو تو ہم اسے کڑوا زہر کر دیں پھرتم ہماری شکر گزاری کیوں نہیں کرتے؟
لو نشاء جعلنه اجاجا فلو لا تشكرون
If We willed, We could make it bitter, so why are you not grateful?
Agar humari mansha hoto hum issay kerwa zehar kerden phir tum humari shukar guzari kiyon nahi kertay.
اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا بنا کر رکھ دیں ، پھر تم کیوں شکر ادا نہیں کرتے؟
ہم چاہیں تو اسے کھاری کردیں ( ف۵۳ ) پھر کیوں نہیں شکر کرتے ( ف۵٤ )
ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں ، 30 پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے 31؟
اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری بنا دیں ، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :30 اس فقرے میں اللہ کی قدرت و حکمت کے ایک اہم کرشمے کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ پانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو حیرت انگیز خواص رکھے ہیں ، ان میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اس کے اندر خواہ کتنی ہی چیزیں تحلیل ہو جائیں ، جب وہ حرارت کے اثر سے بھاپ میں تبدیل ہوتا ہے تو ساری آمیزشیں نیچے چھوڑ دیتا ہے ، اور صرف اپنے اصل آبی اجزاء کو لے کر ہوا میں اڑتا ہے ۔ یہ خاصیت اگر اس میں نہ ہوتی تو بھاپ میں تبدیل ہوتے وقت بھی وہ سب چیزیں اس میں شامل رہتیں جو پانی ہونے کی حالت میں اس کے اندر تحلیل شدہ تھیں ۔ اس صورت میں سمندر سے جو بھاپیں اٹھتیں ان میں سمندر کا نمک بھی شامل ہوتا اور ان کی بارش تمام روئے زمین کو زمین شور بنا دیتی ۔ نہ انسان اس پانی کو پی سکتا ہے کہ اندھی بہری فطرت سے خود بخود پانی میں یہ حکیمانہ خاصیت پیدا ہو گئی ہے؟ یہ خاصیت ، جس کی بدولت کھاری سمندروں سے صاف ستھرا میٹھا پانی کشید ہو کر بارش کی شکل میں رہتا ہے اور پھر دریاؤں ، نہروں ، چشموں اور کنوؤں کی شکل میں آب رسانی و آب پاشی کی خدمت انجام دیتا ہے ، اس بات کی صریح شہادت فراہم کرتی ہے کہ ودیعت کرنے والے نے پانی میں اس کو خوب سوچ سمجھ کر بلا ارادہ اس مقصد کے لیے ودیعت کیا ہے کہ وہ اس کی پیدا کردہ مخلوقات کی پرورش کا ذریعہ بن سکے ۔ جو مخلوق کھاری پانی سے پرورش پا سکتی تھی وہ اس نے سمندر میں پیدا کی اور وہاں وہ خوب جی رہی ہے ۔ مگر جس مخلوق کو اس نے خشکی اور ہوا میں پیدا کیا تھا اس کی پرورش کے لیے میٹھا پانی درکار تھا اور اس کی فراہمی کے لیے بارش کا انتظام کرنے سے پہلے اس نے پانی کے اندر یہ خاصیت رکھ دی کہ گرمی سے بھاپ بنتے وقت وہ کوئی ایسی چیز لے کر نہ اڑے جو اس کے اندر تحلیل ہو گئی ہو ۔ سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :31 بالفاظ دیگر کیوں یہ کفران نعمت کرتے ہو کہ تم میں سے کوئی اس بارش کو دیوتاؤں کا کرشمہ سمجھتا ہے ، اور کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ سمندر سے بادلوں کا اٹھنا اور پھر آسمان سے پانی بن کر برسنا ایک فطری چکر ہے جو آپ سے آپ چلے جا رہا ہے ، اور کوئی اسے خدا کی رحمت سمجھتا بھی ہے تو اس خدا کا اپنے اوپر یہ حق نہیں مانتا کہ اسی کے آگے سر اطاعت جھکائے؟ خدا کی اتنی بڑی نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہو اور پھر جواب میں کفر و شرک اور فسق و نافرمانی کرتے ہو؟