وہی ( سب سے ) اوّل اور ( سب سے ) آخر ہے اور ( اپنی قدرت کے اعتبار سے ) ظاہر اور ( اپنی ذات کے اعتبار سے ) پوشیدہ ہے ، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :3
یعنی جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا اور جب کچھ نہ رہے تو وہ رہے گا ۔ وہ سب ظاہروں سے بڑھ کر ظاہر ہے ، کیونکہ دنیا میں جو کچھ بھی ظہور ہے اسی کی صفات اور اسی کے افعال اور اسی کے نور کا ظہور ہے ۔ اور وہ ہر مخفی سے بڑھ کر مخفی ہے ، کیونکہ حواس سے اس کی ذات کو محسوس کرنا تو درکنار ، عقل و فکر و خیال تک اس کی کنہ و حقیقت کو نہیں پا سکتے ۔ اس کی بہترین تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کے یہ الفاظ ہیں جنہیں امام احمد ، مسلم ، ترمذی ، اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ سے اور حافظ ابو یعلیٰ موصلی نے اپنی مسند میں حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے :
انت الاول فلیس قبلک شیءٍ تو ہی پہلا ہے ، کوئی تجھ سے پہلے نہیں
وانت الاٰخر فلیس بعدک شیءٍ تو ہی آخر ہے ، کوئی تیرے بعد نہیں
و انت الظاھر فلیس فوقک شئٍ تو ہی ظاہر ہے کوئی تجھ سے اوپر نہیں
و انت الباطن فلیس دونک شئٍ تو ہی باطن ہے ، کوئی تجھ سے مخفی تر نہیں
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اہل جنت اور اہل دوزخ کے لیے خلود اور ابدی زندگی کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے ساتھ یہ بات کیسے نبھ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخر ہے ، یعنی جب کچھ نہ رہے گا تو وہ رہے گا ؟ اس کا جواب خود قرآن مجید ہی میں موجود ہے کہ کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہ ( القصص ۔ 88 ) ۔ یعنی ہر چیز فانی ہے اللہ کی ذات کے سوا ۔ دوسرے الفاظ میں ذاتی بقا کسی مخلوق کے لیے نہیں ہے ۔ اگر کوئی چیز باقی ہے یا باقی رہے تو وہ اللہ کے باقی رکھنے ہی سے باقی ہے ۔ اور اس کے باقی رکھنے ہی سے باقی رہ سکتی ہے ، ورنہ بذات خود اس کے سوا سب فانی ہیں ۔ جنت اور دوزخ میں کسی کو خلود اس لیے نہیں ملے گا کہ وہ بجائے خود غیر فانی ہے ، بلکہ اس لیے ملے گا کہ اللہ اس کو حیات ابدی عطا فرمائے گا ۔ یہی معاملہ فرشتوں کا بھی ہے کہ وہ بذات خود غیر فانی نہیں ہیں ۔ جب اللہ نے چاہا تو وہ وجود میں آئے ، اور جب تک وہ چاہے اسی وقت تک وہ موجود رہ سکتے ہیں ۔