Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَ مَا لَـكُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِيۡـرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ‌ؕ لَا يَسۡتَوِىۡ مِنۡكُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَقَاتَلَ‌ ؕ اُولٰٓٮِٕكَ اَعۡظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَقَاتَلُوۡا‌ ؕ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ‏ ﴿10﴾
تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک ( تنہا ) اللہ ہی ہے تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ ( دوسروں کے ) برابر نہیں بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے ، ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالٰی کا ان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے ۔
و ما لكم الا تنفقوا في سبيل الله و لله ميراث السموت و الارض لا يستوي منكم من انفق من قبل الفتح و قتل اولىك اعظم درجة من الذين انفقوا من بعد و قتلوا و كلا وعد الله الحسنى و الله بما تعملون خبير
And why do you not spend in the cause of Allah while to Allah belongs the heritage of the heavens and the earth? Not equal among you are those who spent before the conquest [of Makkah] and fought [and those who did so after it]. Those are greater in degree than they who spent afterwards and fought. But to all Allah has promised the best [reward]. And Allah , with what you do, is Acquainted.
kertay' darasal aasmanon our zamin ke meeress ka malik ( tanha ) Allah hi hai tum main say jin logo ney fatah say pehlay fi subilillah diya hai our qitaal kiya hai woh ( doosron kay ) barabar nahi bulkay unn say boht baray darjay kay hain jinhon nay fatah kay baad kheyraaten den our jahad kiyey haan bhalaee ka wada to Allah taalaaka unn sab say hai jo kuch tum ker rahey ho uss say Allah khabardaarhai.
اور تمہارے لیے کونسی وجہ ہے کہ تم اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرو ، حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری میراث اللہ ہی کے لیے ہے ۔ تم میں سے جنہوں نے ( مکہ کی ) فتح سے پہلے خرچ کیا ، اور لڑائی لڑی ، وہ ( بعد والوں کے ) برابر نہیں ہیں ۔ وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے ( فتح مکہ کے ) بعد خرچ کیا ، اور لڑائی لڑی ۔ ( ٧ ) یوں اللہ نے بھلائی کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے ، اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے ۔
اور تمہیں کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالانکہ آسمانوں اور زمین میں سب کا وارث اللہ ہی ہے ( ف۲٦ ) تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتحِ مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا ( ف۲۷ ) وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا ، اور ان سب سے ( ف۲۸ ) اللہ جنت کا وعدہ فرماچکا ( ف۲۹ ) اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ،
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کر تے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیئے ہے ۔ 13 تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے ۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگر چہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں 14 ۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے 15 ۔ ع
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے ( تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو ) ، تم میں سے جن لوگوں نے فتحِ ( مکّہ ) سے پہلے ( اللہ کی راہ میں اپنا مال ) خرچ کیا اور قتال کیا وہ ( اور تم ) برابر نہیں ہوسکتے ، وہ اُن لوگوں سے درجہ میں بہت بلند ہیں جنہوں نے بعد میں مال خرچ کیا ہے اور قتال کیا ہے ، مگر اللہ نے حسنِ آخرت ( یعنی جنت ) کا وعدہ سب سے فرما دیا ہے ، اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اُن سے خوب آگاہ ہے
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :13 اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ مال تمہارے پاس ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے ۔ ایک دن تمہیں لازماً اسے چھوڑ کر ہی جانا ہے اور اللہ ہی اس کا وارث ہونے والا ہے ، پھر کیوں نہ اپنی زندگی میں اسے اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تاکہ اللہ کے ہاں اس کا اجر تمہارے لیے ثابت ہو جائے ۔ نہ خرچ کرو گے تب بھی یہ اللہ ہی کے پاس واپس جا کر رہے گا ، البتہ فرق یہ ہو گا کہ اس پر تم کسی اجر کے مستحق نہ ہو گے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے تم کو کسی فقر اور تنگ دستی کا اندیشہ لاحق نہ ہونا چاہیے ، کیونکہ جس خدا کی خاطر تم اسے خرچ کرو گے وہ زمین و آسمان کے سارے خزانوں کا مالک ہے ، اس کے پاس تمہیں دینے کو بس اتنا ہی کچھ نہ تھا جو اس نے آج تمہیں دے رکھا ہے ، بلکہ کل وہ تمہیں اس سے بہت زیادہ دے سکتا ہے یہی بات دوسری جگہ اس طرح فرمائی گئی ہے : قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الِّرزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ وَیَقْدِرُ لَہٗ ، وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہ وَھُوَ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَo ( سبا ۔ 39 ) ۔ اے نبی ، ان سے کہو کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے ، اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہی مزید رزق تمہیں دیتا ہے اور وہ بہترین رازق ہے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :14 یعنی اجر کے مستحق تو دونوں ہی ہیں ، لیکن ایک گروہ کا رتبہ دوسرے گروہ سے لازماً بلند تر ہے ، کیونکہ اس نے زیادہ سخت حالات میں اللہ تعالیٰ کی خاطر وہ خطرات مول لیے جو دوسرے گروہ کو در پیش نہ تھے ۔ اس نے ایسی حالت میں مال خرچ کیا جب دور دور کہیں یہ امکان نظر نہ آتا تھا کہ کبھی فتوحات سے اس خرچ کی تلافی ہو جائے گی ، اور اس نے ایسے نازک دور میں کفار سے جنگ کی جب ہر وقت یہ اندیشہ تھا کہ دشمن غالب آ کر اسلام کا نام لینے والوں کو پیس ڈالیں گے ۔ مفسرین میں سے مجاہد ، قَتَادہ اور زید بن اسلم کہتے ہیں کہ اس آیت میں جس چیز کے لیے لفظ فتح استعمال کیا گیا ہے اس کا اطلاق فتح مکہ پر ہوتا ہے ، اور عامر شعبی کہتے ہیں کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔ پہلے قول کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے ، اور دوسرے قول کی تائید میں حضرت ابو سعید خدری کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں فرمایا ، عنقریب ایسے لوگ آنے والے ہیں جن کے اعمال کو دیکھ کر تم لوگ اپنے اعمال کو حقیر سمجھو گے ، مگر لو کان لاحدھم جبل من ذھب فانفقہ ما ادرک مد احدکم ولا نصیفہ ۔ ان میں سے کسی کے پاس پہاڑ برابر بھی سونا ہو اور وہ سارا کا سارا خدا کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ تمہارے دور طل بلکہ ایک رطل خرچ کرنے کے برابر بھی نہ پہنچ سکے گا ( ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابو نعیم اصفہانی ) ۔ نیز اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد نے حضرت انس سے نقل کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔ دوران نزاع میں حضرت خالد نے حضرت عبد الرحمٰن سے کہا تم لوگ اپنی پچھلی خدمات کی بنا پر ہم سے دوں کی لیتے ہو ۔ یہ بات جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم لوگ احد کے برابر ، یا پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کرو تو ان لوگوں کے اعمال کو نہ پہنچ سکو گے ’‘ ۔ اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے ، کیونکہ حضرت خالد اسی صلح کے بعد ایمان لائے تھے اور فتح مکہ میں شریک تھے ۔ لیکن اس خاص موقع پر فتح سے مراد خواہ صلح حدیبیہ لی جائے یا فتح مکہ ، بہرحال اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ درجات کا یہ فرق بس اسی ایک فتح پر ختم ہو گیا ہے ۔ بلکہ اصولاً اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب کبھی اسلام پر ایسا کوئی وقت آ جائے جس میں کفر اور کفار کا پلڑا بہت بھاری ہو اور بظاہر اسلام کے غلبہ کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے ہوں ، اس وقت جو لوگ اسلام کی حمایت میں جانیں لڑائیں اور مال خرچ کریں ان کے مرتبے کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو کفر و اسلام کی کشمکش کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہو جانے کے بعد قربانیاں دیں ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :15 یعنی اللہ جس کو جو اجر اور مرتبہ بھی دیتا ہے یہ دیکھ کر دیتا ہے کہ کس نے کن حالات میں کس جذبے کے ساتھ کیا عمل کیا ہے ۔ اس کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے ۔ وہ ہر ایک کا درجہ اور اس کے عمل کا اجر پوری باخبری کے ساتھ تعین کرتا ہے ۔