Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يَوۡمَ تَرَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ يَسۡعٰى نُوۡرُهُمۡ بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَبِاَيۡمَانِهِمۡ بُشۡرٰٮكُمُ الۡيَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ‌ۚ‏ ﴿12﴾
۔ ( قیامت کے ) دن تو دیکھے گا کہ مومن مردوں اور عورتوں کا نور انکے آگے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا آج تمہیں ان جنتوں کی خوشخبری ہے جنکے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں ہمیشہ کی رہائش ہے ۔ یہ ہے بڑی کامیابی ۔
يوم ترى المؤمنين و المؤمنت يسعى نورهم بين ايديهم و بايمانهم بشرىكم اليوم جنت تجري من تحتها الانهر خلدين فيها ذلك هو الفوز العظيم
On the Day you see the believing men and believing women, their light proceeding before them and on their right, [it will be said], "Your good tidings today are [of] gardens beneath which rivers flow, wherein you will abide eternally." That is what is the great attainment.
( Qayamat Kay ) din tu dekhay ga kay momin mardo our orton ka noor unn kay aagay aagay our unkay dayen dor raha hoga aaj tumhen inn jannaton ki khushkhabri hai jinkay neechay nehren jaari hain jin main humesha ki rehaeesh hai yeh hai bari kaamyabi.
اس دن جب تم مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا ( ٩ ) ( اور ان سے کہا جائے گا کہ ) آج تمہیں خوشخبری ہے ان باغات کی جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، جن میں تم ہمیشہ ہمیشہ رہو گے ۔ یہی ہے جو بڑی زبردست کامیابی ہے ۔
جس دن تم ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو ( ف۳۱ ) دیکھو گے کہ ان کا نور ہے ( ف۳۲ ) ان کے آگے اور ان کے دہنے دوڑتا ہے ( ف۳۳ ) ان سے فرمایا جارہا ہے کہ آج تمہاری سب سے زیادہ خوشی کی بات وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہیں تم ان میں ہمیشہ رہو ، یہی بڑی کامیابی ہے ،
اس دن جب کہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا 17 ۔ ( ان سے کہا جا ئے گا کہ ) آج بشارت ہے تمہارے لیئے جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہی ہے بڑی کامیابی ۔
۔ ( اے حبیب! ) جس دن آپ ( اپنی امّت کے ) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا ( اور اُن سے کہا جائے گا: ) تمہیں بشارت ہو آج ( تمہارے لئے ) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں ( تم ) ہمیشہ ان میں رہو گے ، یہی بہت بڑی کامیابی ہے
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :17 اس آیت اور بعد والی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ میدان حشر میں نور صرف مومنین صالحین کے لیے مخصوص ہو گا ، رہے کفار و منافقین اور فساق و فجار ، تو وہ وہاں بھی اسی طرح تاریکی میں بھٹک رہے ہوں گے جس طرح دنیا میں بھٹکتے رہے تھے ۔ وہاں روشنی جو کچھ بھی ہو گی ، صالح عقیدے اور صالح عمل کی ہو گی ۔ ایمان کی صداقت اور سیرت و کردار کی پاکیزگی ہی نور میں تبدیل ہو جائے گی جس سے نیک بندوں کی شخصیت جگمگا اٹھے گی جس شخص کا عمل جتنا تابندہ ہو گا اس کے وجود کی روشنی اتنی ہی زیادہ تیز ہو گی اور جب وہ میدان حشر سے جنت کی طرف چلے گا تو اس کا نور اس کے آگے آگے دوڑ رہا ہو گا ۔ اس کی بہترین تشریح قتادہ کی وہ مرسل روایت ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کا نور اتنا تیز ہو گا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تک پہنچ رہا ہو گا ، اور کسی کو نور مدینہ سے صنعاء تک ، اور کسی کا اس سے کم ، یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہو گا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا ( ابن جریر ) ۔ بالفاظ دیگر جس کی ذات سے دنیا میں جتنی بھلائی پھیلی ہو گی اس کا نور اتنا ہی تیز ہو گا ، اور جہاں جہاں تک دنیا میں اس کی بھلائی پہنچی ہو گی میدان حشر میں اتنی ہی مسافت تک اس کے نور کی شعاعیں دوڑ رہی ہوں گی ۔ یہاں ایک سوال آدمی کے ذہن میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے ۔ وہ یہ کہ آگے آ گے نور کا دوڑنا تو سمجھ میں آتا ہے ، مگر نور کا صرف دائیں جانب دوڑنا کیا معنی؟ کیا ان کے بائیں جانب تاریکی ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے دائیں ہاتھ پر روشنی لیے ہوئے چل رہا ہو تو اس سے روشن تو بائیں جانب بھی ہو گی مگر امر واقعہ یہی ہو گا کہ روشنی اس کے دائیں ہاتھ پر ہے ۔ اس بات کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوذر اور ابوالدرداء نے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا اَعرفہم بنورھم الذی یسعیٰ بین ایدیھم و عن اَیمانہم و عن شمائلہم میں اپنی امت کے صالحین کو وہاں ان کے اس نور سے پہچانوں گا جو ان کے آگے اور ان کے دائیں اور بائیں دوڑ رہا ہو گا ( حاکم ، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ) ۔
اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا یہاں بیان ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے نیک اعمال کے مطابق انہیں نور ملے گا جو قیامت کے دن کے ان کے ساتھ ساتھ رہے گا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان میں بعض کا نور پہاڑوں کے برابر ہو گا اور بعض کا کھجوروں کے درختوں کے برابر اور بعض کا کھڑے انسان کے قد کے برابر سب سے کم نور جس گنہگار مومن کا ہو گا اس کے پیر کے انگوٹھے پر نور ہو گا جو کبھی روشن ہوتا ہو گا اور کبھی بجھ جاتا ہو گا ( ابن جریر ) حضرت قتادہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے بعض مومن ایسے بھی ہوں گے جن کا نور اس قدر ہو گا کہ جس قدر مدینہ سے عدن دور ہے اور ابین دور ہے اور صنعا دور ہے ۔ بعض اس سے کم بعض اس سے کم یہاں تک کہ بعض وہ بھی ہوں گے جن کے نور سے صرف ان کے دونوں قدموں کے پاس ہی اجالا ہو گا ۔ حضرت جنادہ بن ابو امیہ فرماتے ہیں لوگو ! تمہارے نام مع ولدیت کے اور خاص نشانیوں کے اللہ کے ہاں لکھے ہوئے ہیں اسی طرح تمہارا ہر ظاہر باطن عمل بھی وہاں لکھا ہوا ہے قیامت کے دن نام لے کر پکار کر کہہ دیا جائے گا کہ اے فلاں یہ تیرا نور ہے اور اے فلاں تیرے لئے کوئی نور ہمارے ہاں نہیں ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں اول اول تو ہر شخص کو نور عطا ہو گا لیکن جب پل صراط پر جائیں گے تو منافقوں کا نور بجھ جائے گا اسے دیکھ کر مومن بھی ڈرنے لگیں گے کہ ایسا نہ ہو ہمارا نور بھی بجھ جائے تو اللہ سے دعائیں کریں گے کہ یا اللہ ہمارا نور ہمارے لئے پورا پورا کر ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اس آیت سے مراد پل صراط پر نور کا ملنا ہے تاکہ اس اندھیری جگہ سے با آرام گذر جائیں ۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے سجدے کی اجازت قیامت کے دن مجھے دی جائے گی اور اسی طرح سب سے پہلے سجدے سے سر اٹھانے کا حکم بھی مجھے ہو گا میں آگے پیچھے دائیں بائیں نظریں ڈالوں گا اور اپنی امت کو پہچان لوں گا تو ایک شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر آپ کی امت تک کی تمام امتیں اس میدان میں اکٹھی ہوں گی ان میں سے آپ اپنی امت کی شناخت کیسے کریں گے؟ آپ نے فرمایا بعض مخصوص نشانیوں کی وجہ سے میری امت کے اعضاء وضو چمک رہے ہوں گے یہ وصف کسی اور امت میں نہ ہو گا اور انہیں ان کے نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھوں میں دیئے جائیں گے اور ان کے چہرے چمک رہے ہوں گے اور ان کا نور ان کے آگے آگے چلتا ہو گا اور ان کی اولاد ان کے ساتھ ہی ہو گی ۔ ضحاک فرماتے ہیں ان کے دائیں ہاتھ میں ان کا عمل نامہ ہو گا جیسے اور آیتوں میں تشریح ہے ۔ ان سے کہا جائے گا کہ آج تمہیں ان جنتوں کی بشارت ہے جن کے چپے چپے پر چشمے جاری ہیں جہاں سے کبھی نکلنا نہیں ، یہ زبردست کامیابی ہے ۔ اس کے بعد کی آیت میں میدان قیامت کے ہولناک دل شکن اور کپکپا دینے والے واقعہ کا بیان ہے کہ سوائے سچے ایمان اور کھرے اعمال والوں کے نجات کسی کو منہ دکھائے گی ۔ سلیم بن عامر فرماتے ہیں ہم ایک جنازے کے ساتھ باب دمشق میں تھے جب جنازے کی نماز ہو چکی اور دفن کا کام شروع ہوا تو حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لوگو! تم اس دنیا کی منزل میں آج صبح شام کر رہے ہو نیکیاں برائیاں کر سکتے ہو اس کے بعد ایک اور منزل کی طرف تم سب کوچ کرنے والے ہو وہ منزل یہی قبر کی ہے جو تنہائی کا ، اندھیرے کا ، کیڑوں کا اور تنگی اور تاریکی والا گھر ہے مگر جس کے لئے اللہ تعالیٰ اسے وسعت دے دے ۔ یہاں سے تم پھر میدان قیامت کے مختلف مقامات پر وارد ہو گے ۔ ایک جگہ بہت سے لوگوں کے چہرے سفید ہو جائیں گے اور بہت سے لوگوں کے سیاہ پڑ جائیں گے ، پھر ایک اور میدان میں جاؤ گے جہاں سخت اندھیرا ہو گا وہاں ایمانداروں کو نور تقسیم کیا جائے گا اور کافر و منافق بےنور رہ جائے گا ، اسی کا ذکر آیت ( او ظلمات ) الخ ، میں ہے پس جس طرح آنکھوں والے کی بصارت سے اندھا کوئی نفع حاصل نہیں کر سکتا منافق و کافر ایماندار کے نور سے کچھ فائدہ نہ اٹھا سکے گا ۔ تو منافق ایمانداروں سے آرزو کریں گے کہ اس قدر آگے نہ بڑھ جاؤ کچھ تو ٹھہرو جو ہم بھی تمہارے نور کے سہارے چلیں تو جس طرح یہ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ مکر و فریب کرتے تھے آج ان سے کہا جائے گا کہ لوٹ جاؤ اور نور تلاش کر لاؤ یہ واپس نور کی تقسیم کی جگہ جائیں گے لیکن وہاں کچھ نہ پائیں گے ، یہی اللہ کا وہ مکر ہے جس کا بیان آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٤٢؁ۡۙ ) 4- النسآء:142 ) ، میں ہے ۔ اب لوٹ کر یہاں جو آئیں گے تو دیکھیں گے کہ مومنوں اور ان کے درمیان ایک دیوار حائل ہو گئی ہے جس کے اس طرف رحمت ہی رحمت ہے اور اس طرف عذاب و سزا ہے ۔ پس منافق نور کی تقسیم کے وقت تک دھوکے میں ہی پڑ رہے گا نور مل جانے پر بھید کھل جائے گا تمیز ہو جائے گی اور یہ منافق اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائیں گے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ جب کامل اندھیرا چھایا ہوا ہو گا کہ کوئی انسان اپنا ہاتھ بھی نہ دیکھ سکے اس وقت اللہ تعالیٰ ایک نور ظاہر کرے گا مسلمان اس طرف جانے لگیں گے تو منافق بھی پیچھے لگ جائیں گے ۔ جب مومن زیادہ آگے نکل جائیں گے تو یہ انہیں ٹھہرانے کے لئے آواز دیں گے اور یاد دلائیں گے کہ دنیا میں ہم سب ساتھ ہی تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی پردہ پوشی کے لئے ان کے ناموں سے پکارا جائے گا لیکن پل صراط پر تمیز ہو جائے گی مومنوں کو نور ملے گا اور منافقوں کو بھی ملے گا لیکن جب درمیان میں پہنچ جائیں گے منافقوں کا نور بجھ جائے گا یہ مومنوں کو آواز دیں گے لیکن اس وقت خود مومن خوف زدہ ہو رہے ہوں گے یہ وہ وقت ہو گا کہ ہر ایک آپادھاپی میں ہو گا ، جس دیوار کا یہاں ذکر ہے یہ جنت و دوزخ کے درمیان حد فاصل ہو گی اسی کا ذکر آیت ( وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَي الْاَعْرَافِ رِجَالٌ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّاۢ بِسِيْمٰىهُمْ ۚ وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۣ لَمْ يَدْخُلُوْهَا وَهُمْ يَطْمَعُوْنَ 46؀ ) 7- الاعراف:46 ) میں ہے ۔ پس جنت میں رحمت اور جہنم میں عذاب ۔ ٹھیک بات یہی ہے لیکن بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد بیت المقدس کی دیوار ہے جو جہنم کی وادی کے پاس ہو گی ، ابن عمر سے مروی ہے کہ یہ دیوار بیت المقدس کی شرقی دیوار ہے جس کے باطن میں مسجد وغیرہ ہے اور جس کے ظاہر میں وادی جہنم ہے اور بعض بزرگوں نے بھی یہی کہا ہے ، لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کا مطلب یہ نہیں کہ بعینہ یہی دیوار اس آیت میں مراد ہے بلکہ اس کا ذکر بطور قرب کے معنی میں آیت کی تفسیر میں ان حضرات نے کر دیا ہے اس لئے کہ جنت آسمانوں میں اعلیٰ علین میں ہے اور جہنم اسفل السافلین میں حضرت کعب احبار سے مروی ہے کہ جس دروازے کا ذکر اس آیت میں ہے اس سے مراد مسجد کا باب الرحمت ہے یہ بنو اسرائیل کی روایت ہے جو ہمارے لئے سند نہیں بن سکتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دیوار قیامت کے دن مومنوں اور منافقوں کے درمیان علیحدگی کے لئے کھڑی کی جائے گی مومن تو اس کے دروازے میں سے جا کر جنت میں پہنچ جائیں گے پھر دروازہ بند ہو جائے گا اور منافق حیرت زدہ ظلمت و عذاب میں رہ جائیں گے ۔ جیسے کہ دنیا میں بھی یہ لوگ کفر و جہالت شک و حیرت کی اندھیروں میں تھے ، اب یہ یاد دلائیں گے کہ دیکھو دنیا میں ہم تمہارے ساتھ تھے جمعہ جماعت ادا کرتے تھے عرفات اور غزوات میں موجود رہتے تھے واجبات ادا کرتے تھے ۔ ایماندار کہیں گے ہاں بات تو ٹھیک ہے لیکن اپنے کرتوت تو دیکھو گناہوں میں نفسانی خواہشوں میں اللہ کی نافرمانیوں میں عمر بھر تم لذتیں اٹھاتے رہے اور آج توبہ کرلیں گے کل بد اعمالیوں چھوڑ دیں گے اسی میں رہے ۔ انتظار میں ہی عمر گزاری دی کہ دیکھیں مسلمانوں کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اور تمہیں یہ بھی یقین نہ آیا کہ قیامت آئے گی بھی یا نہیں؟ اور پھر اس آرزو میں رہے کہ اگر آئے گی پھر تو ہم ضرور بخش دیئے جائیں گے اور مرتے دم تک اللہ کی طرف یقین خلوص کے ساتھ جھکنے کی توفیق میسر نہ آئی اور اللہ کے ساتھ تمہیں دھوکے باز شیطان نے دھوکے میں ہی رکھا ۔ یہاں تک کہ آج تم جہنم واصل ہو گئے ۔ مطلب یہ ہے کہ جسموں سے تو تم ہمارے ساتھ تھے لیکن دل اور نیت سے ہمارے ساتھ نہ تھے بلکہ حیرت و شک میں ہی پڑے رہے ریا کاری میں رہے اور دل لگا کر یاد الٰہی کرنا بھی تمہیں نصیب نہ ہوا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ یہ منافق مومنوں کے ساتھ تھے نکاح بیاہ مجلس مجمع موت زیست میں شریک رہے ۔ کہ خبردار ان کا رنگ تم پر نہ چڑھ جائے ۔ اصل و فرع میں ان سے بالکل الگ رہو ، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ربیع بن ابو عمیلہ فرماتے ہیں قرآن حدیث کی مٹھاس تو مسلم ہی ہے لیکن میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک بہت ہی پیاری اور میٹھی بات سنی ہے جو مجھے بیحد محبوب اور مرغوب ہے آپ نے فرمایا جب بنو اسرائیل کی الہامی کتاب پر کچھ زمانہ گذر گیا تو ان لوگوں نے کچھ کتابیں خود تصنیف کرلیں اور ان میں وہ مسائل لکھے جو انہیں پسند تھے اور جو ان کے اپنے ذہن سے انہوں نے تراش لئے تھے ، اب مزے لے لے کر زبانیں موڑ موڑ کر انہیں پڑھنے لگے ان میں سے اکثر مسائل اللہ کی کتاب کے خلاف تھے جن جن احکام کے ماننے کو ان کا جی نہ چاہتا تھا انہوں نے بدل ڈالے تھے اور اپنی کتاب میں اپنی طبیعت کے مطابق مسائل جمع کر لئے تھے اور انہی پر عامل بن گئے ، اب انہیں سوجھی کہ اور لوگوں کو بھی منوائیں اور انہیں بھی آمادہ کریں کہ ان ہی ہماری لکھی ہوئی کتابوں کو شرعی کتابیں سمجھیں اور مدار عمل انہیں پر رکھیں اب لوگوں کو اسی کی دعوت دینے لگے اور زور پکڑتے گئے ، یہاں تک کہ جو ان کی ان کتابوں کو نہ مانتا اسے یہ ستاتے تکلیف دیتے مارتے پیٹتے بلکہ قتل کر ڈالتے ، ان میں ایک شخص اللہ والے پورے عالم اور متقی تھے انہوں نے ان کی طاقت سے اور زیادتی سے مرعوب ہو کر کتاب اللہ کو ایک لطیف چیز پر لکھ کر ایک نر سنگھے میں ڈال کر اپنی گردن میں اسے ڈال لیا ، ان لوگوں کا شر و فساد روز بروز بڑھتا جا رہا تھا یہاں تک کہ بہت سے ان لوگوں کو جو کتاب اللہ پر عامل تھے انہوں نے قتل کر دیا ، پھر آپس میں مشورہ کیا کہ دیکھو کہ یوں ایک ایک کو کب تک قتل کرتے رہیں گے؟ ان کا بڑا عالم اور ہماری اس کتاب کو بالکل نہ ماننے والا تمام بنی اسرائیل میں سب سے بڑھ کر کتاب اللہ کا عامل فلاں عالم ہے اسے پکڑو اور اس سے اپنی یہ رائے قیاس کی کتاب منواؤ اگر وہ مان لے گا تو پھر ہماری چاندی ہی چاندی ہے اور اگر وہ نہ مانے تو اسے قتل کر دو پھر تمہاری اس کتاب کا مخالف کوئی نہ رہے گا اور دوسرے لوگ خواہ مخواہ ہماری ان کتابوں کو قبول کرلیں گے اور انہیں ماننے لگیں گے ، چنانچہ ان رائے قیاس والوں نے کتاب اللہ کے عالم و عامل اس بزرگ کو پکڑوا منگوایا اور اس سے کہا کہ دیکھ ہماری اس کتاب میں جو ہے اسے سب کو تو مانتا ہے یا نہیں؟ ان پر تیرا ایمان ہے یا نہیں؟ اس اللہ ترس کتاب اللہ کے ماننے والے عالم نے کہا اس میں تم نے کیا لکھا ہے؟ ذرا مجھے سناؤ تو ، انہوں نے سنایا اور کہا اس کو تو مانتا ہے؟ اس بزرگ کو اپنی جان کا ڈر تھا اس لئے جرات کے ساتھ یہ تو نہ کہہ سکا کہ نہیں مانتا بلکہ اپنے اس نرسنگھے کی طرف اشارہ کر کے کہا میرا اسپر ایمان ہے وہ سمجھ بیٹھے کہ اس کا اشارہ ہماری اس کتاب کی طرف ہے ۔ چانچہ اس کی ایذاء رسانی سے باز رہے لیکن تاہم اس کے اطوار و افعال سے کھٹکتے ہی رہے یہاں تک کہ جب اس کا انتقال ہوا تو انہوں نے تفتیش شروع کی کہ ایسا نہ ہو اس کے پاس کتاب اللہ اور دین کے سچے مسائل کی کوئی کتاب ہو آخر وہ نرسنگھا ان کے ہاتھ لگ گیا پڑھا تو اس میں اصلی مسائل کتاب اللہ کے موجود تھے اب بات بنالی کہ ہم نے تو کبھی یہ مسائل نہیں سنے ایسی باتیں ہمارے دین کی نہیں چنانچہ زبردست فتنہ برپا ہو گیا اور بہتر گروہ ہو گئے ان سب میں بہتر گروہ جو راستی پر اور حق پر تھا وہ تھا جو اس نرسنگھے والے مسائل پر عامل تھا ۔ حضرت ابن مسعود نے یہ واقعہ بیان فرما کر کہا لوگو تم میں سے بھی جو باقی رہے گا وہ ایسے ہی امور کا معائنہ کرے گا اور وہ بالکل بےبس ہو گا ان بری کتابوں کے مٹانے کی اس میں قدرت نہ ہو گی ، پس ایسے مجبوری اور بےکسی کے وقت بھی اس کا یہ فرض تو ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ پر یہ ثابت کر دے کہ وہ ان سب کو برا جانتا ہے ۔ امام ابو جعفر طبری رحمتہ اللہ علیہ نے بھی یہ روایت نقل کی ہے کہ عتریس بن عرقوب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے اے ابو عبد اللہ جو شخص بھلائی کا حکم نہ کرے اور برائی سے نہ روکے وہ ہلاک ہوا آپ نے فرمایا ہلاک وہ ہو گا جو اپنے دل سے اچھائی کو اچھائی نہ سمجھے اور برائی کو برائی نہ جانے ، پھر آپ نے بنی اسرائیل کا یہ واقعہ بیان فرمایا ۔ پھر ارشاد باری لیکن اب یہاں بالکل الگ کر دیئے گئے ۔ سورہ مدثر کی آیتوں میں ہے کہ مسلمان مجرموں سے انہیں جہنم میں دیکھ کر پوچھیں گے کہ آخر تم یہاں کیسے پھنس گئے اور وہ اپنے بد اعمال گنوائیں گے ۔ تو یاد رہے کہ یہ سوال صرف بطور ڈانٹ ڈپٹ کے اور انہیں شرمندہ کرنے کے لئے ہو گا ورنہ حقیقت حال سے مسلمان خوب آگاہ ہوں گے ۔ پھر یہ جیسے وہاں فرمایا تھا کہ کسی کی سفارش انہیں نفع نہ دے گی ، یہاں فرمایا آج ان سے فدیہ نہ لیا جائے گا گو زمین بھر کر سونا دیں قبول نہ کیا جائے گا نہ منافقوں سے نہ کافروں سے ان کا مرجع و ماویٰ جہنم ہے وہی ان کے لائق ہے اور ظاہر ہے کہ وہ بدترین جگہ ہے ۔