Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يُنَادُوۡنَهُمۡ اَلَمۡ نَكُنۡ مَّعَكُمۡ‌ؕ قَالُوۡا بَلٰى وَلٰـكِنَّكُمۡ فَتَنۡتُمۡ اَنۡفُسَكُمۡ وَ تَرَبَّصۡتُمۡ وَارۡتَبۡتُمۡ وَغَرَّتۡكُمُ الۡاَمَانِىُّ حَتّٰى جَآءَ اَمۡرُ اللّٰهِ وَ غَرَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ‏ ﴿14﴾
یہ چلا چلا کر ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے وہ کہیں گے کہ ہاں تھے تو سہی لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنہ میں پھنسا رکھا تھا اور وہ انتظار میں ہی رہے اور شک وشبہ کرتے رہے اور تمہیں تمہاری فضول تمناؤں نے دھوکے میں ہی رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا اور تمہیں اللہ کے بارے میں دھو کہ دینے والے نے دھوکے میں ہی رکھا ۔
ينادونهم الم نكن معكم قالوا بلى و لكنكم فتنتم انفسكم و تربصتم و ارتبتم و غرتكم الاماني حتى جاء امر الله و غركم بالله الغرور
The hypocrites will call to the believers, "Were we not with you?" They will say, "Yes, but you afflicted yourselves and awaited [misfortune for us] and doubted, and wishful thinking deluded you until there came the command of Allah . And the Deceiver deceived you concerning Allah .
Yeh chilla chilla ker unn say kahen gey kay kiya hum tumharay sath na thay woh kahengay kay haan thay to sahi lekin tum ney apney app ko fitnay mein phansa rakha tha our intizar mein hi rahey our shak-o-shuba kertay raheyour tumhen tumhari fazool tamannao ney dhokay mein hi rakha yahan tak kay Allah ka hukum aa phoncha our tumhen Allah kay baray mein dhoka denay walay ney dhokay mein hi rakha.
وہ مومنوں کو پکاریں گے کہ : کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟ مومن کہیں گے کہ : ہاں تھے تو سہی ، لیکن تم نے خود اپنے آپ کو فتنے میں ڈالی لیا ، اور انتظار میں رہے ، ( ١٢ ) شک میں پڑے رہے ، اور جھوٹی آرزوؤں نے تمہیں دھوکے میں ڈالے رکھا ، ( ١٣ ) یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا اور وہ بڑا دھوکے باز ( یعنی شیطان ) تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکا ہی دیتا رہا ۔
منافق ( ف۳۹ ) مسلمانوں کو پکاریں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ( ف٤۰ ) وہ کہیں گے کیوں نہیں مگر تم نے تو اپنی جانیں فتنہ میں ڈالیں ( ف٤۱ ) اور مسلمانوں کی برائی تکتے اور شک رکھتے ( ف٤۲ ) اور جھوٹی طمع نے تمھیں فریب دیا ( ف٤۳ ) یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا ( ف٤٤ ) اور تمہیں اللہ کے حکم پر اس بڑے فریبی نے مغرور رکھا ( ف٤۵ )
وہ مومنوں سے پکار پکار کر کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ 20 تھے ؟ مومن جواب دیں گے ہاں ، مگر تم نے اپنے آپ کو خود فتنے میں ڈالا 21 موقع پرستی کی22 ، شک میں پڑے رہے 23 ، اور جھوٹی توقعات تمھیں فریب دیتی رہیں ، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آگیا ، 24 ۔ اور آخر وقت تک وہ بڑا دھوکے 25 باز تمھیں اللہ کے معاملہ میں دھوکہ دیتا رہا ۔
وہ ( منافق ) اُن ( مومنوں ) کو پکار کر کہیں گے: کیا ہم ( دنیا میں ) تمہاری سنگت میں نہ تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں! لیکن تم نے اپنے آپ کو ( منافقت کے ) فتنہ میں مبتلا کر دیا تھا اور تم ( ہمارے لئے برائی اور نقصان کے ) منتظر رہتے تھے اور تم ( نبوّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینِ اسلام میں ) شک کرتے تھے اور باطل امیدوں نے تمہیں دھوکے میں ڈال دیا ، یہاں تک کہ اللہ کا اَمرِ ( موت ) آپہنچا اور تمہیں اللہ کے بارے میں دغا باز ( شیطان ) دھوکہ دیتا رہا
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :20 یعنی کیا ہم تمہارے ساتھ ایک ہی مسلم معاشرے میں شامل نہ تھے ؟ کیا ہم کلمہ گو نہ تھے ؟ کیا تمہاری طرح ہم بھی نمازیں نہ پڑھتے تھے ؟ روزے نہ رکھتے تھے ؟ حج اور زکوٰۃ ادا نہ کرتے تھے ؟ کیا تمہاری مجلسوں میں ہم شریک نہ ہوتے تھے ؟ تمہارے ساتھ ہمارے شادی بیاہ اور رشتہ داری کے تعلقات نہ تھے ؟ پھر آج ہمارے اور تمہارے درمیان یہ جدائی کیسی پڑگئی؟ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :21 یعنی مسلمان ہو کر بھی تم مخلص مسلمان نہ بنے ، ایمان اور کفر کے درمیان لٹکتے رہے ، کفر اور کفار سے تمہاری دلچسپیاں کبھی ختم نہ ہوئیں ، اور اسلام سے تم نے کبھی اپنے آپ کو پوری طرح وابستہ نہ کیا ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :22 اصل الفاظ ہیں تَرَبَّصْتُمْ ۔ تَرَبُّص عربی زبان میں انتظار کرنے اور موقع کی تلاش میں ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں ۔ جب کوئی شخص دو راستوں میں سے کسی ایک پر جانے کا قطعی فیصلہ نہ کرے ، بلکہ اس فکر میں کھڑا ہو کہ جدھر جانا مفید ہوتا نظر آئے اسی طرف چل پڑے ، تو کہا جائے گا کہ وہ تربص میں مبتلا ہے ۔ منافقین نے کفر و اسلام کی کشمکش کے اس نازک دور میں یہی رویہ اختیار کر رکھا تھا ۔ وہ نہ کھل کر کفر کا ساتھ دے رہے تھے ، نہ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی طاقت اسلام کی نصرت و حمایت میں صرف کر رہے تھے ۔ بس اپنی جگہ بیٹھے یہ دیکھ رہے تھے کہ اس قوت آزمائی میں آخر کار پلڑا کدھر جھکتا ہے ، تاکہ اسلام کامیاب ہوتا نظر آئے تو اس کی طرف جھک جائیں اور اس وقت مسلمانوں کے ساتھ کلمہ گوئی کا تعلق ان کے کام آئے ، اور کفر کو غلبہ حاصل ہو تو اس کے حامیوں سے جا ملیں اور اسلام کی طرف سے جنگ میں کسی قسم کا حصہ نہ لینا اس وقت ان کے حق میں مفید ثابت ہو ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :23 اس سے مراد مختلف قسم کے شکوک میں جو ایک منافق کو لاحق ہوتے ہیں ، اور وہی اس کی منافقت کا اصل سبب ہوا کرتے ہیں ۔ اسے خدا کی ہستی میں شک ہوتا ہے ۔ قرآن کے کتاب اللہ ہونے میں شک ہوتا ہے ۔ آخرت اور وہاں کی باز پرس اور جزا و سزا میں شک ہوتا ہے اور اس امر میں شک ہوتا ہے کہ حق اور باطل کا یہ جھگڑا واقعی کوئی حقیقت بھی رکھتا ہے یا یہ سب محض ڈھکوسلے ہیں اور اصل چیز بس یہ ہے کہ خوش باش دمے کہ زندگانی این است ۔ کوئی شخص جب تک ان شکوک میں مبتلا نہ ہو وہ کبھی منافق نہیں ہو سکتا ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :24 اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک کہ تم کو موت آ گئی اور مرتے دم تک تم اس فریب سے نہ نکلے ۔ دوسرے یہ کہ اسلام کو غلبہ نصیب ہو گیا اور تم تماشا دیکھتے رہ گئے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :25 مراد ہے شیطان ۔