Surah

Information

Surah # 58 | Verses: 22 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 105 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ نُهُوۡا عَنِ النَّجۡوٰى ثُمَّ يَعُوۡدُوۡنَ لِمَا نُهُوۡا عَنۡهُ وَيَتَنٰجَوۡنَ بِالۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ وَمَعۡصِيَتِ الرَّسُوۡلِ وَاِذَا جَآءُوۡكَ حَيَّوۡكَ بِمَا لَمۡ يُحَيِّكَ بِهِ اللّٰهُۙ وَيَقُوۡلُوۡنَ فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ لَوۡلَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوۡلُ‌ؕ حَسۡبُهُمۡ جَهَنَّمُ‌ۚ يَصۡلَوۡنَهَا‌ۚ فَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿8﴾
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہیں کانا پوسی سے روک دیا گیا تھا وہ پھر بھی اس روکے ہوئے کام کو دوبارہ کرتے ہیں اور آپس میں گناہ کی اور ظلم و زیادتی کی اور نافرمانی ٔ پیغمبر کی سرگوشیاں کرتے ہیں اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالٰی نے نہیں کہا اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا ان کے لئے جہنم کافی ( سزا ) ہے جس میں یہ جائیں گے سو وہ برا ٹھکانا ہے ۔
الم تر الى الذين نهوا عن النجوى ثم يعودون لما نهوا عنه و يتنجون بالاثم و العدوان و معصيت الرسول و اذا جاءوك حيوك بما لم يحيك به الله و يقولون في انفسهم لو لا يعذبنا الله بما نقول حسبهم جهنم يصلونها فبس المصير
Have you not considered those who were forbidden from private conversation, then they return to that which they were forbidden and converse among themselves about sin and aggression and disobedience to the Messenger? And when they come to you, they greet you with that [word] by which Allah does not greet you and say among themselves, "Why does Allah not punish us for what we say?" Sufficient for them is Hell, which they will [enter to] burn, and wretched is the destination.
Kiya tu ney unn logon ko nahi dekha? Jinhen kaana phoosi say rok diya gaya tha woh phir bhi iss rokay huye kaam ko doobara kertay hain aur aapas mein gunah ki aur zulm-o-ziyadti ki aur na farmaniy-e-payghumbar ki sirgoshiyan kertay hain aur jab teray pass aatay hain to tujhay inn lafzon mein salam kertay hain jin lafzon mein Allah Taalaa ney nahi kaha aur apney dil mein kehtay hain kay Allah Taalaa humen iss per jo hum kehtay hain saza kiyon nahi deta inn kay liye jahannum kafi ( saza ) hai jiss mein yeh jayen gay so woh bura thikana hai.
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں سرگوشی کرنے سے منع کردیا گیا تھا ، پھر بھی وہ وہی کام کرتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا؟ اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ ایسی سرگوشیاں کرتے ہیں جو گناہ ، زیادتی اور رسول کی نافرمانی پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ اور ( اے پیغمبر ) جب وہ تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں ایسے طریقے سے سلام کرتے ہیں جس سے اللہ نے تمہیں سلام نہیں کیا ، ( ٥ ) اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ : ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دے دیتا؟ ( ٦ ) جہنم ہی ان ( کی خبر لینے ) کے لیے کافی ہے ، وہ اسی میں جا پہنچیں گے ، اور وہ پہنچنے کی بہت بری جگہ ہے ۔
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جنہیں بری مشورت سے منع فرمایا گیا تھا پھر وہی کرتے ہیں ( ف۳۱ ) جس کی ممانعت ہوئی تھی اور آپس میں گناہ اور حد سے بڑھنے ( ف۳۲ ) اور رسول کی نافرمانی کے مشورے کرتے ہیں ( ف۳۳ ) اور جب تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں تو ان لفظوں سے تمہیں مجرا کرتے ہیں جو لفظ اللہ نے تمہارے اعزاز میں نہ کہے ( ف۳٤ ) اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں ہمیں اللہ عذاب کیوں نہیں کرتا ہمارے اس کہنے پر ( ف۳۵ ) انہیں جہنم بس ہے ، اس میں دھنسیں گے ، تو کیا ہی برا انجام ،
کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کر دیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی حرکت کیے جاتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا 21 یہ لوگ چھپ چھپ کر آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں کرتے ہیں ، اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تمھیں اس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تم پر سلام نہیں کیا ہے22 ۔ اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری ان باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا 23 ۔ ان کے لئے جہنم ہی کافی ہے ۔ اسی کا وہ ایندھن بنیں گے ۔ بڑا ہی برا انجام ہے ان کا ۔
کیا آپ نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں سرگوشیوں سے منع کیا گیا تھا پھر وہ لوگ وہی کام کرنے لگے جس سے روکے گئے تھے اور وہ گناہ اور سرکشی اور نافرمانئ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے متعلق سرگوشیاں کرتے ہیں اور جب آپ کے پاس حاضر ہوتے ہیں تو آپ کو اُن ( نازیبا ) کلمات کے ساتھ سلام کرتے ہیں جن سے اللہ نے آپ کو سلام نہیں فرمایا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ( اگر یہ رسول سچے ہیں تو ) اللہ ہمیں اِن ( باتوں ) پر عذاب کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں؟ انہیں دوزخ ( کا عذاب ) ہی کافی ہے ، وہ اسی میں داخل ہوں گے ، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :21 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو اس روش سے منع فرما چکے تھے ، اس پر بھی جب وہ باز نہ آئے تب براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان عتاب نازل ہوا ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :22 یہ یہود اور منافقین کا مشترک رویہ تھا ۔ متعدد روایتوں میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے السام علیک یا ابا القاسم کہا ۔ یعنی السلام علیک کا تلفظ کچھ اس انداز سے کیا کہ سننے والا سمجھے سلام کہا ہے ، مگر دراصل انہوں نے سام کہا تھا جس کے معنی موت کے ہیں ۔ حضور نے جواب میں فرمایا و علیکم ۔ حضرت عائشہ سے نہ رہا گیا اور انہوں نے کہا موت تمہیں آئے اور اللہ کی لعنت اور پھٹکار پڑے ۔ حضور نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ اے عائشہ ، اللہ کو بد زبانی پسند نہیں ہے ۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ؟ حضور نے فرمایا اور تم نے نہیں سنا کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا ؟ میں نے ان سے کہہ دیا اور تم پر بھی ) بخاری ، مسلم ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم ) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ منافقین اور یہود ، دونوں نے سلام کا یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا ( ابن جریر ) ۔ سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :23 یعنی وہ اپنے نزدیک اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول نہ ہونے کی دلیل سمجھتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر یہ رسول ہوتے تو جس وقت ہم انہیں اس طریقہ سے سلام کرتے اسی وقت ہم پر عذاب آ جاتا ۔ اب چونکہ کوئی عذاب نہیں آتا ، حالانکہ ہم شب و روز یہ حرکت کرتے رہتے ہیں ، لہٰذا یہ رسول نہیں ہیں ۔
معاشرتی آداب کا ایک پہلو اور قیامت کا ایک منظر کانا پھوسی سے یہودیوں کو روک دیا گیا تھا اس لئے کہ ان میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جب صلح صفائی تھی تو یہ لوگ یہ حرکت کرنے لگے کہ جہاں کسی مسلمان کو دیکھا اور جہاں کوئی ان کے پاس گیا یہ ادھر ادھر جمع ہو ہو کر چپکے چپکے اشاروں کنایوں میں اس طرح کانا پھوسی کرنے لگتے کہ اکیلا دکیلا مسلمان یہ گمان کرتا کہ شاید یہ لوگ میرے قتل کی سازشیں کر رہے ہیں یا میرے خلاف اور ایمانداروں کے خلاف کچھ مخفی ترکیبیں سوچ رہے ہیں اسے ان کی طرف جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ، جب یہ شکایتیں عام ہوئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اس سفلی حرکت سے روک دیا ، لیکں انہوں نے پھر بھی یہی کرنا شروع کیا ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم لوگ باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رات کو حاضر ہوتے کہ اگر کوئی کام کاج ہو تو کریں ، ایک رات کو باری والے آگئے اور کچھ اور لوگ بھی بہ نیت ثواب آگئے چونکہ لوگ زیادہ جمع ہوگئے تو ہم ٹولیاں ٹولیاں بن کر ادھر ادھر بیٹھ گئے اور ہر جماعت آپس میں باتیں کرنے لگی ، اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا یہ سرگوشیاں کیا ہو رہی ہیں؟ کیا تمہیں اس سے روکا نہیں گیا ؟ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہماری توبہ ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے کیونکہ اس سے کھٹکا لگا رہتا ہے ، آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ خوف کی چیز بتاؤں وہ پوشیدہ شرک ہے اس طرح کہ ایک شخص اٹھ کھڑا ہو اور دوسروں کے دکھانے کیلئے کوئی دینی کام کرے ( یعنی ریاکاری ) اس کی اسناد غریب ہے اور اس میں بعض راوی ضعیف ہیں ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ ان کی خانگی سرگوشیاں یا تو گناہ کے کاموں پر ہوتی ہیں جس میں ان کا ذاتی نقصان ہے ، یا ظلم پر ہوتی ہیں جس میں دوسروں کے نقصان کی ترکیبیں سوچتے ہیں یا پیغمبر علیہ السلام کی مخالفت پر ایک دوسروں کو پختہ کرتے ہیں اور آپ کی نافرمانیوں کے منصوبے گانٹھتے ہیں ۔ پھر ان بدکاروں کی ایک بدترین خصلت بیان ہو رہی ہے کہ سلام کے الفاظ کو بھی یہ بدل دیتے ہیں ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ یہودی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا السلام علیک یا ابو القاسم حضرت عائشہ سے رہا نہ گیا فرمایا وعلیکم السام ۔ سام کے معنی موت کے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور سخت کلامی کو ناپسند فرماتا ہے ۔ میں نے کہا کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سنا ۔ انہوں نے آپ کو السلام نہیں کہا بلکہ السام کہا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے نہیں سنا ؟ میں نے کہہ دیا وعلیکم ۔ اسی کا بیان یہاں ہو رہا ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ نے ان کے جواب میں فرمایا تھا علیکم السام والنام واللعنتہ اور آپ نے صدیقہ کو روکتے ہوئے فرمایا کہ ہماری دعا ان کے حق میں مقبول ہے اور ان کا ہمیں کو سنانا مقبول ہے ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی نے آکر سلام کیا صحابہ نے جواب دیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا معلوم بھی ہے اس نے کیا کہا تھا ؟ انہوں نے کہا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سلام کیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اس نے کہا تھا سام علیکم یعنی تمہارا دین مغلوب ہو کر مٹ جائے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس یہودی کو بلاؤ جب وہ آگیا تو آپ نے فرمایا سچ سچ بتا کیا تونے سام علیکم نہیں کہا تھا ؟ اس نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے یہی کہا تھا آپ نے فرمایا سنو جب کبھی کوئی اہل کتاب تم میں سے کسی کو سلام کرے تو تم صرف علیک کہہ دیا کرو یعنی جو تونے کہا ہو وہ تجھ پر ( ابن جریر وغیرہ ) پھر یہ لوگ اپنے اس کرتوت پر خوش ہو کر اپنے دل میں کہتے کہ اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہماری اس چالبازی پر ہمیں دنیا میں ضرور عذاب کرتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو ہمارے باطنی حال سے بخوبی واقف ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انہیں دار آخرت کا عذاب ہی کافی ہے جہاں یہ جہنم میں جائیں گے اور بری جگہ پہنچیں گے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہودیوں کا اس طریقے کا سلام ہے ، حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ منافق اسی طرح سلام کرتے تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ تم ان منافقوں اور یہودیوں کے سے کام نہ کرنا تم گناہ کے کاموں اور حد سے گزر جانے اور نبی کے نہ ماننے کے مشورے نہ کرنا بلکہ تمہیں ان کے برخلاف نیکی اور اپنے بچاؤ کے مشورے کرنے چاہئیں ۔ تمہیں ہر وقت اس اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے جس کی طرف تمہیں جمع ہونا ہے ، جو اس وقت تمہیں ہر نیکی بدی کی جزا سزا دے گا اور تمام اعمال و اقوال سے متنبہ کرے گا گو تم بھول گئے لیکن اس کے پاس سب محفوظ اور موجود ہیں ۔ حضرت صفوان فرماتے ہیں میں حضرت عبداللہ بن عمر کا ہاتھ تھامے ہوا تھا کہ ایک شخص آیا اور پوچھا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مومن کی جو سرگوشی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ہوگی اس کے بارے میں کیا سنا ہے؟ آپ نے فرمایا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بلائے گا اور اس قدر قریب کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور لوگوں سے اسے پردے میں کرلے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور پوچھے گا یاد ہے؟ فلاں گناہ تم نے کیا تھا فلاں کیا تھا فلاں کیا تھا یہ اقرار کرتا جائے گا اور دل دھڑک رہا ہوگا کہ اب ہلاک ہوا ، اتنے میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھ دنیا میں بھی میں نے تیری پردہ پوشی کی اور آج بھی میں نے بخشش کی ، پھر اسے اس کی نیکیوں کا نامہ اعمال دیا جائے گا لیکن کافر و منافق کے بارے میں تو گواہ پکار کر کہہ دیں گے کہ یہ اللہ پر جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں خبردار ہو جاؤ ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے ( بخاری و مسلم ) ۔ پھر فرمان ہے کہ اس قسم کی سرگوشی جس سے مسلمان کو تکلیف پہنچے اور اسے بدگمانی ہو شیطان کی طرف سے ہے شیطان ان منافقوں سے یہ کام اس لئے کراتا ہے کہ مومنوں کو غم و رنج ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی شیطان یا کوئی اور انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا ، جسے کوئی ایسی حرکت معلوم ہو اسے چاہئے کہ اعوذ پڑھے اللہ کی پناہ لے اور اللہ پر بھروسہ رکھے انشاء اللہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے گا ۔ ایسی کانا پھوسی جو کسی مسلمان کو ناگوار گزرے ، حدیث میں بھی منع آئی ہے ، مسند احمد میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم تین آدمی ہو تو دو مل کر کان میں منہ ڈال کر باتیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ اس سے اس تیسرے کا دل میلا ہوگا ( بخاری و مسلم ) اور روایت میں ہے کہ ہاں اگر اس کی اجازت ہو تو کوئی حرج نہیں ( مسلم ) ۔