Surah

Information

Surah # 58 | Verses: 22 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 105 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَنَاجَيۡتُمۡ فَلَا تَـتَـنَاجَوۡا بِالۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ وَمَعۡصِيَتِ الرَّسُوۡلِ وَتَنَاجَوۡا بِالۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰى‌ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡۤ اِلَيۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ‏ ﴿9﴾
اے ایمان والو! تم جب سرگوشیاں کرو تو یہ سرگوشی گناہ اور ظلم ( زیادتی ) اور نافرمانی پیغمبر کی نہ ہو ں بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی باتوں پر سرگوشی کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤ گے ۔
يايها الذين امنوا اذا تناجيتم فلا تتناجوا بالاثم و العدوان و معصيت الرسول و تناجوا بالبر و التقوى و اتقوا الله الذي اليه تحشرون
O you who have believed, when you converse privately, do not converse about sin and aggression and disobedience to the Messenger but converse about righteousness and piety. And fear Allah , to whom you will be gathered.
Aey eman walo! Tum jab sirgoshi kero to yeh sirgoshiyan gunah aur zulm ( ziyadti ) aur na farmaniy-e-payghumbar ki na hon bulkay neki aur perhezgari ki baaton per sirgoshi kero aur uss Allah say dartay raho jiss kay pass tum jama kiye jao gay.
اے ایمان والو ! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے سرگوشی کرو تو ایسی سرگوشی نہ کرو جو گناہ ، زیادتی اور رسول کی نافرمانی پر مشتمل ہو ، ہاں ایسی سرگوشی کرو جو نیک کاموں اور تقوی پر مشتمل ہو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، جس کے پاس تم سب کو جمع کر کے لے جایا جائے گا ۔
اے ایمان والو تم جب آپس میں مشورت کرو تو گناہ اور حد سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کی مشورت نہ کرو ( ف۳٦ ) اور نیکی اور پرہیزگاری کی مشورت کرو ، اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف اٹھائے جاؤ گے ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم آپس میں پوشیدہ بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں نہیں بلکہ نیکی اور تقوی کی باتیں کرو اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس کے حضور تمھیں حشر میں پیش ہونا ہے24 ۔
اے ایمان والو! جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو گناہ اور ظلم و سرکشی اور نافرمانئ رسالت مآب ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی سرگوشی نہ کیا کرو اور نیکی اور پرہیزگاری کی بات ایک دوسرے کے کان میں کہہ لیا کرو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تم سب جمع کئے جاؤ گے
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :24 اس سے معلوم ہوا کہ نجویٰ ( آپس میں راز کی بات کرنا ) بجائے خود ممنوع نہیں ہے ، بلکہ اس کے جائز یا ناجائز ہونے کا انحصار ان لوگوں کے کردار پر ہے جو ایسی بات کریں ، اور ان حالات پر ہے جن میں ایسی بات کی جائے ، اور ان باتوں کی نوعیت پر ہے جو اس طریقے سے کی جائیں ۔ جن لوگوں کا اخلاص ، جن کی راست بازی ، جن کے کردار کی پاکیزگی معاشرے میں معلوم و معروف ہو ، انہیں کسی جگہ سر جوڑے بیٹھے دیکھ کر کسی کو یہ شبہ نہیں ہو سکتا کہ وہ آپس میں کسی شرارت کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ بخلاف اس کے جو لوگ شر اور بد کرداری کے لیے معروف ہوں ان کی سرگوشیاں ہر شخص کے دل میں یہ کھٹک پیدا کر دیتی ہیں کہ ضرور کسی نئے فتنے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اسی طرح اتفاقاً کبھی دو چار آدمی باہم کسی معاملہ پر سرگوشی کے انداز میں بات کرلیں تو یہ قابل اعتراض نہیں ہے ۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے اپنا ایک جتھا بنا رکھا ہو اور ان کا مستقل وتیرہ یہی ہو کہ ہمیشہ جماعت مسلمین سے الگ ان کے درمیان کھسر پسر ہوتی رہتی ہو تو یہ لازماً خرابی کا پیش خیمہ ہے ۔ اور کچھ نہیں تو اس کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں پارٹی بازی کی بیماری پھیلتی ہے ۔ ان سب سے بڑھ کر جو چیز نجویٰ کے جائز و ناجائز ہونے کا فیصلہ کرتی ہے وہ ان باتوں کی نوعیت ہے جو نجویٰ میں کی جائیں ۔ دو آدمی اگر اس لیے باہم سر گوشی کرتے ہیں کہ کسی جھگڑے کا تصفیہ کرانا ہے ، یا کسی کا حق دلوانا ہے ، یا کسی نیک کام میں حصہ لینا ہے ، تو یہ کوئی برائی نہیں ہے ، بلکہ کار ثواب ہے ۔ اس کے برعکس اگر یہی نجویٰ دو آدمیوں کے درمیان اس غرض کے لیے ہو کہ کوئی فساد ڈلوانا ہے ، یا کسی کا حق مارنا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ غرض بجائے خود ایک برائی ہے اور اس کے لیے نجویٰ برائی پر برائی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں آداب مجلس کی جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناجیٰ اثنان دون صاحبھما فان ذالک یحزنہٗ ۔ جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو دو آدمی آپس میں کھسر پسر نہ کریں ، کیونکہ یہ تیسرے آدمی کے لیے باعث رنج ہو گا ( بخاری ۔ مسلم ۔ مسند احمد ۔ ترمذی ۔ ابو داؤد ) ۔ دوسری حدیث میں حضور کے الفاظ یہ ہیں فلا یتناجیٰ اثنان دون الثالث الا باذنہ فان ذٰالک یحزنہٗ ۔ دو آدمی باہم سرگوشی نہ کریں مگر تیسرے سے اجازت لے کر ، کیونکہ یہ اس کے لیے باعث رنج ہو گا ( مسلم ) ۔ اسی ناجائز سرگوشی کی تعریف میں یہ بات بھی آتی ہے کہ دو آدمی تیسرے شخص کی موجودگی میں کسی ایسی زبان میں بات کرنے لگیں جسے وہ نہ سمجھتا ہو ۔ اور اس سے بھی زیادہ ناجائز بات یہ ہے کہ وہ اپنی سرگوشی کے دوران میں کسی کی طرف اس طرح دیکھیں یا اشارے کریں جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کے درمیان موضوع بحث وہی ہے ۔