Surah

Information

Surah # 59 | Verses: 24 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 101 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلۡتَـنۡظُرۡ نَـفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ‌ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿18﴾
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ ( بھال ) لے کہ کل ( قیامت ) کے واسطے اس نے ( اعمال کا ) کیا ( ذخیرہ ) بھیجا ہے اور ( ہر وقت ) اللہ سے ڈرتے رہو ۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے ۔
يايها الذين امنوا اتقوا الله و لتنظر نفس ما قدمت لغد و اتقوا الله ان الله خبير بما تعملون
O you who have believed, fear Allah . And let every soul look to what it has put forth for tomorrow - and fear Allah . Indeed, Allah is Acquainted with what you do.
Aey eman walon! Allah say dartay raho aur her shaks dekh ( bhaal ) ley kay kal ( qayamat ) kay wastay uss ney ( aemaal ka ) kiya ( zakheera ) bheja hai. Aur ( her waqt ) Allah say dartay raho Allah tumharay sab aemaal say ba khabar hai.
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے ۔ اور اللہ سے ڈرو ۔ یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے ۔
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو ( ف۵۸ ) اور ہر جان دیکھے کہ کل کے لیے آگے کیا بھیجا ( ف۵۹ ) اور اللہ سے ڈرو ( ف٦۰ ) بیشک اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ،
اے 28 لوگوں جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو ، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیئے کیا سامان کیا ہے 29 ۔ اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ یقینا تمہارے ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو ۔
اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئیے کہ اس نے کل ( قیامت ) کے لئے آگے کیا بھیجا ہے ، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو ، بیشک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو
سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :28 قرآن مجید کا قاعدہ ہے کہ جب کبھی منافق مسلمانوں کے نفاق پر گرفت کی جاتی ہے تو ساتھ ساتھ انہیں نصیحت بھی کی جاتی ہے تاکہ ان میں سے جس کے اندر بھی ابھی کچھ ضمیر کی زندگی باقی ہے وہ اپنی اس روش پر نادم ہو اور خدا سے ڈر کر اس گڑھے سے نکلنے کی فکر کرے جس میں نفس کی بندگی نے اسے گرا دیا ہے ۔ یہ پورا رکوع اسی نصیحت پر مشتمل ہے ۔ سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :29 کل سے مراد آخرت ہے ۔ گویا دنیا کی یہ پوری زندگی آج ہے اور کل وہ یوم قیامت ہے جو اس آج کے بعد آنے والا ہے ۔ یہ انداز بیان اختیار کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقہ سے انسان کو یہ سمجھایا ہے کہ جس طرح دنیا میں وہ شخص نادان ہے جو آج کے لطف و لذت پر اپنا سب کچھ لٹا بیٹھا ہے ۔ اور نہیں سوچتا کہ کل اس کے پاس کھانے کو روٹی اور سر چھپانے کو جگہ بھی باقی رہے گی یا نہیں ، اسی طرح وہ شخص بھی اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہا ہے جو اپنی دنیا بنانے کی فکر میں ایسا منہمک ہے کہ اپنی آخرت سے بالکل غافل ہو چکا ہے ، حالانکہ آخرت ٹھیک اسی طرح آنی ہے جس طرح آج کے بعد کل آنے والا ہے ، اور وہاں وہ کچھ نہیں پا سکتا اگر دنیا کی موجودہ زندگی میں اس کے لیے کوئی پیشگی سامان فراہم نہیں کرتا ۔ اس کے ساتھ دوسرا حکیمانہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں ہر شخص کو آپ ہی اپنا محاسب بنایا گیا ہے ۔ جب تک کسی شخص میں خود اپنے برے اور بھلے کہ تمیز پیدا نہ ہو جائے ، اس کو سرے سے یہ احساس ہی نہیں ہو سکتا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ آخرت میں اس کے مستقبل کو سنوارنے والا ہے یا بگاڑنے والا ۔ اور جب اس کے اندر یہ حس بیدار ہو جائے تو اسے خود ہی اپنا حساب لگا کر یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ اپنے وقت ، اپنے سرمایے ، اپنی محنت ، اپنی قابلیتیں اور اپنی کوششوں کو جس راہ میں صرف کر رہا ہے وہ اسے جنت کی طرف سے جا رہی ہے یا جہنم کی طرف ۔ یہ دیکھنا اس کے اپنے ہی مفاد کا تقاضا ہے ، نہ دیکھے گا تو آپ ہی اپنا مستقبل خراب کرے گا ۔
اجتماعی اور خیر کی ایک نوعیت اور انفرادی اعمال خیر حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم دن چڑھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ کچھ لوگ آئے جو ننگے بدن اور کھلے پیر تھے ۔ صرف چادروں یا عباؤں سے بدن چھپائے ہوئے تلواریں گردنوں میں حمائل کئے ہوئے تھے یہ تمام لوگ قبیلہ مضر میں سے تھے ، ان کی اس فقرہ فاقہ کی حالت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی رنگت کو متغیر کر دیا ، آپ گھر میں گئے پھر باہر آئے پھر حضرت بلال کو اذان کہنے کا حکم دیا اذان ہوئی پھر اقامت ہوئی آپ نے نماز پڑھائی پھر خطبہ شروع کیا اور آیت ( ترجمہ ) الخ ، تلاوت کی پھر سورہ حشر کی آیت ( ترجمہ ) الخ ، پڑھی اور لوگوں کو خیرات دینے کی رغبت دلائی جس پر لوگوں نے صدقہ دینا شروع کیا بہت سے درہم دینار کپڑے لتے کھجوریں وغیرہ آ گئیں آپ برابر تقریر کئے جاتے تھے یہاں تک کہ فرمایا اگر آدھی کھجور بھی دے سکتے ہو تو لے آؤ ، ایک انصاری ایک تھیلی نقدی کی بھری ہوئی بہت وزنی جسے بمشکل اٹھا سکتے تھے لے آئے پھر تو لوگوں نے لگاتار جو کچھ پایا لانا شروع کر دیا یہاں تک کہ ہر چیز کے ڈھیر لگ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اداس چہرہ بہت کھل گیا اور مثل سونے کے چمکنے لگا اور آپ نے فرمایا جو بھی کسی اسلامی کار خیر کر شروع کرے اسے اپنا بھی اور اس کے بعد جو بھی اس کام کو کریں سب کا بدلہ ملتا ہے لیکن بعد والوں کے اجر گھٹ کر نہیں ، اسی طرح جو اسلام میں کسی برے اور خلاف شروع طریقے کو جاری کرے اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہوتا ہے اور پھر جتنے لوگ اس پر کاربند ہوں سب کو جتنا گناہ ملے گا اتنا ہی اسے بھی ملتا ہے مگر ان کے گناہ گھٹتے نہیں ( مسلم ) آیت میں پہلے حکم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو یعنی اس کے احکام بجا لا کر اور اس کی نافرمانیوں سے بچ کر ، پھر فرمان ہے کہ وقت سے پہلے اپنا حساب آپ لیا کرو دیکھتے رہو کہ قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے پیش ہو گے تب کام آنے والے نیک اعمال کا کتنا کچھ ذخیرہ تمہارے پاس ہے ، پھر تاکید ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تمہارے تمام اعمال و احوال سے اللہ تعالیٰ پورا باخبر ہے نہ کوئی چھوٹا کام اس سے پوشیدہ نہ بڑا نہ چھپا نہ کھلا ۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ کے ذکر کو نہ بھولو ورنہ وہ تمہارے نیک اعمال جو آخرت میں نفع دینے والے ہیں بھلا دے گا اس لئے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی کے جنس سے ہوتا ہے اسی لئے فرمایا کہ یہی لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے والے اور قیامت کے دن نقصان پہنچانے والے اور ہلاکت میں پڑنے والے یہی لوگ ہیں ، جیسے اور جگہ ارشاد ہے ۔ ( ترجمہ ) مسلمانو! تمہیں تمہارے مال و اولاد یاد اللہ سے غافل نہ کریں جو ایسا کریں وہ سخت زیاں کار ہیں ، طبرانی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ نہ کے ایک خطبہ کا مختصر سا حصہ یہ منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ، کیا تم نہیں جانتے؟ کہ صبح شام تم اپنے مقررہ وقت کی طرف بڑھ رہے ہو ، پس تمہیں چاہئے کہ اپنی زندگی کے اوقات اللہ عزوجل کی فرمانبرداری میں گذارو ، اور اس مقصد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے کوئی شخص صرفاپنی طاقت و قوت سے حاصل نہیں کر سکتا ، جن لوگوں نے اپنی عمر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے سوا اور کاموں میں کھپائی ان جیسے تم نہ ہونا ، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان جیسے بننے سے منع فرمایا ہے ( ترجمہ ) خیال کرو کہ تمہاری جان پہچان کے تمہارے بھائی آج کہاں ہیں؟ انہوں نے اپنے گزشتہ ایام میں جو اعمال کئے تھے ان کا بدلہ لینے یا ان کی سزا پانے کے لئے وہ دربار اہلیہ میں جا پہنچے ، یا تو انہوں نے سعادت اور خوش نصیبی پائی یا نامرادی اور شقاوت حاصل کر لی ، کہاں ہیں؟ وہ سرکش لوگ جنہوں نے بارونق شہر بسائے اور ان کے مضبوط قلعے کھڑے کئے ، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں ، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے مضبوط قلعے کھڑے کئے ، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں ، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے روشنی حاصل کرو جو تمہیں قیامت کے دن کی اندھیروں میں کام آ سکے ، اس کی خوبی بیان سے عبرت حاصل کرو اور بن سنور جاؤ ، دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا اور ان کی اہل بیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا ( ترجمہ ) یعنی وہ نیک کاموں میں سبقت کرتے تھے اور بڑے لالچ اور سخت خوف کے ساتھ ہم سے دعائیں کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے جھکے جاتے تھے ، سنو وہ بات بھلائی سے خالی ہے جس سے اللہ کی رضامندی مقصود نہ ہو ، وہ مال خیرو و برکت والا نہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جاتا ہو ، وہ شخص نیک بختی سے دور ہے جس کی جہالت بردباری پر غالب ہو اس طرح وہ شخص بھی نیکی سے خالی ہاتھ ہے جو اللہ کے احکام کی تعمیل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف کھائے ۔ اس کی اسناد بہت عمدہ ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں ، گو اس کے ایک راوی نعیم بن نمحہ ثقابت یا عدم ثقاہت سے معرف نہیں ، لیکن امام ابو داؤد سجستانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ فیصلہ کافی ہے کہ جریر بن عثمان کے تمام استاد ثقہ ہیں اور یہ بھی آپ ہی کے استاذہ میں سے ہیں اور اس خطبہ کے اور شواہد بھی مروی ہیں ، واللہ علم ۔ پھر ارشاد ہتا ہے کہ جہنمی اور جنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یکساں نہیں ، جیسے فرمان ہے ( ترجمہ ) الخ ، یعنی کیا بدکاروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں با ایمان نیک کار لوگوں کے مثل کر دیں گے ان کا جینا اور مرنا یکساں ہے ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور برا ہے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) الخ ، اندھا اور دیکھتا ایماندار صالح اور بدکار برابر نہیں ، تم بہت ہی کم نصیحت اصل کر رہے ہو ، اور ( ترجمہ ) الخ کیا ہم ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے والوں کو فساد کرنے والوں جیسا بنا دیں گے یا پرہیز گاروں کو مثل فاجروں کے بنا دیں گے؟ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ، مطلب یہ ہے کہ نیک کار لوگوں کا اکرام ہو گا اور بدکار لوگوں کو رسوا کن عذاب ہو گا ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ جنتی لوگ فائز بمرام اور مقصدور ، کامیاب اور فلاح و نجات یافتہ ہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے بال بال بچ جائیں گے ۔