Surah

Information

Surah # 60 | Verses: 13 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 91 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لَنۡ تَـنۡفَعَكُمۡ اَرۡحَامُكُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُكُمۡ ۛۚ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ۛۚ يَفۡصِلُ بَيۡنَكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏ ﴿3﴾
تمہاری قرابتیں ، رشتہ داریاں اور اولاد تمہیں قیامت کے دن کام نہ آئیں گی اللہ تعالٰی تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا اور جو کچھ تم کر رہے ہو اسے اللہ خوب دیکھ رہا ہے ۔
لن تنفعكم ارحامكم و لا اولادكم يوم القيمة يفصل بينكم و الله بما تعملون بصير
Never will your relatives or your children benefit you; the Day of Resurrection He will judge between you. And Allah , of what you do, is Seeing.
Tumhari qarabaten rishtay dariyan aur aulad tumhen qayamat kay din kaam na aayen gi Allah Taalaa tumharay darmiyan faisla ker dey ga aur jo kuch tum ker rahey ho ussay Allah khoob dekh raha hai.
قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں ہرگز تمہارے کام آئیں گی ، اور نہ تمہاری اولاد ۔ اللہ ہی تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا ، اور تم جو کچھ کرتے ہو ، اللہ اسے پوری طرح دیکھتا ہے ۔
ہرگز کام نہ آئیں گے تمہیں تمہارے رشتے اور نہ تمہاری اولاد ( ف۹ ) قیامت کے دن ، تمہیں ان سے الگ کردے گا ( ف۱۰ ) اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے ،
قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمہاری اولاد 3 ۔ اس روز اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال 4 دے گا ، اور و ہی تمہارے اعمال کا دیکھنے والا ہے 5 ۔
تمہیں قیامت کے دن ہرگز نہ تمہاری ( کافر و مشرک ) قرابتیں فائدہ دیں گی اور نہ تمہاری ( کافر و مشرک ) اولاد ، ( اُس دن اللہ ) تمہارے درمیان مکمل جدائی کر دے گا ( مومن جنت میں اور کافر دوزخ میں بھیج دیئے جائیں گے ) ، اور اللہ اُن کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے جو تم کر رہے ہو
سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :3 یہ اشارہ ہے حضرت حاطب کی طرف انہوں نے اپنی ماں ، اپنے بھائی ، اور اپنی اولاد کو جنگ کے موقع پر دشمنوں کی ایذا سے بچانے کے لیے یہ کام کیا تھا ۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے جن کی خاطر اتنے بڑے قصور کا ارتکاب کر ڈالا وہ قیامت کے روز تمہیں بچانے کے لیے نہیں آئیں گے ۔ کسی کی یہ ہمت نہیں ہو گی کہ خدا کی عدالت میں آگے بڑھ کر یہ کہے کہ ہمارے باپ یا ہمارے بیٹے یا ہمارے بھائی نے ہماری خاطر یہ گناہ کیا تھا اس لیے اس کے بدلے کی سزا ہمیں دے دی جائے ۔ اس وقت ہر ایک کو اپنی ہی پڑی ہو گی ، اپنے اعمال ہی کے خمیازے سے بچنے کا سوال ہر شخص کے لیے بلائے جان بن رہا ہو گا ، کجا کہ کوئی کسی دوسرے کے حصے کا خمیازہ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار ہو ۔ یہی بات ہے جو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر زیادہ صریح الفاظ میں فرمائی گئی ہے ۔ ایک جگہ فرمایا اس روز مجرم یہ چاہے گا کہ اپنی اولاد ، اپنی بیوی ، اپنے بھائی ، اپنی حمایت کرنے والے خاندان اور دنیا بھر کے لوگوں کو بھی اگر فدیے میں دے کر عذاب سے چھوٹ سکتا ہو تو انہیں بھینٹ چڑھا دے اور خود چھوٹ جائے ( المعارج ، آیات 11 ۔ 14 ) ۔ دوسری جگہ فرمایا اس روز آدمی اپنے بھائی ، اپنی ماں ، اپنے باپ ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا ۔ ہر ایک اپنے ہی حال میں ایسا گرفتار ہو گا جس میں اسے کسی کا ہوش نہ ہو گا ( عبس ، 34 ۔ 37 ) ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :4 یعنی دنیا کے تمام رشتے ، تعلقات ، اور رابطے وہاں توڑ دیئے جائیں گے ۔ جتھوں اور پارٹیوں اور خاندانوں کی شکل میں لوگوں کا محاسبہ نہ ہو گا ، بلکہ ایک ایک فرد اپنی ذاتی حیثیت میں پیش ہو گا ، اور ہر ایک کو اپنا ہی حساب دینا پڑے گا ۔ اس لیے دنیا میں کسی شخص کو بھی کسی قرابت یا دوستی یا جتھہ بندی کی خاطر کوئی ناجائز کام نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ اپنے کیے کی سزا اس کو خود ہی بھگتنی ہوگی ، اس کی ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شریک نہ ہوگا ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :5 حضرت حاطب کے اس مقدمہ سے جس کی تفصیل اوپر ہم نے نقل کی ہے ، اور ان آیات سے جو اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، حسب ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں : ( 1 ) قطع نظر اس سے کہ کرنے والے نے کس نیت سے کیا ، بجائے خود یہ فعل صریحاً ایک جاسوسی کا فعل تھا ، اور جاسوسی بھی بڑے نازک موقع پر سخت خطرناک نوعیت کی تھی کہ حملے سے پہلے بے خبر دشمن کو خبردار کیا گیا تھا ۔ پھر معاملہ شبہ کا بھی نہ تھا بلکہ ملزم کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط پکڑ لیا گیا تھا جس کے بعد کسی ثبوت کی حاجت نہ تھی ۔ حالات بھی زمانہ امن کے نہیں ، زمانہ جنگ کے تھے ۔ مگر اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب کو صفائی کا موقع دیے بغیر نظر بند نہیں کر دیا ۔ اور صفائی کا موقع بھی ان کا بند کمرے میں نہیں بلکہ کھلی عدالت میں برسر عام دیا ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ایسے قوانین و قواعد و ضوابط کی کوئی گنجائش نہیں ہے جن کی رو سے کسی حالت میں حکام کو یہ حق پہنچتا ہو کہ کسی شخص کو محض اپنے علم یا شبہ کی بنا پر قید کر دیں ۔ اور بند کمرے میں خفیہ طریقے پر مقدمہ چلانے کا طریقہ بھی اسلام میں نہیں ہے ۔ ( 2 ) حضرت حاطب نہ صرف مہاجرین میں سے تھے بلکہ اہل بدر میں شامل تھے جنہیں صحابہ کے اندر بھی ایک امتیازی مقام حاصل تھا ۔ مگر اس کے باوجود ان سے اتنا بڑا جرم سرزد ہو گیا ، اور اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس شدت کے ساتھ گرفت فرمائی جسے اوپر کی آیات میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ احادیث میں بھی ان کا قصہ پوری تفصیل کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور مفسرین میں سے بھی شاید ہی کوئی ہو جس نے اس کا ذکر نہ کیا ہو ۔ یہ من جملہ ان بہت سے شواہد کے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ بے خطا نہیں تھے ، ان سے بھی بشری کمزوریوں کی بنا پر خطائیں سرزد ہو سکتی تھیں اور عملاً ہوئیں ، اور ان کے احترام کی جو تعلیم اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے کم از کم اس کا تقاضا ہرگز یہ نہیں ہے کہ ان میں سے اگر کوئی غلط کام سرزد ہوا تو اس کا ذکر نہ کیا جائے ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر اس کا تقاضا یہ ہوتا تو نہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ان کا ذکر کرتا اور نہ صحابہ کرام اور تابعین اور محدثین و مفسرین اپنی روایات میں ان کی تفصیلات بیان کرتے ۔ ( 3 ) حضرت حاطب کے مقدمہ میں حضرت عمر نے جس رائے کا اظہار کیا وہ ان کے فعل کی ظاہری صورت کے لحاظ سے تھا ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ فعل ایسا ہے جو صریحاً اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نوعیت رکھتا ہے ، اس لیے حاطب منافق اور واجب القتل ہیں ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس نقطہ نظر کو رد فرما دیا اور اسلامی شریعت کا اصل نقطہ نظر یہ بتایا کہ محض فعل کی ظاہری شکل پر ہی فیصلہ نہیں کر دینا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس شخص سے وہ صادر ہوا ہے اس کی پچھلی زندگی اور مجموعی سیرت کیا شہادت دیتی ہے اور قرائن کس بات پر دلالت کرتے ہیں ۔ فعل کی شکل بلاشبہ جاسوسی کی ہے ۔ مگر کیا اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ فاعل کا آج تک کا رویہ یہی بتا رہا ہے کہ یہ شخص یہ کام اللہ اور رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نیت سے کر سکتا تھا ؟ وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے ایمان کی خاطر ہجرت کی ۔ کیا خلوص کے بغیر وہ اتنی بڑی قربانی کر سکتا تھا ؟ یا اس کے بارے میں یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ اس کے دل میں کفار قریش کی طرف کوئی ادنیٰ سا میلان بھی موجود ہے؟ وہ اپنے فعل کی صاف صاف وجہ یہ بتا رہا ہے کہ مکہ میں اس کے بال بچوں کو خاندان اور قبیلے کا وہ تحفظ حاصل نہیں ہے جو دوسرے مہاجرین کو حاصل ہے ، اس لیے اس نے ان کو جنگ کے موقع پر کفار کی ایذا رسانی سے بچانے کی خاطر یہ کام کیا ہے ۔ حقائق اس کی تائید کرتے ہیں کہ فی الواقع مکہ میں اس کا کوئی قبیلہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ واقعی اس کے بال بچے وہاں موجود ہیں ۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کے اس بیان کو جھوٹا سمجھا جائے اور یہ رائے قائم کی جائے کہ اس کے اس فعل کا اصل محرک یہ نہ تھا بلکہ خیانت ہی کا ارادہ اس کے اندر پایا جاتا تھا ۔ بلاشبہ ایک مخلص مسلمان کے لیے نیک نیتی سے بھی یہ حرکت جائز نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دشمنوں کو مسلمانوں کے جنگی منصوبوں کی خبر بہم پہنچائے ، لیکن مخلص کی غلطی اور منافق کی غداری میں بڑا فرق ہے ۔ محض نوعیت فعل کی بنا پر دونوں کی ایک ہی سزا نہیں ہو سکتی ۔ یہ تھا اس مقدمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ، اور اللہ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ کی ان آیات میں اس کی تائید فرمائی ۔ اوپر کی تینوں آیات کو غور سے پڑھیے تو صاف محسوس ہوگا کہ ان میں حضرت حاطب پر عتاب تو ضرور فرمایا گیا ہے ، مگر یہ عتاب اس طرز کا ہے جو ایک مومن کے لیے ہوتا ہے نہ کہ وہ جو ایک منافق کے لیے ہوا کرتا ہے ۔ مزید برآں ان کے لیے کوئی مالی یا جسمانی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے بلکہ علانیہ سخت زجر و توبیخ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایک خطا کار مومن کی عزت کو بٹّہ لگ جانا اور اس کے اعتماد پر حرف آجانا بھی اس کے لیے ایک بڑی سزا ہے ۔ ( 4 ) ۔ بدری صحابہ کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ تمہیں کیا خبر ، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو ، میں نے تم کو معاف کر دیا ۔ اس کے معنی یہ نہ تھے کہ بدری صحابیوں کو سات خون معاف ہیں ، اور انہیں کھلی چھٹی ہے کہ دنیا میں جو گناہ اور جو جرم بھی کرنا چاہیں کرتے رہیں ، مغفرت کی انکو پیشگی ضمانت حاصل ہے ۔ یہ مطلب نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ، نہ صحابہ نے کبھی اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ، نہ کسی بدری صحابی نے یہ بشارت سن کر اپنے آپ کو ہر گناہ کرنے کے لیے آزاد سمجھا ، اور نہ اسلامی شریعت میں اس کی بنا پر ایسا کوئی قاعدہ بنایا گیا کہ بدری صحابی سے اگر کوئی جرم سرزد ہو تو اسے کوئی سزا نہ دی جائے ۔ دراصل جس موقع و محل میں یہ بات فرمائی گئی تھی اس پر ، اور خود ان الفاظ پر جو آپ نے استعمال فرمائے ہیں ، اگر غور کیا جائے تو اس ارشاد کا صاف مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اہل بدر نے اللہ اور اس کے دین کے لیے اخلاص اور سرفروشی و جانبازی کا اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیے ہوں تو یہ بھی اس خدمت اور اللہ کے کرم کو دیکھتے ہوئے کچھ بعید از امکان نہیں ہے ، لہٰذا ایک بدری پر خیانت اور منافقت کا شبہ نہ کرو ، اور اپنے جرم کا جو سبب وہ خود بیان کر رہا ہے اسے قبول کر لو ۔ ( 5 ) قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کسی مسلمان کا کفار کے لیے جاسوسی کر بیٹھنا بجائے خود اس بات کا فیصلہ کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ مرتد ہو گیا ہے ، یا ایمان سے خارج ہے ، یا منافق ہے ۔ ایسا فیصلہ کرنے کے لیے اگر کچھ دوسرے قرائن و شواہد موجود ہوں تو بات الگ ہے ، ورنہ اپنی جگہ یہ فعل صرف ایک جرم ہے ، کفر نہیں ہے ۔ ( 6 ) ۔ قرآن مجید کی ان آیات سے یہ بات بھی واضح ہے کہ مسلمان کے لیے کفار کی جاسوسی کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے ، خواہ اس کی یا اس کے قریب ترین عزیزوں کی جان و مال کو کیسا ہی خطرہ لاحق ہو ۔ ( 7 ) ۔ حضرت عمر نے جب حضرت حاطب کو جاسوسی کے جرم میں قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو حضور نے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ جرم مستوجب قتل نہیں ہے ، بلکہ اجازت دینے سے انکار اس بنا پر کیا کہ حاطب کا بدری ہونا ان کے مخلص ہونے کا صریح ثبوت ہے اور ان کا یہ بیان صحیح ہے کہ انہوں نے دشمنوں کی خیر خواہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے بال بچوں کو ہلاکت کے خطرے سے بچانے کے لیے یہ کام کیا تھا ۔ اس سے فقہاء کے ایک گروہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ مسلمان جاسوس کے لیے عام قانون یہی ہے کہ اسے قتل کیا جائے الّا یہ کہ بہت وزنی وجوہ اسے کم تر سزا دینے یا محض ملامت کر کے چھوڑ دینے کے لیے موجود ہوں ۔ مگر فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے ۔ امام شافعی اور بعض دوسرے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان جاسوس کو تعزیر دی جائے گی مگر اس کا قتل جائز نہیں ہے ۔ امام ابو حنیفہ اور امام اوزاعی کہتے ہیں کہ اسے جسمانی عقوبت اور طویل قید کی سزا دی جائے گی ۔ امام مالک کہتے ہیں کہ اسے قتل کیا جائے گا ۔ لیکن مالکی فقہاء کے اقوال اس مسئلے میں مختلف ہیں ۔ اَشہَب کہتے ہیں کہ امام کو اس معاملہ میں وسیع اختیارات حاصل ہیں ، جرم اور مجرم کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے اجتہاد سے کوئی سزا دے سکتا ہے ۔ ایک قول امام مالک اور ابن القاسم کا بھی یہی ہے ۔ ابن الماجشون اور عبدالملک بن حبیب کہتے ہیں کہ اگر مجرم نے جاسوسی کی عادت ہی بنا لی ہو تو اسے قتل کیا جائے ۔ ابن وہب کہتے ہیں کہ جاسوس کی سزا تو قتل ہی ہے مگر وہ اس فعل سے تائب ہو جائے تو اسے معاف کیا جا سکتا ہے ۔ سَحنُون کہتے ہیں کہ اس کی توبہ صحیح ہے یا محض فریب ، اس کا علم آخر کیسے ہو سکتا ہے؟ اس لیے اسے قتل ہی کیا جانا چاہیے ۔ ابن القاسم کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے ۔ اور اصبغ کہتے ہیں کہ حربی جاسوس کی سزا قتل ہے ، مگر مسلم اور ذمی جاسوس کو قتل کے بجائے عقوبت دی جائے گی ، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں دشمنوں کی کھلی کھلی مدد کر رہا ہو ۔ ( احکام القرآن ، ابن العربی ۔ عمدۃ القاری ، فتح الباری ) ۔ ( 8 ) حدیث مذکور سے اس امر کا جواز بھی نکلتا ہے کہ تفتیش جرم کے لیے اگر ضرورت پڑے تو ملزم مرد ہی نہیں ، عورت کے کپڑے بھی اتارے جاسکتے ہیں ۔ حضرت علی ، حضرت زبیر اور حضرت مقداد ( رضی اللہ عنہم ) نے اگرچہ اس عورت کو برہنہ نہیں کیا تھا ، لیکن انہوں نے اسے دھمکی دی تھی کہ وہ خط حوالے نہ کرے گی تو وہ اسے برہنہ کر کے اس کی تلاشی لیں گے ۔ ظاہر ہے اگر یہ فعل جائز نہ ہوتا تو یہ تین جلیل القدر صحابی اس کی دھمکی نہیں دے سکتے تھے ۔ اور قیاس یہ کہتا ہے کہ انہوں نے ضرور واپس جاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مہم کی روداد سنائی ہوگی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہوتا تو وہ ضرور منقول ہوتا ۔ اسی لیے فقہاء نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے ( عمدۃ القاری ) ۔