Surah

Information

Surah # 60 | Verses: 13 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 91 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَةً لِّلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَاغۡفِرۡ لَـنَا رَبَّنَا‌ ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿5﴾
اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال اور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں کو بخش دے ، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے ۔
ربنا لا تجعلنا فتنة للذين كفروا و اغفر لنا ربنا انك انت العزيز الحكيم
Our Lord, make us not [objects of] torment for the disbelievers and forgive us, our Lord. Indeed, it is You who is the Exalted in Might, the Wise."
Aey humaray rab! Tu humen kafiron ki aazmaeesh mein na daal aur aey humaray paalney walay humari khataon ko bakhsh dey be-shak tu hi ghalib hikmat wala hai.
اے ہمارے پروردگار ! ہمیں کافروں کا تختہ مشق نہ بناییے اور ہمارے پروردگار ! ہماری مغفرت فرما دیجیے ۔ یقینا آپ ، اور صرف آپ کی ذات وہ ہے جس اقتدار بھی کامل ہے ، جس کی حکمت بھی کامل ۔
اے ہمارے رب ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال ( ف۱۸ ) اور ہمیں بخش دے ، اے ہمارے رب بیشک تو ہی عزت و حکمت والا ہے ،
اے ہمارے رب ، ہمیں کافروں کے لیئے فتنہ نہ بنا دے 8 ۔ اور اے ہمارے رب ، قصوروں سے درگزر فرما ، بے شک تو ہی زبردست اور دانا ہے ”
اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کے لئے سببِ آزمائش نہ بنا ( یعنی انہیں ہم پر مسلّط نہ کر ) اور ہمیں بخش دے ، اے ہمارے پروردگار! بیشک تو ہی غلبہ و عزت والا بڑی حکمت والا ہے
سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :8 کافروں کے لیے اہل ایمان کے فتنہ بننے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں جن سے ہر مومن کو خدا کی پناہ مانگنی چاہیے ۔ مثال کے طور پر اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کافر ان پر غالب آ جائیں اور اپنے غلبہ کو اس بات کی دلیل قرار دیں کہ ہم حق پر ہیں اور اہل ایمان برسر باطل ، ورنہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ان لوگوں کو خدا کی رضا حاصل ہوتی اور پھر بھی ہمیں ان پر غلبہ حاصل ہوتا ۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اہل ایمان پر کافروں کا ظلم و ستم ان کی حد برداشت سے بڑھ جائے اور آخر کار وہ ان سے دب کر اپنے دین و اخلاق کا سودا کرنے پر اتر آئیں ۔ یہ چیز دنیا بھر میں مومنوں کی جگ ہنسائی کی موجب ہوگی اور کافروں کو اس سے دین اور اہل دین کی تذلیل کا موقع ملے گا ۔ تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دین حق کی نمائندگی کے مقام بلند پر فائز ہونے کے باوجود اہل ایمان اس اخلاقی فضیلت سے محروم رہیں جو اس مقام کے شایان شان ہے ، اور دنیا کو ان کی سیرت و کردار میں بھی وہی عیوب نظر آئیں جو جاہلیت کے معاشرے میں عام طور پر پھیلے ہوئے ہوں ۔ اس سے کافروں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ اس دین میں آخر وہ کیا خوبی ہے جو اسے ہمارے کفر پر شرف عطا کرتی ہو؟ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 83 ) ۔