Surah

Information

Surah # 61 | Verses: 14 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 109 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة الصَّف نام : چوتھی آیت کے فقرے یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہ صَفّاً سے ماخوذ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورۃ ہے جس میں لفظ صف آیا ہے ۔ زمانہ نزول : کسی معتبر روایت سے اس کا زمانہ نزول معلوم نہیں ہو سکا ۔ لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ غالباً جنگ احد کے متصل زمانے میں نازل ہوئی ہو گی ، کیونکہ اس کے بین السطور میں جن حالات کی طرف اشارہ محسوس ہوتا ہے وہ اسی دور میں پائے جاتے تھے ۔ موضوع اور مضمون : اس کا موضوع ہے مسلمانوں ایمان میں اخلاص اختیار کرنے اور اللہ کی راہ میں جان لڑانے پر ابھارنا ۔ اس میں ضعیف الایمان مسلمانوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے ، اور ان لوگوں کو بھی جو ایمان کا جھوٹا دعویٰ کر کے اسلام میں داخل ہو گئے تھے ، اور ان کو بھی جو مخلص تھے ۔ بعض آیات کا خطاب پہلے دونوں گروہوں سے ہے ، بعض میں صرف منافقین مخاطب ہیں ، اور بعض کا روئے سخن صرف مخلصین کی طرف ہے ۔ انداز کلام سے خود معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں کون مخاطب ہے ۔ آغاز میں تمام ایمان لانے والوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں وہ لوگ جو کہیں کچھ اور کریں کچھ ، اور نہایت محبوب ہیں وہ لوگ جو راہ حق میں لڑنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہوں ۔ پھر آیت 5 سے 7 تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے رسول اور اپنے دین کے ساتھ تمہاری روش وہ نہ ہونی چاہیے جو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بنی اسرائیل نے اختیار کی ۔ حضرت موسیٰ کو وہ خدا کا رسول جاننے کے باوجود جیتے جی تنگ کرتے رہے ، اور حضرت عیسیٰ سے کھلی کھلی نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود وہ ان کو جھٹلانے سے باز نہ آئے ۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس قوم کے مزاج کا سانچہ ہی ٹیڑھا ہو کر رہ گیا اور اس سے ہدایت کی توفیق سلب ہو گئے ۔ یہ کوئی ایسی قابل رشک حالت نہیں ہے کہ کوئی دوسری قوم اس میں مبتلا ہونے کی تمنا کرے ۔ پھر آیت 8 ۔ 9 میں پوری تحدی کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ یہود و نصاریٰ اور ان سے ساز باز رکھنے والے منافقین اللہ کے اس نور کو بجھانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کرلیں ، یہ پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا میں پھیل کر رہے گا اور مشرکین کو خواہ کتنا ہی ناگوار ہو ، رسول برحق کا لایا ہوا دین ہر دوسرے دین پر غالب آ کر رہے گا ۔ اس کے بعد آیات 10 سے 13 میں اہل ایمان کو بتایا گیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ صرف ایک ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر سچے دل سے ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرو ۔ آخرت میں اس کا ثمرہ خدا کے عذاب سے نجات ، گناہوں کی مغفرت ، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت کا حصول ہے ، اور دنیا میں اس کا انعام خدا کی تائید و نصرت اور فتح و ظفر ہے ۔ آخر میں اہل ایمان کو تلقین کی گئی ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے اللہ کی راہ میں ان کا ساتھ دیا تھا اس طرح وہ بھی انصار اللہ بنیں تاکہ کافروں کے مقابلہ میں ان کو بھی اسی طرح اللہ کی تائیش حاصل ہو جس طرح پہلے ایمان لانے والوں کو حاصل ہوئی تھی ۔
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صحابہ ایک دن بیٹھے بیٹھے آپس میں یہ تذکرے کر رہے تھے کہ کوئی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کرے کہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے؟ مگر ابھی کوئی کھڑا بھی نہ ہوا تھا کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد پہنچا اور ہم میں سے ایک ایک کو بلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا جب ہم سب جمع ہوگئے تو آپ نے اس پوری سورت کی تلاوت کی ( مسند احمد ) اس میں ذکر ہے کہ جہاد سب سے زیادہ محبوب الٰہی ہے ۔ ابن ابی حاتم کی اس حدیث میں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے ڈرے اور اس میں یہ بھی ہے کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری سورت پڑھ کر سنائی تھی اسی طرح اس روایت بیان کرنے والے صحابی نے تابعی کو پڑھ کر سنائی اور تابعی نے اپنے شاگرد کو اور اس نے اپنے شاگرد کو اسی طرح آخر تک اور روایت میں ہے کہ ہم نے کہا تھا اگر ہمیں ایسے عمل کی خبر ہو جائے تو ہم ضرور اس پر عامل ہو جائیں ، مجھ سے میرے استاد شیخ مسند ابو العباس احمد بن ابو طالب حجار نے بھی اپنی سند سے یہ حدیث بیان کی ہے اور اس میں بھی مسلسل ہر استاد کا اپنے شاگرد کو یہ سورت پڑھ کر سنانا مروی ہے یہاں تک کہ میرے استاد نے بھی اپنے استاد سے اسے سنا ہے لیکن چونکہ وہ خود امی تھے اور اسے یاد کرنے کا انہیں وقت نہیں ملا انہوں نے مجھے پڑھ کر نہیں سنائی ، لیکن الحمد اللہ میرے دوسرے استاد حافظ کبیر ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان نے اپنی سند سے یہ حدیث مجھے پڑھاتے وقت یہ سورت بھی پوری پڑھ کر سنائی ہے ۔