Surah

Information

Surah # 61 | Verses: 14 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 109 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ۚ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿1﴾
زمین و آسمان کی ہر ہرچیز اللہ تعالٰی کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے ۔
سبح لله ما في السموت و ما في الارض و هو العزيز الحكيم
Whatever is in the heavens and whatever is on the earth exalts Allah , and He is the Exalted in Might, the Wise.
Zamin-o-aasman ki her her cheez Allah Taalaa ki paki biyan kerti hai aur wohi ghalib hikmat wala hai.
آسمانوں اور زمین میں جو بھی کوئی چیز ہے ، اس نے اللہ کی تسبیح کی ہے اور وہی ہے جو اقتدار کا بھی مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک ۔ ( ١ )
اللہ کی پاکی بولتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، اور وہی عزت و حکمت والا ہے ،
اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے ، اور وہ غالب اور حکیم ہے 1 ۔
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ( سب ) اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ، اور وہ بڑی عزت و غلبہ والا بڑی حکمت والا ہے
سورة الصَّف حاشیہ نمبر :1 یہ اس خطبہ کی مختصر تمہید ہے ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورۂ الحدید ، حاشیہ ۱ ۔ ۲ کلام کا آغاز اس تمہید سے اس لیے کیا گیا ہے کہ آگے جو کچھ فرمایا جانے والا ہے اس کو سننے یا پڑھنے سے پہلے آدمی یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور اس سے بالاتر ہے کہ اس کی خدائی کا چلنا کسی کے ایمان اور کسی کی مدد اور قربانیوں پر موقوف ہو ۔ وہ اگر ایمان لانے والوں کو ایمان میں خلوص اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ صداقت کا بول بالا کرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کرو ، تو یہ سب کچھ ان کے اپنے ہی بھلے کے لیے ہے ۔ ورنہ اس کے ارادے اس کے اپنے ہی زور اور اس کی اپنی ہی تدبیر سے پورے ہو کر رہتے ہیں ، خواہ کوئی بندہ ان کی تکمیل میں ذرہ برابر بھی سعی نہ کرے ، بلکہ ساری دنیا مل کر ان کی مزاحمت پر تل جائے ۔
ایفائے عہد ایمان کی علامت ہے اور صف اتحاد کی علامت پہلی آیت کی تفسیر کئی بار گذر چکی ہے اب پھر اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پھر ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جو کہیں اور نہ کریں ، وعدہ کریں اور وفا نہ کریں ، بعض علمائ ، سلف نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا مطلقاً واجب ہے جس سے وعدہ کیا ہے خواہ وہ تاکید کرے یا نہ کرے ، ان کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین عادتیں ہوتی ہیں ( 1 ) جب وعدہ کرے خلاف کرے ( 2 ) جب بات کرے جھوٹ بولے ( 3 ) جب امانت دیا جائے خیانت کے ، دوسری صحیح حدیث میں ہے چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار میں سے ایک ہو اس میں ایک خصلت نفاق کی ہے جب تک اسے نہ چھوڑے ۔ ان میں ایک عادت وعدہ خلافی کی ہے ، شرح صحیح بخاری کی ابتدا میں ہم نے ان دونوں احادیث کی پوری شرح کر دی ہے ۔ فالحمد اللہ ۔ اسی لئے یہاں بھی اس کی تاکید میں فرمایا گیا اللہ تعلیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو ، مسند احمد اور ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا کھیل کود کے لئے جانے لگا تو میری والدہ نے مجھے آواز دے کر کہا ادھر آ کچھ دوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ دینا بھی چاہتی ہو؟ میری والدہ نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں دوں گی آپ نے فرمایا پھر تو خیر ورنہ یاد رکھو کچھ نہ دینے کا ارادہ ہوتا اور یوں کہتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا ، حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وعدے کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کی تاکید کا تعلق ہو تو اس وعدے کو فوا کرنا واجب ہو جاتا ہے ، مثلاً کسی شخص نے کسی سے کہہ دیا کہ تو نکاح کر لے اور اتنا اتنا ہر روز میں تجھے دیتا رہوں گا اس نے نکاح کر لیا تو جب نکاح باقی ہے اس شخص پر واجب ہے کہ اسے اپنے وعدے کے مطابق دیتا رہے اس لئے کہ اس میں آدمی کے حق کا تعلق ثابت ہو گیا جس پر اس سے باز پرس سختی کے ساتھ ہو سکتی ہے ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ایفاء عہد مطلق واجب ہی نہیں ، اس آیت کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ جب لوگوں نے جہاد کی فرضیت کی خواہش کی اور فرض ہو گیا تو اب بعض لوگ دیکھنے لگے جس پر یہ آیت اتری ، جیسے اور جگہ ہے ۔ الخ یعنی کیا تو نے انہیں نہ دیکھا جن سے کہا گیا تم اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز و زکوٰۃ کا خیال رکھو ، پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں ایسے لوگ بھی نکل آئے جو لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ کہنے لگے پروردگار تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا ؟ کیوں ہمیں ایک وقت مقرر تک اس حکم کو موخر نہ کیا جو قریب ہی تو ہے ۔ تو کہہ دے کہ اسباب دنیا تو بہت ہی کم ہیں ہاں پرہیز گاروں کے لئے آخرت بہترین چیز ہے ۔ تم پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا تم کہیں بھی ہو تمہیں موت ڈھونڈ نکالے گی گو تم مضبوط محلوں میں ہو ، اور جگہ ہے الخ ، یعنی مسلمان کہتے ہیں کیوں کوئی سورت نہیں اتاری جاتی؟ پھر جب کوئی محکمہ سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر ہوتا ہے تو دیکھے گا کہ بیمار دل والے تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے وہ دیکھتا ہے جس پر موت کی بیہوشی ہو ، اسی طرح کی یہ آیت بھی ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بعض مومنوں نے جہاد کی فرضیت سے پہلے کا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اللہ تعالیٰ ہمیں وہ عمل بتاتا جو اسے سب سے زیادہ پسند ہوتا تاکہ ہم اس پر عامل ہوتے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی کہ سب سے زیادہ پسندیدہ عمل میرے نزدیک ایمان ہے جو شک شبہ سے پاک ہو اور بے ایمانوں سے جہاد کرنا ہے تو بعض مسلمانوں پر یہ گراں گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ وہ باتیں زبان سے کیوں نکالتے ہو جنہیں کرتے نہیں ، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں ، حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں کہ مسلمانوں نے کہا اگر ہمیں معلوم ہو جاتا کہ کس عمل کو اللہ تعالیٰ بہت پسند فرماتا ہے تو ہم ضرور وہ عمل بجا لاتے اس پر اللہ عزوجل نے وہ عمل بتایا کہ میری راہ میں صفں باندھ کر مضبوطی کے ساتھ جم کر جہاد کرنے والوں کو میں بہت پسند فرماتا ہوں پھر احد والے دن ان کی آزمائش ہو گئی اور لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے جس پر یہ فرمان الیشان اترا کہ کیوں وہ کہتے ہو جو کہ نہیں دکھاتے؟ بعض حضرات فرماتے ہیں یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہیں ہم نے جہاد کیا اور حالانکہ جہاد نہ کیا ہو منہ سے کہیں کہ ہم زخمی ہوئے اور زخمی نہ ہوئے ہوں کہیں کہ ہم پر مار پڑی اور مار نہ پڑی ہو منہ سے کہیں کہ ہم قید کئے گئے اور قید نہ کئے گئے ہوں ، ابن زید فرماتے ہیں اس سے مراد منافق ہیں کہ مسلمانوں کی مدد کا وعدہ کرتے لیکن وقت پر پورا نہ کرتے ، زید بن اسلم جہاد مراد لیتے ہیں ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں ان کہنے والوں میں حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جب آیت اتری اور معلوم ہوا کہ جہاد سب سے زیادہ عمدہ عمل ہے تو آپ نے عہد کر لیا کہ میں تو اب سے لے کر مرتے دم تک اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو وقف کر چکا چنانچہ اسی پر قائم بھی رہے یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہید ہوگئے ، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بصرہ کے قاریوں کو ایک مرتبہ بلوایا تو تین سو قاری ان کے پاس آئے جن میں سے ہر ایک قاری قرآن تھا ۔ پھر فرمایا تم اہل بصرہ کے قاری اور ان میں سے بہترین لوگ ہو سنو ہم ایک سورت پڑھتے تھے جو مسبحات کی سورتوں کے مشابہ تھی پھر ہم اسے بھلا دیئے گئے ہاں مجھے اس میں سے اتنا یاد رہ گیا ۔ ( آیت ) یعنی اے ایمان والو وہ کیوں کہو جو نہ کرو پھر وہ لکھا جائے اور تمہاری گردونوں میں بطور گواہ کے لٹکا دیا جائے پھر قیامت کے دن اس کی بابت باز پرس ہو ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے محبوب وہ لوگ ہیں جو صفیں باندھ کر دشمنان اللہ کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں تاکہ اللہ کا بول بالا ہو اسلام کی حفاظت ہو اور دین کا غلبہ ہو ، مسند میں ہے تین قسم کے لوگوں کی تین حالتیں ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور ہنس دیتا ہے رات کو اٹھ کر تہجد پڑھنے والے نماز کے لئے صفیں باندھنے والے ، میدان جنگ میں صف بندی کرنے والے ، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت مطرف فرماتے ہیں مجھے یہ روایت حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک حدیث پہنچی تھی میرے جی میں تھا کہ خود حضرت ابو ذر سے مل کر یہ حدیث آمنے سامنے سن لوں چنانچہ ایک مرتبہ جا کر آپ سے ملاقات کی اور واقعہ بیان کیا آپ نے خوشنودی کا اظہار فرما کر کہا وہ حدیث کیا ہے؟ میں نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ تین شخصوں کو دشمن جانتا ہے اور تین کو دوست رکھتا ہے فرمایا ہاں میں نے اپنے خلیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بول سکتا فی الواقع آپ نے ہم سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے ، میں نے پوچھا وہ تین کون ہیں؟ جنہیں اللہ تعالیٰ محبوب جانتا ہے فرمایا ایک تو وہ جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے خالص خوشنودی اللہ کی نیت سے نکلے دشمن سے جب مقابلہ ہو تو دلیرانہ جہاد کرے تم اس کی تصدیق خود کتاب اللہ میں بھی دیکھ سکتے ہو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور پھر پوری حدیث بیان کی ، ابن ابی حاتم میں یہ حدیث اسی طرح ان ہی الفاظ میں اتنی ہی آئی ہے ہاں ترمذی اور نسائی میں پوری حدیث ہے اور ہم نے بھی اسے دوسری جگہ مکمل وارد کیا ہے ، فالحمد اللہ ۔ حضرت کعب احبار سے ابن ابی حاتم میں منقول ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے آپ میرے بندے متوکل اور پسندیدہ ہیں بدخلق بد زبان بازاروں میں شور و غل کرنے والے نہیں برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ درگذر کر کے معاف کر دیتے ہیں ۔ آپ کی جائے پیدائش مکہ ہے ، جائے ہجرت طابہ ہے ، ملک آپ کا شام ہے ، امت آپ کی بکثرت حمد اللہ کرنے والی ہے ، ہر حال میں اور ہر منزل میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے رہتے ہیں ۔ صبح کے وقت ذکر اللہ میں ان کی پست آوازیں برابر سنائی دیتی ہیں جیسے شہد کی مکھیوں کی بھن بھناہٹ اپنے ناخن اور مچھیں کترتے ہیں اور اپنے تہمد اپنی آدھی پنڈلیوں تک باندھتے ہیں ان کی صفیں میدان جہاد میں ایسی ہوتی ہیں جیسی نماز میں ، پھر حضرت کعب نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا سورج کی نگہبانی کرنے والے جہاں وقت نماز آ جائے نماز ادا کر لینے والے گو سواری پر ہوں ، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ بنوا لیتے دشمن سے لڑائی شروع نہیں کرتے تھے ، پس صف بندی کی تعلیم مسلمانوں کو اللہ کی دی ہوئی ہے ایک دوسرے سے ملے کھڑے رہیں ، ثابت قدم رہیں اور ٹلیں نہیں تم نہیں دیکھتے کہ عمارت کا بنانے والا نہیں چاہتا کہ اس کی عمارت میں کہیں اونچ نیچ ہو ٹیڑھی ترچھی ہو یا سوراخ رہ جائیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے امر میں اختلاف ہو میدان جنگ میں اور بوقت نماز مسلمانوں کی صف بندی خود اس نے کی ہے پس تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو جو احکام بجا لائے گا یہ اس کے لئے عصمت اور بچاؤ ثابت ہے ۔ ابو بحریہ فرماتے ہیں مسلمان گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑنا پسند نہیں کرتے تھے انہیں تو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ زمین پر پیدل صفیں بنا کر آمنے سامنے کا مقابلہ کریں ، آپ فرماتے ہیں جب تم مجھے دیکھو کہ میں نے صف میں سے ادھر ادھر توجہ کی تو تم جو چاہو ملامت کرنا اور برا بھلا کہنا ۔