Surah

Information

Surah # 64 | Verses: 18 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 108 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
زَعَمَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنۡ لَّنۡ يُّبۡـعَـثُـوۡا‌ ؕ قُلۡ بَلٰى وَرَبِّىۡ لَـتُبۡـعَـثُـنَّ ثُمَّ لَـتُنَـبَّـؤُنَّ بِمَا عَمِلۡـتُمۡ‌ؕ وَذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌ‏ ﴿7﴾
ان کافروں نے خیال کیا ہے کہ دوبارہ زندہ نہ کئے جائیں گے آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں اللہ کی قسم! تم ضرور دوبارہ اٹھائے جاؤ گے پھر جو تم نے کیا ہےاس کی خبر دیئے جاؤ گے اور اللہ پر یہ بالکل ہی آسان ہے ۔
زعم الذين كفروا ان لن يبعثوا قل بلى و ربي لتبعثن ثم لتنبؤن بما عملتم و ذلك على الله يسير
Those who disbelieve have claimed that they will never be resurrected. Say, "Yes, by my Lord, you will surely be resurrected; then you will surely be informed of what you did. And that, for Allah , is easy."
Inn kafiron ney khayal kiya hai kay doobara zinda na kiye jayen gay aap key dijiye kay kiyon nahi Allah ki qasam! Tum zaroor doobara uthaye jao gay phir jo tum ney kiya hai uss ki khabar diye jaogay aur Allah per yeh bilkul aasan hai.
جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ، وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہیں کبھی دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا ۔ کہہ دو : کیوں نہیں؟ میرے پروردگار کی قسم ! تمہیں ضرور زندہ کیا جائے گا ، پھر تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے کیا کچھ کیا تھا ، اور یہ اللہ کے لیے معمولی سی بات ہے ۔
کافروں نے بکا کہ وہ ہرگز نہ اٹھائے جائیں گے ، تم فرماؤ کیوں نہیں میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر تمہارے کوتک تمہیں جتا دیے جائیں گے ، اور یہ اللہ کو آسان ہے ،
منکرین نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے 14 ۔ ان سے کہو نہیں ، میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے 15 ، پھر ضرور تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے ( دنیا میں ) کیا کچھ کیا ہے 16 ، اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے 17
کافر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہ اٹھائے جائیں گے ۔ فرما دیجئے: کیوں نہیں ، میرے رب کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر تمہیں بتا دیا جائے گا جو کچھ تم نے کیا تھا ، اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے
سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :14 یعنی ہر زمانے میں منکرین حق دوسری جس بنیادی گمراہی میں مبتلا رہے ہیں ، اور جو بالآخر ان کی تباہی کی موجب ہوئی ، وہ یہ تھی ۔ اگرچہ کسی منکر آخرت کے پاس نہ پہلے یہ جاننے کا کوئی ذریعہ تھا ، نہ آج ہے ، نہ کبھی ہو سکتا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے ۔ لیکن ان نادانوں نے ہمیشہ بڑے زور کے ساتھ یہی دعویٰ کیا ہے ، حالانکہ قطعیت کے ساتھ آخرت کا انکار کر دینے کے لیے نہ کوئی عقلی بنیاد موجود ہے نہ علمی بنیاد ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :15 یہ تیسرا مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ اپنے رب کی قسم کھا کر لوگوں سے کہو کہ ضرور ایسا ہو کر رہے گا ۔ پہلے سورہ یونس میں فرمایا : وَیَسْتَنْبِئُوْ نَکَ اَحَقٌّ ھُوَ ، قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہ لَحَقٌّ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ۔ وہ پوچھتے ہیں کیا واقعی یہ حق ہے ؟ کہو ، میرے رب کی قسم یہ یقیناً حق ہے اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہور میں آنے سے روک دو ( آیت 53 ) ۔ پھر سورہ سبا میں فرمایا : وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَأتِیْنَا السَّاعَۃُ ، قُلْ بَلیٰ وَرَبِّی لَتَأتِیَنَّکُمْ ۔ منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے ! کہو ، قسم ہے میرے رب کی وہ تم پر آ کر رہے گی ( آیت 30 ) ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک منکر آخرت کے لیے آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ اسے آخرت کے آنے کی خبر قسم کھا کر دیں یا قسم کھائے بغیر دیں ؟ وہ جب اس چیز کو نہیں مانتا تو محض اس بنا پر کیسے مان لے گا کہ آپ قسم کھا کر اس سے یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مخاطب وہ لوگ تھے جو اپنے ذاتی علم اور تجربے کی بنا پر یہ بات خوب جانتے تھے کہ یہ شخص کبھی عمر بھر جھوٹ نہیں بولا ہے ، اس لیے چاہے زبان سے وہ آپ کے خلاف کیسے ہی بہتان گھڑتے رہے ہوں ، اپنے دلوں میں وہ یہ تصور تک نہ کر سکتے تھے کہ ایسا سچا انسان کبھی خدا کی قسم کھا کر وہ بات کہہ سکتا ہے جس کے بر حق ہونے کا اسے کامل یقین نہ ہو ۔ دوسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محض آخرت کا عقیدہ ہی بیان نہیں کرتے تھے ، بلکہ اس کے لیے نہایت معقول دلائل بھی پیش فرماتے تھے ۔ مگر جو چیز نبی اور غیر نبی کے درمیان فرق کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک غیر نبی آخرت کے حق میں جو مضبوط سے مضبوط دلائل دے سکتا ہے ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ نس یہی ہو سکتا ہے کہ آخرت کے نہ ہونے کی بہ نسبت اس کا ہونا معقول تر اور اغلب تسلیم کر لیا جائے ۔ اس کے برعکس نبی کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالا تر ہے ۔ اس کی اصل حیثیت یہ نہیں ہے کہ عقلی استدلال سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ آخرت ہونی چاہیے ۔ بلکہ اس کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ آخرت ہو گی اور یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ وہ ضرور ہو کر رہے گی ۔ اس لیے ایک نبی ہی قسم کھا کر یہ بات کہہ سکتا ہے ، ایک فلسفی اس پر قسم نہیں کھا سکتا ۔ اور آخرت پر ایمان ایک نبی کے بیان ہی سے پیدا ہو سکتا ہے ، فلوسفی کا استدلال اپنے اندر یہ وقت نہیں رکھتا کہ دوسرا شخص تو در کنار ، فلسفی خود بھی اپنی دلیل کی بنا پر اپنا ایمانی عقیدہ بنا سکے ۔ فلسفی اگر واقعی صحیح الفکر فلسفی ہو تو وہ ہونا چاہیے سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ ہے اور یقیناً ہے کہنا صرف ایک بی کا کام ہے ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :16 یہ وہ مقصد ہے جس کے لیے بنی آدم کو مرنے کے بعد دو بارہ اٹھایا جائے گا ، اور اسی میں اس سوال کا جواب بھی ہے کہ ایسا کرنے کی آخر ضرورت کیا ہے ۔ اگر وہ بحث آدمی کی نگاہ میں ہو جو سورۃ کے آغاز سے آیت نمبر 4 تک کی گئی ہے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس بر حق کائنات میں جس مخلوق کو کفر و ایمان میں سے کسی ایک راہ کے اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہو ، اور جسے اس کائنات میں بہت سی چیزوں پر تصرف کا اقتدار بھی عطا کیا گیا ہو ، اور جس نے کفر یا ایمان کی راہ اختیار کر رکے عمر بھر اپنے اس اقتدار کو صحیح یا غلط طریقے سے استعمال کر کے بہت سی بھلائیاں یا بہت سی برائیاں خود اپنی ذمہ داری پر کی ہوں ، اس کے بارے میں یہ تصور کرنا انتہائی غیر معقول ہے کہ یہ سب کچھ جب وہ کر چکے تو آخر کار بھلے کی بھلائی اور برے کی برائی ، دونوں بے نتیجہ رہی اور سرے سے کوئی وقت ایسا آئے ہی نہیں جب اس مخلوق کے اعمال کی جانچ پڑتال ہو ۔ جو شخص ایسی غیر معقول بات کہتا ہے وہ لا محالہ دو حماقتوں میں سے ایک حماقت کا ارتکاب کرتا ہے ۔ یا تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ کائنات ہے تو مبنی بر حکمت ، مگر یہاں انسان جیسی با اختیار مخلوق کو غیر ذمہ دار بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ یا پھر وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک الل ٹپ بنی ہوئی کائنات ہے جسے بنانے میں سرے سے کسی حکیم کی حکمت کار فرما نہیں ہے ۔ پہلی صورت میں وہ ایک متناقض بات کہتا ہے کیونکہ مبنی بر حکمت کائنات میں ایک با اختیار مخلوق کا غیر ذمہ دار ہونا صریحاً خلاف عدل و حکمت ہے ۔ اور دوسری صورت میں وہ اس بات کی کوئی معقول توجیہ نہیں کر سکتا کہ ایک الل ٹپ بنی ہوئی نے حکمت کائنات میں انسان جیسی ذی عقل مخلوق کا وجود میں آنا آخر ممکن کیسے ہوا اور اس کے ذہن میں عدل و انصاف کا تصور کہاں سے آگیا ؟ بے عقلی کی عقل کی پیدائش اور بے عدلی سے عدل کا تصور برآمد ہو جانا ایک ایسی بات ہے جس کا قائل یا تو ایک ہٹ دھرم آدمی ہو سکتا ہے ، یا پھر وہ جو بہت زیادہ فلسفہ بگھارتے بگھارتے دماغی مریض ہو چکا ہو ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :17 یہ آخرت کی دوسری دلیل ہے ۔ پہلی دلیل آخرت کے ضروری ہونے کی تھی ، اور یہ دلیل اس کے ممکن ہونے کی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس خدا کے لیے کائنات کا اتنا بڑا نظام بنا دینا دشوار نہ تھا اور جس کے لیے اس دنیا میں انسانوں کو پیدا کرنا دشوار نہیں ہے ، اس کے لیے یہ بات آخر کیوں دشوار ہو گی کہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کر کے اپنے سامنے حاضر کرے اور ان کا حساب لے ۔
منکرین قیامت مشرکین و ملحدین اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار مشرکین ملحدین کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد نہیں اٹھیں گے ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ ہاں اٹھو گے پھر تمہارے تمام چھوٹے بڑے چھپے کھلے اعمال کا اظہار تم پر کیا جائے گا ، سنو تمہارا دوبارہ پیدا کرنا تمہیں بدلے دینا وغیرہ تمام کام اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہیں ، یہ تیسری آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم کھا کر قیامت کی حقانیت کے بیان کرنے کو فرمایا ہے ، پہلی آیت تو سورہ یونس میں ہے ( ترجمہ ) یعنی یہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ حق ہے؟ تو کہہ میرے رب کی قسم وہ حق ہے اور تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے ، دوسری آیت سورہ سبا میں ہے ۔ ( ترجمہ ) کافر کہتے ہیں ہم پر قیامت نہ آئے گی تو کہہ دے کہ ہاں میرے رب کی قسم یقینا اور بالضرور آئے گی ، اور تیسری آیت یہی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ پر ، رسول اللہ پر ، نور منزل یعنی قرآن کریم پر ایمان لاؤ تمہارا کوئی خفیہ عمل بھی اللہ تعالیٰ پر پوشیدہ نہیں ۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تم سب کو جمع کرے گا اور اسی لئے اس کا نام یوم الجمع ہے ، جیسے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) یہ لوگوں کے جمع کئے جانے اور ان کے حاضر باش ہونے کا دن ہے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) یہ لوگوں کے جمع کئے جانے اور ان کے حاضر باش ہونے کا دن ہے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) یعنی قیامت والے دن تمام اولین اور آخرین جمع کئے جائیں کے ، ابن عباس فرماتے ہیں یوم التغابن قیامت کا ایک نام ہے ، اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اہل جنت اہل دوزخ کو نقصان میں ڈالیں گے حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس سے زیادہ تغابن کیا ہو گا کہ ان کے سامنے انہیں جنت میں اور ان کے سامنے انہیں جہنم میں لے جائیں گے ۔ گویا اسی کی تفسیر اس کے بعد والی آیت میں ہے کہ ایماندار ، نیک اعمال والوں کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور بہتی نہروں والی ہمیشہ رہنے والی جنت میں انہیں داخل کیا جائے گا اور پوری کامیابی کو پہنچ جائے گا اور کفر و تکذیب کرنے والے جہنم کی آگ میں جائیں گے جہاں ہمیشہ جلنے کا عذاب پاتے رہیں گے بھلا اس سے برا ٹھکانا اور کیا ہو سکتا ہے؟