Surah

Information

Surah # 64 | Verses: 18 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 108 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
‌يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِكُمۡ وَاَوۡلَادِكُمۡ عَدُوًّا لَّكُمۡ فَاحۡذَرُوۡهُمۡ‌ۚ وَاِنۡ تَعۡفُوۡا وَتَصۡفَحُوۡا وَتَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿14﴾
اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں پس ان سے ہوشیار رہنا اور اگر تم معاف کردو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔
يايها الذين امنوا ان من ازواجكم و اولادكم عدوا لكم فاحذروهم و ان تعفوا و تصفحوا و تغفروا فان الله غفور رحيم
O you who have believed, indeed, among your wives and your children are enemies to you, so beware of them. But if you pardon and overlook and forgive - then indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
Aey eman walo! Tumhari baaz biwiyan aur baaz bachay tumharay dushman hain pus inn say hoshiyaar rehna aur agar tum moaf kerdo aur dar-guzar ker jao aur bakhsh do to Allah Taalaa baskshney wala meharban hai.
اے ایمان والو ! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں ، اس لیے ان سے ہوشیار رہو ۔ اور اگر تم معاف کردو اور درگذر کرو ، اور بخش دو تو اللہ بہت بخشنے والا ، بہت مہربان ہے ۔ ( ٣ )
اے ایمان والو تمہاری کچھ بی بیاں اور بچے تمہارے دشمن ہیں ( ف۲۲ ) تو ان سے احتیاط رکھو ( ف۲۳ ) اور اگر معاف کرو اور درگزرو اور بخش دو تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ، ان سے ہوشیار رہو ۔ اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے 29 ۔
اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس اُن سے ہوشیار رہو ۔ اور اگر تم صرفِ نظر کر لو اور درگزر کرو اور معاف کر دو تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :29 اس آیت کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک مفہوم کے لحاظ سے اس کا اطلاق ان بہت سی مشکلات پر ہوتا ہے جو خدا کی راہ پر چلنے میں بکثرت اہل ایمان مردوں کو اپنی بیویوں سے اور عورتوں کو اپنے شوہروں سے اور والدین کو اپنی اولاد سے پیش آتی ہیں ۔ دنیا میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مرد کو ایسی بیوی اور ایک عورت کو ایسا شوہر ملے جو ایمان اور راست روی میں پوری طرح ایک دوسرے کے رفیق و مدد گار ہوں ، اور پھر دونوں کو اولاد بھی ایسی میسر ہو جو عقیدہ و عمل اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنے ۔ ورنہ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ شوہر اگر نیک اور ایماندار ہے تو بیوی اور اولاد اسے ایسی ملتی ہے جو اس کی دیانت و امانت اور راست بازی کو اپنے حق میں بد قسمتی سمجھتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ شوہر اور باپ ان کی خاطر جہنم مول لے اور ان کے لیے حرام و حلال کی تمیز چھوڑ کر ہر طریقے سے عیش و طرب اور فسق و فجور کے سامان فراہم کرے ۔ اور اس کے برعکس بسا اوقات ایک نیک مومن عورت کو ایسے شوہر سے سابقہ پیش آتا ہے جسے اس کی پابندی شریعت ایک آنکھ نہیں بھاتی ، اور اولاد بھی باپ کے نقش قدم پر چل کر اپنی گمراہی اور بد کرداری سے ماں کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے ۔ پھر خصوصیت کے ساتھ جب کفر و دین کی کشمکش میں ایک انسان کے ایمان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر نقصانات برداشت کرے ، طرح طرح کے خطرات مول لے ، ملک چھوڑ کر ہجرت کر جائے ، یا جہاد میں جا کر اپنی جان تک جوکھوں میں ڈال دے ، تو سب سے بڑھ کر اس کی راہ میں اس کے اہل و عیال ہی رکاوٹ بنتے ہیں ۔ دوسرے مفہوم کا تعلق ان مخصوص حالات سے ہے جو ان آیات کے نزول کے زمانہ میں بکثرت مسلمانوں کو پیش آرہے تھے اور آج بھی ہر اس شخص کو پیش آتے ہیں جو کسی غیر مسلم معاشرے میں اسلام قبول کرتا ہے ۔ اس وقت مکہ معظمہ میں اور عرب کے دوسرے حصوں میں عموماً یہ سورت پیش آتی تھی کہ ایک مرد ایمان لے آیا ہے ، مگر بیوی بچے نہ صرف اسلام قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، بلکہ خود اس کو اسلام سے پھیر دینے کے لیے کوشاں ہیں ۔ اور ایسے ہی حالات سے ان خواتین کو سابقہ پیش آتا تھا جو اپنے خاندان میں اکیلی اسلام قبول کرتی تھیں ۔ یہ دونوں قسم کے حالات جن اہل ایمان کو در پیش ہوں انہیں خطاب کرتے ہوئے تین باتیں فرمائی گئی ہیں : سب سے پہلے انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیوی رشتے کے لحاظ سے اگرچہ یہ لوگ وہ ہیں جو انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں ، لیکن دین کے لحاظ سے یہ تمہارے دشمن ہیں ۔ یہ دشمنی خواہ اس حیثیت سے ہو کہ وہ تمہیں نیکی سے روکتے اور بدی کی طرف مائل کرتے ہوں یا اس حیثیت سے کہ وہ تمہیں ایمان سے روکتے اور کفر کی طرف کھینچتے ہوں ، یا اس حیثیت سے کہ ان کی ہمدردیاں کفار کے ساتھ ہوں اور تمہارے ذریعہ سے اگر کوئی بات بھی مسلمانوں کے جنگی رازوں کے متعلق ان کے علم میں آ جائے تو اسے اسلام کے دشمنوں تک پہنچا دیتے ہوں ، اس سے دشمنی کی نوعیت و کیفیت میں تو فرق ہو سکتا ہے ، لیکن بہر حال یہ ہے دشمنی ہی ، اور اگر تمہیں ایمان عزیز ہو تو اس لحاظ سے تمہیں ان کو دشمن ہی سمجھنا چاہیے ، ان کی محبت میں گرفتار ہو کر کبھی اس بات کو نہ بھولنا چاہیے کہ تمہارے اور ان کے درمیان ایمان و کفر ، یا طاعت و معصیت کی دیوار حائل ہے ۔ اس کے بعد فرمایا گیا کہ ان سے ہوشیار رہو ۔ یعنی ان کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت برباد نہ کر لو ۔ ان کی محبت کو کبھی اپنے دل میں اس حد تک نہ بڑھنے دو کہ وہ اللہ و رسول کے ساتھ تمہارے تعلق اور اسلام کے ساتھ تمہاری وفاداری میں حائل ہو جائیں ۔ ان پر کبھی اتنا اعتماد نہ کرو کہ تمہاری بے احتیاطی سے مسلمانوں کی جماعت کے اسرار انہیں معلوم ہو جائیں اور وہ دشمنوں تک پہنچیں ۔ یہ وہی بات ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حدیث میں مسلمانوں کو خبر دار کیا ہے کہ یُؤْتیٰ برجلٍ یوم القیٰمۃ فیقالُ اکل عیالہ حَسَنا تِہٖ ۔ ایک شخص قیامت کے روز لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے بال بچے اس کی ساری نیکیاں کھا گئے ۔ آخر میں فرمایا گیا کہ اگر تم عفو و در گزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی دشمنی سے تمہیں صرف اس لیے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تم ان سے ہوشیار رہو اور اپنے دین کو ان سے بچنے کی فکر کرو ۔ اس سے آگے بڑھ کر اس تنبیہ کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ بیوی بچوں کو مارنے پیٹنے لگو ، یا ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ ، یا ان کے ساتھ تعلقات میں ایسی بد مزگی پیدا کر لو کہ تمہاری اور ان کی گھریلو زندگی عذاب بن کر رہ جائے ۔ یہ اس لیے کہ ایسا کرنے کے دو نقصانات بالکل واضح ہیں ۔ ایک یہ کہ اس سے بیوی بچوں کی اصلاح کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جانے کا خطرہ ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس سے معاشرے میں اسلام کے خلاف الٹی بدگمانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور گرد و پیش کے لوگوں کی نگاہ میں مسلمان کے اخلاق و کر دار کی یہ تصویر بنتی ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی وہ خود اپنے گھر میں اپنے بال بچوں تک کے لیے سخت گیر اور بد مزاج بن جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ابتدائے اسلام میں جب لوگ نئے نئے مسلمان ہوتے تھے ، تو ان کو ایک مشکل اس وقت پیش آتی تھی جب ان کے والدین کافر ہوتے تھے اور وہ ان پر دباؤ ڈالتے تھے کہ اس نئے دین سے پھر جائیں ۔ اور دوسری مشکل اس وقت پیش آتی جب ان کے بیوی بچے ( یا عورتوں کے معاملہ میں ان کے شوہر اور بچے ) کفر پر قائم رہتے اور دین حق کی راہ سے انہیں پھیرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ پہلی صورت کے متعلق سورہ عنکبوت ( آیت 8 ) اور سورہ لقمان ( آیات 14 ۔ 15 ) میں یہ ہدایت فرمائی گئی کہ دین کے معاملہ میں والدین کی بات ہرگز نہ مانو ، البتہ دنیا کے معاملات میں ان کے سا تھ حسن سلوک کرتے رہو ۔ دوسری صورت کا حکم یہاں بیان کیا گیا ہے کہ اپنے دین کو تو اپنے بال بچوں سے بچانے کی فکر ضرور کرو ، مگر ان کے ساتھ سخت گیری کا برتاؤ نہ کرو ، بلکہ نرمی اور عفو و در گزر سے کام لو ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، التوبہ ، آیات 23 ۔ 24 ۔ جلد پنجم ، المجادلہ ، حاشیہ 37 ۔ الممتحنہ ، حواشی 1 تا 3 ۔ المنافقون ، حاشیہ 18 ) ۔
اللہ کی یاد اور دولت ارشاد ہوتا ہے کہ بعض عورتیں اپنے مردوں کو اور بعض اولاد اپنے ماں باپ کو یاد اللہ اور نیک عمل سے روک دیتی ہے جو درحقیقت دشمنی ہے ، جس سے پہلے تنبیہ ہو چکی ہے کہ ایسا نہ ہو تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں یاد اللہ سے غافل کر دیں اگر ایسا ہو گیا تو تمہیں بڑا گھاٹا رہے گا یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان سے ہوشیار رہو ، اپنے دین کی نگہبانی ان کی ضروریات اور فرمائشات کے پورا کرنے پر مقدم رکھو ، بیوی بچوں اور مال کی خاطر انسان قطع رحمی کر گزرتا ہے اللہ کی نافرمانی پر تل جاتا ہے ان کی محبت میں پھنس کر احکام اسلامی کو پس پشت ڈال دیتا ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں بعض اہل مکہ اسلام قبول کر چکے تھے مگر زن و فرزند کی محبت نے انہیں ہجرت سے روک دیا پھر جب اسلام کا خوب افشا ہو گیا تب یہ لوگ حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے دیکھا کہ ان سے پہلے کے مہاجرین نے بہت کچھ علم دین حاصل کر لیا ہے اب جی میں آیا کہ اپنے ہاں بچوں کو سزا دیں جس پر یہ فرمان ہوا کہ ان تعفوا الخ ، یعنی اب درگزر کرو آئندہ کے لئے ہوشیار رہو ، اللہ تعالیٰ مال و اولاد دے کر انسان کو پرکھ لیتا ہے کہ معصیت میں مبتلا ہونے والے کون ہیں اور اطاعت گذار کون ہیں؟ اللہ کے پاس جو اجر عظیم ہے تمہیں چاہئے اس پر نگاہیں رکھو جیسے اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) الخ ، یعنی بطور آزمائش کے لوگوں کے لئے دنیوی خواہشات یعنی بیویاں اور اولاد ، سونے چاندی کے بڑے بڑے لگے ہوئے ڈھیر ، شائستہ گھوڑے ، مویشی ، کھیتی کی محبت کو زینت دی گئی ہے مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان ہے اور ہمیشہ رہنے والا اچھا ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ فرما رہے تھے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین لانبے لانبے کرتے پہنے آ گئے دونوں بچے کرتوں میں الجھ الجھ کر گرتے پڑتے آ رہے تھے یہ کرتے سرخ ، رنگ کے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظریں جب ان پر پڑیں تو منبر سے اتر کر انہیں اٹھا کر لائے اور اپنے سامنے بٹھا لیا پھر فرمانے لگے اللہ تعالیٰ سچا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اولاد فتنہ ہیں میں ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے دیکھ کر صبر نہ کر سکا آخر خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھانا پڑا ۔ مسند میں ہے حضرت اشعت بن قیس فرماتے ہیں کندہ قبیلے کے وفد میں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ نے مجھ سے پوچھا تمہاری کچھ اولاد بھی ہے میں نے کہا ہاں اب آتے ہوئے ایک لڑکا ہوا ہے کاش کہ اس کے بجائے کوئی درندہ ہی ہوتا آپ نے فرمایا خبردار ایسا نہ کہو ان میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور انتقال کر جائیں تو اجر ہے ، پھر فرمایا ہاں ہاں یہی بزدلی اور غم کا سبب بھی بن جاتے ہیں یہ بزدلی اور غم و رنج بھی ہیں ، بزاز میں ہے اولاد دل کا پھل ہے اور یہ بخل ونامردی اور غمگینی کا باعث بھی ہے ، طبرانی میں ہے تیرا دشمن صرف وہی نہیں جو تیرے مقابلہ میں کفر پر جم کر لڑائی کے لئے آیا کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کر دیا تو تیرے لئے باعث نور ہے اور اگر اس نے تجھے قتل کر دیا تو قطعاً جنتی ہو گیا ۔ پھر فرمایا شاید تیرا دشمن تیرا بچہ ہے جو تیری پیٹھ سے نکلا پھر تجھ سے دشمنی کرنے لگا تیرا پورا دشمن تیرا مال ہے جو تیری ملکیت میں ہے پھر دشمنی کرتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے اپنے مقدور بھر اللہ کا خوف رکھو اس کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو ، بخاری و مسلم میں ہے جو حکم میں کروں اسے اپنی مقدور بھر بجا لاؤ جس سے میں روک دوں رک جاؤ ، بعض مفسرین کا فرمان ہے کہ سورہ آل عمران کی آیت ( ترجمہ ) کی ناسخ یہ آیت ہے ، یعنی پہلے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئے لیکن اب فرما دیا کہ اپنی طاقت کے مطابق چنانچہ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام اپنی طاقت کے مطابق چنانچہ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام کرتے تھے کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا اور اتنے لمبے سجدے کرتے تھے کہ پیشانیاں زخمی ہو جاتی تھیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ دوسری آیت اتار کر تخفیف کر دی اور بھی بعض مفسرین نے یہی فرمایا ہے اور پہلی آیت کو منسوخ اور اس دوسری آیت کو ناسخ بتایا ہے ، پھر فرماتا ہے اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جاؤ ان کے فرمان سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہٹو نہ آگے بڑھو نہ پیچھے سرکو نہ امر کو چھوڑو نہ نہی کے خلاف کرو ، جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے رشتہ داروں کو فقیروں ، مسکینوں کو اور حاجت مندوں کو دیتے رہو ، اللہ نے تم پر احسان کیا تم دوسری مخلوق پر احسان کرو تاکہ اس جہان میں بھی اللہ کے احسان کے مستحق بن جاؤ اور اگر یہ نہ کیا تو دونوں جہان کی بربادی اپنے ہاتھوں آپ مول لو گے ، ومن یوق کی تفسیر سورہ حشر کی اس آیت میں گذر چکی ہے ۔ جب تم کوئی چیز راہ اللہ دو گے اللہ اس کا بدلہ دے گا ہر صدقے کی جزا عطا فرمائے گا ، تمہارا مسکینوں کے ساتھ سلوک کرنا گویا اللہ کو قرض دینا ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے؟ جو ایسے کو قرض دے جو نہ تو ظالم ہے نہ مفلس نہ نادہندہ ، پس فرماتا ہے وہ تمہیں بہت کچھ بڑھا چڑھا کر پھیر دے گا ، جیسے سورہ بقرہ میں بھی فرمایا ہے کہ کئی کئی گنا بڑھا کر دے گا ، ساتھ ہی خیرات سے تمہارے گناہ معاف کر دے گا ، اللہ بڑا قدر دان ہے ، تھوڑی سی نیک کا بہت بڑا اجر دیتا ہے ، وہ بردبار ہے درگزر کرتا ہے بخش دیتا ہے گناہوں سے اور لغزشوں سے چشم پوشی کر لیتا ہے ، خطاؤں اور برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے چھپے کھلے کا عالم وہ غالب اور باحکمت ہے ، ان اسماء حسنیٰ کی تفسیر کئی کئی مرتبہ اس سے پہلے گذر چکی ہے ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورۃ تغابن کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمد للہ ۔