Surah

Information

Surah # 65 | Verses: 12 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 99 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَالّٰٓـىٴِۡ يَٮِٕسۡنَ مِنَ الۡمَحِيۡضِ مِنۡ نِّسَآٮِٕكُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشۡهُرٍ وَّالّٰٓـىٴِۡ لَمۡ يَحِضۡنَ‌ ؕ وَاُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنۡ يَّضَعۡنَ حَمۡلَهُنَّ ‌ؕ وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مِنۡ اَمۡرِهٖ یُسْرًا‏ ﴿4﴾
تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہوگئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کےوضع حمل ہے اور جو شخص اللہ تعالٰی سے ڈرے گا اللہ اس کے ( ہر ) کام میں آسانی کر دے گا ۔
و الي يىسن من المحيض من نساىكم ان ارتبتم فعدتهن ثلثة اشهر و الي لم يحضن و اولات الاحمال اجلهن ان يضعن حملهن و من يتق الله يجعل له من امره يسرا
And those who no longer expect menstruation among your women - if you doubt, then their period is three months, and [also for] those who have not menstruated. And for those who are pregnant, their term is until they give birth. And whoever fears Allah - He will make for him of his matter ease.
Tumhari aurton mein say jo aurten hez say na umeed ho gaee hon agar tumhen shuba ho to unn ki muddat teen maheeney hai aur unn ki bhi jinhen hez aana shuroo hi na hua ho aur hamila aurton ki iddat unn kay waza-e-hamal hai aur jo shaks Allah Taalaa say daray ga Allah uss kay ( her ) kaam mein aasani ker dey ga.
اور تمہاری عورتوں میں سے جو ماہواری آنے سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں ( ان کی عدت کے بارے میں ) شک ہو تو ( یاد رکھو کہ ) ان کی عدت تین مہینے ہے ، ( ٨ ) اور ان عورتوں کی ( عدت ) بھی ( یہی ہے ) جنہیں ابھی ماہواری آئی ہی نہیں ، اور جو عورتیں حاملہ ہوں ، ان کی ( عدت کی ) میعاد یہ ہے کہ وہ اپنے پیٹ کا بچہ جن لیں ۔ اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا ، اللہ اس کے کام میں آسانی پیدا کردے گا ۔
اور تمہاری عورتوں میں جنہیں حیض کی امید نہ رہی ( ف۱٤ ) اگر تمہیں کچھ شک ہو ( ف۱۵ ) تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی جنہیں ابھی حیض نہ آیا ( ف۱٦ ) اور حمل والیوں کی میعاد یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جَن لیں ( ف۱۷ ) اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے کام میں آسانی فرمادے گا ،
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو ( تمھیں معلوم ہو کہ ) ان کی عدت تین مہینے ہے 12 ۔ اور یہی حکم ان کا ہے ۔ جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو 13 ۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہو 14 جائے ۔ جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملہ میں وہ سہولت پیدا کر دیتا ہے ۔
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو ( کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی ) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں ( ابھی ) حیض نہیں آیا ( ان کی بھی یہی عدّت ہے ) ، اور حاملہ عورتیں ( تو ) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے ، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے ( تو ) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے
سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :12 یہ ان عورتوں کا حکم ہے جن کو حیض آنا قطعی بند ہو چکا ہو اور کبر سنی کی وجہ سے وہ سن ایاس میں داخل ہو چکی ہوں ۔ ان کی عدت اس روز سے شمار ہو گی جس روز انہیں طلاق دی گئی ہو ۔ اور تین مہینوں سے مراد تین قمری مہینے ہیںَ اگر قمری مہینے کے آغاز میں طلاق دی گئی ہو تو بالاتفاق رویت ہلال کے لحاظ سے عدت شمار ہو گی ، اور اگر مہینے کے بیچ میں کسی وقت طلاق دی گئی ہو تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک 30 دن کا مہینہ قرار دے کر 3 مہینے پورے کرنے ہوں گے ( بدائع الصنائع ) ۔ رہیں وہ عورتیں جن کے حیض میں کسی نوع کی بے قاعدگی ہو ، ان کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلافات ہیں ۔ حضرت سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا جس عورت کو طلاق دی گئی ہو ، پھر ایک دو مرتبہ حیض آنے کے بعد اس کا حیض بند ہو گیا ہو ، وہ 9 مہینے انتظار کرے ۔ اگر حمل ظاہر ہو جائے تو ٹھیک ہے ، ورنہ 9 مہینے گزرنے کے بعد وہ مزید تین مہینے عدت گزارے ، پھر وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کے لیے حلال ہو گی ۔ ابن عباس ، قتادہ اور عکرمہ کہتے ہیں کہ جس عورت کو سال بھر حیض نہ آیا ہو اسکی عدت تین مہینے ہے ۔ طاؤس کہتے ہیں کہ جس عورت کو سال میں ایک مرتبہ حیض آئے اس کی عدت تین حیض ہے ۔ یہی رائے حضرت عثمان حضرت علی ، اور حضرت زیدبن ثابت سے مروی ہے ۔ امام مالک کی روایت ہے کہ ایک صاحب حبان نامی تھے جنہوں نے اپنی بیوی کو ایسے زمانے میں طلاق دی جبکہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی تھیں اور اس پر ایک سال گزر گیا مگر انہیں حیض نہ آیا ۔ پھر وہ صاحب انتقال کر گئے ۔ مطلقہ بیوی نے وراثت کا دعویٰ کر دیا ۔ حضرت عثمان کے سامنے مقدمہ پیش ہوا ۔ انہوں نے حضرت علی اور حضرت زید بن ثابت سے مشورہ طلب کیا ۔ دونوں بزرگوں کے مشورے سے حضرت عثمان نے فیصلہ فرمایا کہ عورت وارث ہے ۔ دلیل یہ تھی کہ نہ وہ ان عورتوں میں سے ہے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں اور نہ ان لڑکیوں میں سے ہے جن کو ابھی حیض نہیں آیا ، لہٰذا وہ شوہر کے مرنے تک اپنے اس حیض پر تھی جو اسے پہلے آیا تھا اور اس کی عدت باقی تھی ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ جس عورت کا حیض بند ہو گیا ہو ، مگر اس کا بند ہونا سن ایام کی وجہ سے نہ ہو کہ آئندہ اس کے جاری ہونے کی امید نہ رہے ، اس کی عدت یا تو حیض ہی سے ہوگی اگر وہ آئندہ جاری ہو ، یا پھر اس عمر کے لحاظ سے ہوگی جس میں عورتوں کو حیض آنا بند ہو جاتا ہے اور اس عمر کو پہنچنے کے بعد وہ تین مہینے عدت گزار کر نکاح سے آزاد ہو گی ۔ یہی قول امام شافعی ، امام ثوری اور امام لیث کا ہے ۔ اور یہی مذہب حضرت علی ، حضرت عثمان اور حضرت زید بن ثابت کا ہے ۔ امام مالک نے حضرت عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس کے قول کو اختیار کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت پہلے 9 مہینے گزارے گی ۔ اگر اس دوران میں حیض جاری نہ ہو تو پھر وہ تین مہینے اس عورت کی سی عدت گزارے گی جو حیض سے مایوس ہو چکی ہو ۔ ابن القاسم نے امام مالک کے مسلک کی توضیح یہ کی ہے کہ 9 مہینے اس روز سے شمار ہوں گے جب آخری مرتبہ اس کا حیض ختم ہوا تھا نہ کہ اس روز سے جب اسے طلاق دی گئی ۔ ( یہ تمام تفصیلات احکام القرآن للجصاص اور بدائع الصنائع للکاسانی سے ماخوذ ہیں ) ۔ امام احمد بن حنبل کا مذہب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت جس کی عدت حیض کے اعتبار سے شروع ہوئی تھی ، عدت کے دوران میں آئسہ ہو جائے تو اسے حیض والی عورتوں کے بجائے آئسہ عورتوں والی عدت گزارنی ہوگی ۔ اور اگر اس کو حیض آنا بند ہو جائے اور معلوم نہ ہو سکے کہ وہ کیوں بند ہو گیا ہے تو پہلے وہ حمل کے شبہ میں 9 مہینے گزارے گی اور پھر اسے تین مہینے عدت کے پورے کرنے ہوں گے ۔ اور اگر یہ معلوم ہو کہ حیض کیوں بند ہوا ہے ، مثلاً کوئی بیماری ہو یا دودھ پلا رہی ہو یا ایسا ہی کوئی اور سبب ہو تو وہ اس وقت تک عدت میں رہے گی جب تک یا تو حیض آنا شروع نہ ہو جائے اور عدت حیضوں کے لحاظ سے شمار ہو سکے ، یا پھر وہ آئسہ ہو جائے اور آئسہ عورتوں کی سی عدت گزار سکے ( الانصاف ) ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :13 حیض خواہ کم سنی کی وجہ سے نہ آیا ہو ، یا اس وجہ سے کہ بعض عورتوں کو بہت دیر میں حیض آنا شروع ہوتا ہے ، اور شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی عورت کو عمر بھر نہیں آتا ، بہر حال تمام صورتوں میں ایسی عورت کی عدت وہی ہے جو آئسہ عورت کی عدت ہے ، یعنی طلاق کے وقت سے تین مہینے ۔ اس جگہ یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ قرآن کی تصریح کے مطابق عدت کا سوال اس عورت کے معاملہ میں پیدا ہوتا ہے جس سے شوہر خلوت کر چکا ہو ، کیونکہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہے ہی نہیں ( الاحزاب ، 49 ) ۔ اس لیے ایسی لڑکیوں کی عدت بیان کرنا جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو ، صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف لڑکی کا نکاح کر دینا جائز ہے بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے ۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ جس چیز کو قرآن نے جائز قرار دیا ہو اسے ممنوع قرار دینے کا کسی مسلمان کو حق نہیں پہنچتا ۔ جس لڑکی کو ایسی حالت میں طلاق دی گئی ہو کہ اسے ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو ، اور پھر عدت کے دوران میں اس کو حیض آ جائے ، تو وہ پھر اسی حیض سے عدت شروع کرے گی اور اس کی عدت حائضہ عورتوں جیسی ہو گی ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :14 اس امر پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے ۔ لیکن اس امر میں اختلاف واقع ہو گیا ہے کہ آیا یہی حکم اس عورت کا بھی ہے جس کا شوہر زمانہ حمل میں وفات پا گیا ہو؟ یہ اختلاف اس وجہ سے ہوا ہے کہ سورہ بقرہ آیت 234 میں اس عورت کی عدت 4 مہینے دس دن بیان کی گئی ہے جس کا شوہر وفات پا جائے ، اور وہاں اس امر کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ حکم آیا تمام بیوہ عورتوں کے لیے عام ہے یا ان عورتوں کے لیے خاص ہے جو حاملہ نہ ہوں ۔ حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن عباس ان دونوں آیتوں کو ملا کر یہ استنباط کرتے ہیں کہ حاملہ مطلقہ کی حد تو وضع حمل تک ہی ہے ، مگر بیوہ حاملہ کی عدت آخر الَاَجلَین ہے ، یعنی مطلقہ کی عدت اور حاملہ کی عدت میں سے جو زیادہ طویل ہو وہی اس کی عدت ہے ۔ مثلاً اگر اس کا بچہ 4 مہینے دس دن سے پہلے پیدا ہو جائے تو اسے چار مہینے دس سن پورے ہونے تک عدت گزارنی ہو گی ۔ اور اگر اس کا وضع حمل اس وقت تک نہ ہو تو پھر اس کی عدت اس وقت پوری ہوگی جب وضع حمل ہو جائے ۔ یہی مذہب امامیہ کا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ سورہ طلاق کی یہ آیت سورہ بقرہ کی آیت کے بعد نازل ہوئی ہے ، اس لیے بعد کے حکم نے پہلی آیت کے حکم کو غیر حاملہ بیوہ کے لیے خاص کر دیا ہے اور ہر حاملہ کی عدت وضع حمل تک مقرر کر دی ہے ، خواہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ ۔ اس مسلک کی رو سے عورت کا وضع حمل چاہے شوہر کی وفات کے فوراً بعد ہو جائے یا 4 مہینے دس دن سے زیادہ طول کھینچے ، بہر حال بچہ پیدا ہوتے ہیں وہ عدت سے باہر ہو جائے گی ۔ اس مسلک کی تائید حضرت ابی بن کعب کی یہ روایت کرتی ہے وہ فرماتے ہیں ، جب سورہ طلاق کی یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کیا یہ مطلقہ اور بیوہ دونوں کے لیے ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں ۔ دوسری روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید تصریح فرمائی : اجل کل حامل ان تضع مافی بطنہا ، ہر حاملہ عورت کی عدت کی مدت اس کے وضع حمل تک ہے ( ابن جریر ۔ ابن ابی حاتم ۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ اگر چہ اس کی سند میں کلام کی گنجائش ہے ، لیکن چونکہ یہ متعدد سندوں سے نقل ہوئی ہے اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ اس کی کوئی اصل ضرور ہے ) ۔ اس سے بھی زیادہ بڑھ کر اس کی مضبوط تائید سبیعہ اسلمیہ کے واقعہ سے ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں پیش آیا تھا ۔ وہ بحالت حمل بیوہ ہوئی تھیں اور شوہر کی وفات کے چند روز بعد ( بعض روایات میں 20 دن ، بعض میں 23 دن ، بعض میں 25 دن ، بعض میں 40 دن اور بعض میں 35 دن بیان ہوئے ہیں ) ان کا وضع حمل ہو گیا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے معاملہ میں فتویٰ پوچھا گیا تو آپ نے ان کو نکاح کی اجازت دے دی ۔ اس واقعہ کو بخاری و مسلم نے کئی طریقوں سے حضرت ام سلمہ سے روایت کیا ہے ۔ اسی واقعہ کو بخاری ، مسلم ، امام احمد ، ابو داؤد ، نسائی اور ابن ماجہ نے مختلف سندوں کے ساتھ حضرت مسور بن مخرمہ سے بھی روایت کیا ہے ۔ مسلم نے خود سبیعہ اسلمیہ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں حضرت سعد بن خولہ کی بیوی تھی ۔ حجۃ الوداع کے زمانے میں میرے شوہر کا انتقال ہو گیا جبکہ میں حاملہ تھی ۔ وفات کے چند روز بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہو گیا ۔ ایک صاحب نے کہا کہ تم چار مہینے دس دن سے پہلے نکاح نہیں کر سکتیں ۔ میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تو آپ نے فتویٰ دیا کہ تم وضع حمل ہوتے ہی حلال ہو چکی ہو ، اب چاہے تو دوسرا نکاح کر سکتی ہو ۔ اس روایت کو بخاری نے بھی مختصراً نقل کیا ہے ۔ صحابہ کی کثیر تعداد سے یہی مسلک منقول ہے ۔ امام مالک ، امام شافعی ، عبد الرزاق ، ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے حاملہ بیوہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا اس کی عدت وضع حمل گی ہے ۔ اس پر انصار میں سے ایک صاحب بولے کہ حضرت عمر نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اگر شوہر ابھی دفن بھی نہ ہوا ہو ا بلکہ اس کی لاش اس کے بستر پر ہی ہو اور اس کی بیوی کے ہاں بچہ ہو جائے تو وہ دوسرے نکاح کے لیے حلال ہو جائے گی ۔ یہی رائے حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابو مسعود بدری اور حضرت عائشہ کی ہے ، اور اسی کو ائمہ اربعہ اور دوسرے اکابر فقہاء نے اختیار کیا ہے ۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ اگر حاملہ کے پیٹ میں ایک سے زیادہ بچے ہوں تو آخری بچے کی ولادت پر عدت ختم ہو گی ۔ بچہ خواہ مردہ ہی پیدا ہو ، اس کی ولادت سے عدت ختم ہو جائے گی ۔ اسقاط حمل کی صورت میں اگر دائیاں اپنے فن کی رو سے یہ کہیں کہ یہ محض خون کا لوتھڑا نہ تھا بلکہ اس میں آدمی کی صورت پائی جاتی تھی ، یا یہ رسولی نہ تھی بلکہ آدمی کی اصل تھی تو ان کا قول قبول کیا جائے گا اور عدت ختم ہو جائے گی ( مغنی المحتاج ) ۔ حنابلہ اور حنفیہ کا مسلک بھی اس کے قریب قریب ہے ، مگر اسقاط کے معاملہ میں ان کا مذہب یہ ہے کہ جب تک انسانی بناوٹ ظاہر نہ پائی جائے ، محض دائیوں کے اس بیان پر کہ یہ آدمی ہی کی اصل ہے ، اعتماد نہیں کیا جائے گا اور اس سے عدت ختم نہ ہو گی ( بدائع الصنائع ۔ الانصاف ) ۔ لیکن موجودہ زمانے میں طبی تحقیقات کے ذریعہ سے یہ معلوم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی کہ جو چیز ساقط ہوئی ہے وہ واقعی انسانی حمل کی نوعیت رکھتے تھی یا کسی رسولی یا جمے ہوئے خون کی قسم سے تھی ، اس لیے اب جہاں ڈاکٹروں سے رائے حاصل کرنا ممکن ہو وہاں یہ فیصلہ بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ جس چیز کو اسقاط حمل کہا جاتا ہے وہ واقعی اسقاط تھا یا نہیں اور اس سے عدت ختم ہوئی یا نہیں ۔ البتہ جہاں ایسی طبی تحقیق ممکن نہ ہو وہاں حنابلہ اور حنفیہ کا مسلک ہی زیادہ مبنی بر احتیاط ہے اور جاہل دائیوں پر اعتماد کرنا مناسب نہیں ہے ۔
مسائل عدت جن بڑھیا عورتوں کی اپنی بڑی عمر کی وجہ سے ایام بند ہوگئے ہوں یہاں ان کی عدت بتائی جاتی ہے کہ تین مہینے کی عدت گذاریں ، جیسے کہ ایام والی عورتوں کی عدت تنی حیض ہے ۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ کی آیت ، اسی طرح وہ لڑکیاں جو اس عمر کو نہیں پہنچیں کہ انہیں حیض آئے ان کی عدت بھی یہی تین مہینے رکھی ، اگر تمہیں شک ہو اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ خون دیکھ لیں اور تمہیں شبہ گذرے کہ آیا حیض کا خون ہے یا استخاصہ کی بیماری کا ، دوسرا قول یہ ہے کہ ان کی عدت کے حکم میں تمہیں شک باقی رہ جائے اور تم اسے نہ پہچان سکو تو تین مہینے یاد رکھو لو ، یہ دوسرا قول ہی زیادہ ظاہر ہے ، اس کی دلیل یہ روایت بھی ہے کہ حضتر ابی بن کعب نے کہا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سی عورتوں کی عدت ابھی بیان نہیں ہوئی کمسن لڑکیاں بوڑھی بڑی عورتیں اور حمل والی عورتیں اس کے جواب میں یہ آیت اتری ، پھر حاملہ کی عدت بیان فرمائی کہ وضع حمل اس کی عدت ہے گو طلاق یا خاوند کی موت کے ذرا سی دیر بعد ہی ہو جائے ، جیسے کہ اس آیہ کریمہ کے الفاظ ہیں اور احادیث نبویہ سے ثابت ہے اور جمہور علماء سلفو خلف کا قول ہے ، ہاں حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت اور اس آیت کو ملا کر ان کا فتویٰ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے جو زیادہ دیر میں ختم ہو وہ عدت یہ گذارے یعنی اگر بچہ تین مہینے سے پہلے پیدا ہو گیا تو تین مہینے کی عدت ہے اور تین مہینے گذر چکے اور بچہ نہیں ہوا تو بچے کے ہونے تک عدت ہے ، صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو سلمہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عباس کے پاس آیا اور اس وقت حضرت ابو ہریرہ بھی وہیں موجود تھے اس نے سوال کیا کہ اس عورت کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہے جسے اپنے خاوند کے انقال کے بعد چالیسویں دن بچہ ہو جائے آپ نے فرمایا دونوں عدتوں میں سے آخری عدت اسے گذارنی پڑے گی یعنی اس صورت میں تین مہینے کی عدت اس پر ہے ، ابو سلمہ نے کہا قرآن میں تو ہے کہ حمل والیوں کی عدت بچہ کا و جانا ہے ، حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا میں بھی اپنے چچا زاد بھائی حضرت ابو سلمہ کے ساتھ ہوں یعنی میرا بھی یہی فوتویٰ ہے ، حضرت ابن عباس نے اسی وقت اپنے غلام کریب کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا کہ جاؤ ان سے یہ مسئلہ پوچھ آؤ انہوں نے فرمایا سبیعہ اسلمیہ کے شوہر قتل کئے گئے اور یہ اس وقت امید سے تھیں چالیس راتوں کے بعد بچہ ہو گیا اسی وقت نکاح کا پیغام آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر دیا پیغام دینے والوں میں حضرت ابو السنابل بھی تھے ۔ یہ حدیث قدرے طوالت کے ساتھ اور کتابوں میں بھی ہے ، حضرت عبداللہ بن عتبہ نے حضرت عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ کے پاس جائیں اور ان سے ان کا واقعہ دریافت کر کے انہیں لکھ بھیجیں ، یہ گئے دریافت کیا اور لکھا کہ ان کے خاوند حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ تھے یہ بدری صحابی تھے حجتہ الوداع میں فوت ہوگئے اس وقت یہ حمل سے تھیں تھوڑے ہی دن کے بعد انہیں بچہ پیدا ہو گیا جب نفاس سے پاک ہوئیں تو اچھے کپڑے پہن کر بناؤ سنگھار کر کے بیٹھ گئیں حضرت ابو السنابل بن بلک جب ان کے پاس آئے تو انہیں اس حالت میں دیکھ کر کہنے لگے تم جو اس طرح بیٹھی ہو تو کیا نکاح کرنا چاہتی ہو واللہ تم نکاح نہیں کر سکتیں جب تک کہ چار مہینے دس دن نہ گذر جائیں ۔ میں یہ سن کر چادر اوڑھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے یہ مسئلہ پوچھا آپ نے فرمایا بچہ پیدا ہوتے ہی تم عدت سے نکل گئیں اب تمہیں اختیار ہے اگر چاہو تو اپنا نکاح کر لو ( مسلم ) صحیح بخاری میں اس آیت کے تحت میں اس حدیث کے وارد کرنے کے بعد یہ بھی ہے کہ حضرت ممد بن سیرین ایک مجلس میں تھے جہاں حضرت عبدالرحمن بن ابو یعلی بھی تھے جن کی تعظیم تکریم ان کے ساتھی بہت ہی کیا کرتے تھے انہوں نے حاملہ کی عدت آخری دو عدتوں کی میعاد بتائی اس پر میں نے حضرت سبیعہ والی حدیث بیان کی ، اس پر میرے بعض ساتھی مجھے ٹہو کے لگانے لگے میں نے کہا پھر تو میں نے بڑی جرات کی اگر عبداللہ پر میں نے بہتان باندھا حالانکہ وہ کوفہ کے کونے میں زندہ موجود ہیں پس وہ ذرا شرما گئے اور کہنے لگے لیکن ان کے چچا تو یہ نہیں کہتے میں حضرت ابو عطیہ مالک بن عامر سے ملا انہوں نے مجھے حضرت سبیعہ والی حدیث پوری سنائی میں نے کہا تم نے اس بابت حضرت عبداللہ سے بھی کچھ سنا ہے؟ فرمایا یہ حضرت عبداللہ کہتے تھے آپ نے فرمایا کیا تم اس پر سختی کرتے ہو اور رخصت نہیں دیتے؟ سورہ نساء قصریٰ یعنی سورۃ طلاق سورہ نساء طولی کے بعد اتری ہے اور اس میں فرمان ہے کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے ، ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایتہے کہ جو ملاعنہ کرنا چاہے میں اس سے ملاعنہ کرنے کو تیار ہوں یعنی میرے فتوے کے خلاف جس کا فتویٰ ہو میں تیار ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں آئے اور جھوٹے پر اللہ کی لعنت کرے ، میرا فتویٰ یہ ہے کہ حمل والی کی عدت بچہ کا پیدا ہو جانا ہے پہلے عام حکم تھا کہ جن عرتوں کی خاوند مر جائیں وہ چار مہینے دس دن عدت گذاریں اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ حمل والیوں کی عدت بچے کا پیدا ہو جانا ہے پس یہ عورتیں ان عورتوں میں سے مخصوص ہوگئیں اب مسئلہ یہی ہے کہ جس عورت کا خاوند مر جائے اور وہ حمل سے ہو تو جب حمل سے فارغ ہو جائے ، عدت سے نکل گئی ۔ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن مسعود نے یہ اس وقت فرمایا تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت علی کا فتویٰ یہ ہے کہ اس کی عدت ان دونوں عدتوں میں سے جو آخری ہو وہ ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابی بن کعب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حمل والیوں کی عدت جو وضع حمل ہے یہ تین طلاق والیوں کی عدت ہے یا فوت شدہ خاوند والیوں کی آپ نے فرمایا دونوں کی ، یہ حدیث بہت غریب ہے بلکہ منکر ہے اس لئے کہ اس کی اسناد میں مثنی بن صباح ہے اور وہ بالکل متروک الحدیث ہے ، لیکن اس کی دوسری سندیں بھی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ متقیوں کے لئے ہر مشکل سے آسانی اور ہر تکلیف سے راحت عنایت فرما دیتا ہے ، یہ اللہ کے احکام اور اس کی پاک شریعت ہے جو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے تمہاری طرفاتار رہا ہے اللہ سے ڈرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اور چیزوں کے ڈر سے بچا لیتا ہے اور ان کے تھوڑے عمل پر بڑا اجر دیتا ہے ۔