Surah

Information

Surah # 65 | Verses: 12 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 99 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَسۡكِنُوۡهُنَّ مِنۡ حَيۡثُ سَكَنۡـتُمۡ مِّنۡ وُّجۡدِكُمۡ وَلَا تُضَآرُّوۡهُنَّ لِتُضَيِّقُوۡا عَلَيۡهِنَّ‌ ؕ وَاِنۡ كُنَّ اُولَاتِ حَمۡلٍ فَاَنۡفِقُوا عَلَيۡهِنَّ حَتّٰى يَضَعۡنَ حَمۡلَهُنَّ‌‌ ۚ فَاِنۡ اَرۡضَعۡنَ لَـكُمۡ فَاٰ تُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ‌ ۚ وَاۡتَمِرُوۡا بَيۡنَكُمۡ بِمَعۡرُوۡفٍ‌ۚ وَاِنۡ تَعَاسَرۡتُمۡ فَسَتُرۡضِعُ لَهٗۤ اُخۡرٰى ؕ‏ ﴿6﴾
تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں ان ( طلاق والی ) عورتوں کو رکھو اور انہیں تنگ کرنے کے لئے تکلیف نہ پہنچاؤ اور اگر وہ حمل سے ہوں تو جب تک بچہ پیدا ہولے انہیں خرچ دیتے رہا کرو پھر اگر تمہارے کہنے سے وہی دودھ پلائیں تو تم انہیں ان کی اجرت دے دو اور باہم مناسب طور پر مشورہ کرلیا کرو اور اگر تم آپس میں کشمکش کرو تو اس کے کہنے سے کوئی اور دودھ پلائے گی ۔
اسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم و لا تضاروهن لتضيقوا عليهن و ان كن اولات حمل فانفقوا عليهن حتى يضعن حملهن فان ارضعن لكم فاتوهن اجورهن و اتمروا بينكم بمعروف و ان تعاسرتم فسترضع له اخرى
Lodge them [in a section] of where you dwell out of your means and do not harm them in order to oppress them. And if they should be pregnant, then spend on them until they give birth. And if they breastfeed for you, then give them their payment and confer among yourselves in the acceptable way; but if you are in discord, then there may breastfeed for the father another woman.
Tum apni taqat kay mutabiq jahan tum rehtay ho wahan inn ( tallaq wali ) aurton ko rakho aur enhen tang kerney kay liye takleef na phonchao aur agar woh hamal say hon to jab tak bacha peda ho lay enhen kharach detay raha kero phir agar tumharay kehney say wohi doodh pilayen to tum enehn inn ki ujrat dey do aur ba-hum munasib tor per mashwara ker liya kero aur agar tum aapas mein kash-ma-kash kero to iss kay kehney say koi aur doodh pilaye gi.
ان عورتوں کو اپنی حیثیت کے مطابق اسی جگہ رہائش مہیا کرو جہاں تم رہتے ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے انہیں ستاؤ نہیں ، ( ٩ ) اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کو اس وقت تک نفقہ دیتے رہو جب تک وہ اپنے پیٹ کا بچہ جن لیں ۔ ( ١٠ ) پھر اگر وہ تمہارے لی بچے کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت ادا کرو ، اور ( اجرت مقرر کرنے کے لیے ) آپس میں بھلے طریقے سے بات طے کرلیا کرو ، اور اگر تم ایک دوسرے کے لیے مشکل پیدا کرو گے تو اسے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی ۔ ( ١١ )
عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر ( ف۲۰ ) اور انہیں ضرر نہ دو کہ ان پر تنگی کرو ( ف۲۱ ) اور اگر ( ف۲۲ ) حمل والیاں ہوں تو انہیں نان و نفقہ دو یہاں تک کہ ان کے بچہ پیدا ہو ( ف۲۳ ) پھر اگر وہ تمہارے لیے بچہ کو دودھ پلائیں تو انہیں اس کی اجرت دو ( ف۲٤ ) اور آپس میں معقول طور پر مشورہ کرو ( ف۲۵ ) پھر اگر باہم مضائقہ کرو ( دشوار سمجھو ) ( ف۲٦ ) تو قریب ہے کہ اسے اور دودھ پلانے والی مل جائے گی ،
ان کو ( زمانہ عدت میں ) اسی جگہ رکھو جو جہاں تم رہتے ہو ، جیسی کچھ بھی جگہ تمھیں میسر ہو ۔ اور انہیں تنگ کرنے کے لیئے ان کو نہ ستاؤ 16 ۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جائے 17 ۔ اور پھر اگر وہ تمہارے لیے ( بچے کو ) دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو ، اور بھلے طریقے سے ( اجرت کا معاملہ ) باہمی گفت و شنید سے طے کر لو 18 ۔ لیکن اگر تم نے ( اجرت طے کرنے میں ) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلا لے 19 گی ۔
تم اُن ( مطلّقہ ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر ( رہنے کا ٹھکانا ) تنگ کر دو ، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں ، پھر اگر وہ تمہاری خاطر ( بچے کو ) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو ، اور آپس میں ( ایک دوسرے سے ) نیک بات کا مشورہ ( حسبِ دستور ) کر لیا کرو ، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے ( اب کوئی ) دوسری عورت دودھ پلائے گی
سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :16 اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مطلّقہ کو اگر رجعی طلاق دی گئی ہو تو شوہر پر اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اور اس امر پر بہی اتفاق ہے کہ اگر عورت حاملہ ہو ، تو خو اہ اسے رجعی طلاق دی گئی ہو یا قطعی طور پرا لگ کر دینے والی بہر حال اس کے وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار شو ہر ہو گا ۔ اس کے بعد اختلاف اس امر میں ہو ا ہے کہ آیا غیر حاملہ مطلّقہ مَبتُوتہ ( یعنی جسے قطعی طور پرا لگ کر دینے والی طلاق دی گئی ہو ) سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے ؟ یا صرف سکونت کا حق رکہتی ہے ؟ یا دونوں میں سے کسی کی بھی حق دار نہیں ہے ؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے ۔ یہ رائے حضرت عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت علی بن حسین ( امام زین العابد ین ) ، قاضی شُریح اور ابراہیم نخعی کی ہے ۔ اسی کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے ، اور امام سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی مذہب ہے ۔ اس کی تائید دار قطنی کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : المطلقۃ ثلاثا لھا السکنٰی والنفقۃ ، جس عورت کو تین طلاقیں دی جاچکی ہوں اس کے لیے زمانہ عدت میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے ۔ اس کی مزید تائید ان روایات سے ہوتی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو حضرت عمر نے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ ایک عورت کے قول پر اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ترک نہیں کر سکتے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے علم میں لازماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ سنت ہوگی کہ ایسی عورت کے لیے نفقہ اور سکونت کا حق ہے ۔ بلکہ ابراہیم نخعی کی ایک روایت میں تو یہ تصریح ہے کہ حضرت عمر نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو رد کرتے ہوئے فرمایا تھا سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول لھا السکنٰی و النفقۃ ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ایسی عورت کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کا بھی امام ابوبکر جصاص احکام القرآن میں اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے اس مسلک کے حق میں پہلی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقاً فرمایا ہے فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ ، ان کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو اس فرمان الہٰی کا اطلاق اس شخص پر بھی تو ہوتا ہے جو دو طلاق پہلے دے کر رجوع کر چکا ہو اور اب اسے صرف ایک ہی طلاق دینے کا حق باقی ہو ۔ دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طلاق دینے کا جب یہ طریقہ بتایا کہ آدمی یا تو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو یا ایسی حالت میں طلاق دے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا ظاہر ہو چکا ہو تو اس میں آپ نے پہلی ، دوسری ، یا آخری طلاق کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ان کو اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو ہر قسم کی طلاق سے متعلق مانا جائے گا ۔ تیسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ حاملہ مطلقہ خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ ، اس کی سکونت اور اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہے ۔ اور غیر حاملہ رجعیہ کے لیے بھی یہ دونوں حقوق واجب ہیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ سکونت اور نفقہ کا وجوب دراصل حمل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ یہ دونوں قسم کی عورتیں شرعاً شوہر کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں ۔ اب اگر یہی حکم مبتوتہ غیر حاملہ کے بارے میں بھی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی سکونت اور اس کا نفقہ مرد کے ذمہ نہ ہو ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے سکونت کا حق تو ہے مگر نفقہ کا حق نہیں ہے ۔ یہ مسلک سعید بن المسیب ، سلیمان بن یسار ، عطاء ، شعبی ، اوزاعی ، لیث اور ابو عبید رحمہم اللہ کا ہے ، اور امام شافعی اور امام مالک نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔ لیکن مغنی المحتاج میں امام شافعی کا مسلک اس سے مختلف بیان ہوا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے ۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا ۔ یہ مسلک حسن بصری ، حماد ، ابن ابی لیلیٰ ، عمرو بن دینار ، طاؤس ، اسحاق بن راہویہ ، اور ابو ثور کا ہے ۔ ابن جریر نے حضرت ابن عباس کا بھی یہی مسلک نقل کیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل اور امامیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔ اور مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ تجب سکنٰی لمعتدۃِ طلاقٍ او حاملٍ ولا بائن………… والحائل البائن لا نفقۃ لھا ولا کسوۃ ۔ طلاق کی بنا پر جو عورت عدت گزار رہی ہو اس کے لیے سکونت کا حق واجب ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا نہ ہو ، مگر بائنہ کے لیے واجب نہیں ہے ………… اور غیر حاملہ بائنہ کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ کپڑا ۔ اس مسلک کا استدلال ایک تو قرآن مجید کی اس آیت سے ہے کہ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللہُ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْراً ، تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ بات مطلقہ رجعیہ کے حق ہی میں درست ہو سکتی ہے نہ کہ مبتوتہ کے حق میں ۔ اس لیے مطلقہ کو گھر میں رکھنے کا حکم بھی رجعیہ ہی کے لیے خاص ہے ۔ دوسرا استدلال فاطمہ بنت قیس کی حدیث سے ہے جسے کتب حدیث میں بکثرت صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ یہ فاطمہ بن قیس الفہریہ اولین مہاجرات میں سے تھیں ، بڑی عاقلہ سمجھی جاتی تھیں ، اور حضرت عمر کی شہادت کے موقع پر اصحاب شوریٰ کا اجتماع انہی کے ہاں ہوا تھا ۔ یہ پہلے ابو عمرو بن حفص المحیرۃ المخزُومی کے نکاح میں تھیں ، پھر ان کے شوہر نے ان کو تین طلاقیں دے کر الگ کر دیا ، اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح حضرت اسامہ بن زید سے کیا ۔ ان کا قصہ یہ ہے کہ ان کو شوہر ابو عمرو پہلے ان کو دو طلاق دے چکے تھے ۔ پھر جب حضرت علی کے ساتھ وہ یمن بھیجے گئے تو انہوں نے وہاں سے باقی ماندہ تیسری طلاق بھی ان کو بھیج دی ۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ ابو عمرو ہی نے اپنے رشتہ داروں کو پیغام بھیجا تھا کہ عدت کے زمانے میں ان کو گھر میں رکھیں اور ان کا خرچ برداشت کریں ۔ اور بعض میں یہ ہے کہ انہوں نے خود نفقہ و سکونت کے حق کا مطالبہ کیا تھا ۔ بہر حال جو صورت بھی ہو ، شوہر کے رشتہ داروں نے ان کا حق ماننے سے انکار کر دیا ۔ اس پر یہ دعویٰ لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچیں ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ نہ تمہارے لیے نفقہ ہے نہ سکونت ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انما النفقہ والسکنٰی للمرأۃ علیٰ زوجھا ما کانت لۂ علیھا رجعۃ ، فاذالم یکن لہ علیہا رجعۃ فلا نفقۃ ولا سکنٰی ۔ عورت کا نفقہ اور اس کی سکونت تو شوہر پر اس صورت میں واجب ہے جب کہ شوہر کو اس پر رجوع کا حق ہو ۔ مگر جب رجوع کا حق نہ ہو تو نہ نفقہ ہے نہ سکونت ( مسند احمد ) ۔ طبرانی اور نسائی نے بھی قریب قریب یہی روایت نقل کی ہے اور اس کے آخری الفاظ یہ ہیں فاذا کانت لا تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ فلا نفقۃ ولا سکنٰی ۔ لیکن جب وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو جب تک اس کے سوا کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے تو پھر اس کے لیے نہ نفقہ ہے نہ سکونت ۔ یہ حکم بیان کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پہلے ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا اور بعد میں فرمایا کہ تم ابن ام مکتوم کے ہاں رہو ۔ لیکن اس حدیث کو جن لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ان کے دلائل یہ ہیں: اولاً ، ان کو شوہر کے رشتہ داروں کا گھر چھوڑنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ بہت تیز زبان تھیں اور شوہر کے رشتہ دار ان کی بد مزاجی سے تنگ تھے ۔ سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ ان خاتون نے اپنی حدیث بیان کر کے لوگوں کو فتنے میں ڈال دیا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ زبان دراز تھیں ، اس لیے ان کو ابن ام مکتوم کے ہاں رکھا گیا ( ابو داؤد ) ۔ دوسری روایت میں سعید بن المسیب کا یہ قول منقول ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے رشتہ داروں سے زبان درازی کی تھی اس لیے انہیں اس گھر سے منتقل ہونے کا حکم دیا گیا تھا ( جصاص ) ۔ سلیمان بن یسار کہتے ہیں ان کا گھر سے نکلنا در اصل بد مزاجی کی وجہ سے تھا ( ابو داؤد ) ۔ ثانیاً ، ان کی روایت کو حضرت عمر نے اس زمانے میں رد کر دیا تھا جب بکثرت صحابہ موجود تھے اور اس معاملہ کی پوری تحقیقات ہو سکتی تھی ۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر کو فاطمہ کی یہ حدیث پہنچی تو انہوں نے فرمایا لسنا بتارکی اٰیۃ فی کتاب اللہ و قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لقول امرأۃ لعلھا اوھمت سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول لھا السکنٰی و النفقۃ ۔ ہم کتاب اللہ کی ایک آیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے جسے شاید کچھ وہم ہوا ہے ۔ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ مبتوتہ کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کا بھی ( جصاص ) ۔ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے پاس کوفہ کی مسجد میں بیٹھا تھا ۔ وہاں شعبی نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کا ذکر کیا ۔ اس پر حضرت اسود نے شعبی کو کنکریاں کھینچ ماریں اور کہا کہ حضرت عمر کے زمانے میں جب فاطمہ کی یہ روایت پیش کی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے رد نہیں کر سکتے ، معلوم نہیں اس نے یاد رکھا یا بھول گئی ۔ اس کے لیے نفقہ اور سکونت ہے ، اللہ کا حکم ہے لَا تُخرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُوْتِھِنَّ یہ روایت باختلاف الفاظ مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی اور نسائی میں منقول ہوئی ہے ۔ ثالثاً ، مروان کے زمانہ حکومت میں جن مطلقہ مبتوتہ کے متعلق ایک نزاع چل پڑی تھی ، حضرت عائشہ نے فاطمہ بنت قیس کی روایت پر سخت اعتراضات کیے تھے ۔ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کیا آپ کو فاطمہ کا قصہ معلوم نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا فاطمہ کی حدیث کا ذکر نہ کرو تو اچھا ہے ( بخاری ) بخاری نے دوسری روایت جو نقل کی ہے اس میں حضرت عائشہ کے الفاظ یہ ہیں فاطمہ کو کیا ہو گیا ہے ، وہ خدا سے ڈرتی نہیں؟ تیسری روایت میں حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا فاطمہ کے لیے یہ حدیث بیان کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔ حضرت عروہ ایک اور روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فاطمہ پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا اور کہا وہ دراصل ایک خالی مکان میں تھیں جہاں کوئی مونس نہ تھا اس لیے ان کی سلامتی کی خاطر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو گھر بدل دینے کی ہدایت فرمائی تھی ۔ رابعاً ، ان خاتون کا نکاح بعد میں اسامہ بن زید سے ہوا تھا ، اور محمد بن اسامہ کہتے ہیں کہ جب کبھی فاطمہ اس حدیث کا ذکر کرتیں میرے والد ، جو چیز بھی ان کے ہاتھ لگتی اٹھا کر ان پر دے مارتے تھے ( جصاص ) ۔ ظاہر ہے کہ حضرت اسامہ کے علم میں سنت اس کے خلاف نہ ہوتی تو وہ اس حدیث کی روایت پر اتنی ناراضی کا اظہار نہیں کر سکتے تھے ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :17 یہ امر متفق علیہ ہے کہ مطلقہ ، خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ ، اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار شوہر ہے ۔ البتہ اختلاف اس صورت میں ہے جبکہ حاملہ کا شوہر مرگیا ہو ، قطع نظر اس سے کہ وہ طلاق دینے کے بعد مرا ہو ، یا اس نے کوئی طلاق نہ دی ہو اور عورت زمانہ حمل میں بیوہ ہوگئی ہو ۔ اس معاملہ میں فقہاء کے مسالک یہ ہیں: 1 ) ۔ حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے کہ شوہر کے مجموعی ترکہ میں اس کا نفقہ واجب ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ، قاضی شریح ، ابو العالیہ ، شعبی اور ابراہیم نخعی سے بھی یہی قول منقول ہے ، اور حضرت عبد اللہ بن عباس کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے ( آلوسی ۔ جصاص ) ۔ 2 ) ۔ ابن جریر نے حضرت عبد اللہ بن عباس کا دوسرا قول یہ نقل کیا ہے کہ اس پر اس کے پیٹ کے بچہ کے حصے میں سے خرچ کیا جائے اگر میت نے کوئی میراث چھوڑی ہو ۔ اور اگر میراث نہ چھوڑی ہو تو میت کے وارثوں کو اس پر خرچ کرنا چاہیے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ( البقرہ ، آیت 233 ) ۔ 3 ) ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت عبداللہ بن الزبیر ، حضرت حسن نصری ، حضرت سعید بن المُسَیَّب اور حضرت عطاء بن ابی رَباح کہتے ہیں کہ متوفیٰ شوہر کے مال میں اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی ایک تیسرا قول یہی منقول ہوا ہے ( جصاص ) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے ترکہ میں سے اس کو جو میراث کا حصہ ملا ہو اس سے وہ اپنا خرچ پورا کر سکتی ہے ، لیکن شوہر کے مجموعی ترکے پر اس کا نفقہ عائد نہیں ہوتا جس کا بار تمام وارثوں پر پڑے ۔ 4 ) ۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ اس کا نفقہ متوفی شوہر کے مال میں اسی طرح واجب ہے جس طرح اس کے مال میں کسی کا قرض واجب ہوتا ہے ( جصاص ) ۔ یعنی مجموعی ترکہ میں سے جس طرح قرض ادا کیا جاتا ہے اسی طرح اس کا نفقہ بھی ادا کیا جائے ۔ 5 ) ۔ امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام زُفر کہتے ہیں کہ میت کے مال میں اس کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا ۔ کیونکہ موت کے بعد میت کی کوئی ملکیت ہی نہیں ہے ۔ اس کے بعد تو وہ وارثوں کا مال ہے ۔ ان کے مال میں حاملہ بیوہ کا نفقہ کیسے واجب ہو سکتا ہے ( ہدایہ ، جصاص ) ۔ یہی مسلک امام احمد بن حنبل کا ہے ( الانصاف ) ۔ 6 ) ۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ، البتہ اسے سکونت کا حق ہے ( مُغنی المحتاج ) ۔ ان کا اسدلال حضرت ابو سعید خدری کی بہن فریعہ بنت مالک کے اس واقعہ سے ہے کہ ان کے شوہر جب قتل کر دیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو حکم دیا کہ شوہر کے گھر ہی میں عدت گزاریں ( ابو داؤد ، نسائی ، ترمذی ) ۔ مزید برآں ان کا استدلال دارقُطنی کی اس روایت سے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: للحامل المتوفی عنھا زوجھا نفقۃ ۔ بیوہ حاملہ کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ۔ یہی مسلک امام مالک کا بھی ہے ( حاشیۃ الد سوقی ) ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :18 اس ارشاد سے کئی اہم باتیں معلوم ہوئیں ۔ ایک یہ کہ عورت اپنے دودھ کی مالک ہے ، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ اس کی اجرت لینے کی مجاز نہیں ہو سکتی تھی ۔ دوسرے یہ کہ جب وہ وضع حمل ہوتے ہی اپنے سابق شوہر کے نکاح سے باہر ہو گئی تو بچے کو دودھ پلائے گی ور اس پر اجرت لینے کی حق دار ہو گی ۔ تیسرے یہ کہ باپ بھی قانوناً مجبور نہیں ہے کہ بچے کی ماں ہی سے اس کو دودھ پلوائے ۔ چوتھے یہ کہ بچے کا نفقہ باپ پر عائد ہوتا ہے ۔ پانچویں یہ کہ بچے کو دودھ پلانے کی اولین حق دار ماں ہے اور دوسری عورت سے رضاعت کا کام اسی صورت میں لیا جاسکتا ہے جبکہ ماں خود اس پر راضی نہ ہو ، یا اس کی اجرت مانگے جس کا ادا کرنا باپ کی مقدرت میں نہ ہو ۔ اسی سے چھٹا قاعدہ یہ نکلتا ہے کہ اگر دوسری عورت کو بھی وہی اجرت دینی پڑے جو بچے کی ماں مانگتی ہو تو ماں کا حق اولیٰ ہے ۔ فقہاء کی آراء اس مسئلے میں یہ ہیں: ضحاک کہتے ہیں کہ بچے کی ماں اسے دودھ پلانے کی زیادہ حق دار ہے ۔ مگر اسے اختیار ہے کہ چاہے دودھ پلائے یا نہ پلائے ۔ البتہ اگر بچہ دوسری عورت کی چھاتی قبول نہ کرے تو ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا ۔ اسی سے ملتی جلتی رائے قتادہ اور ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری کی ہے ۔ ابراہیم نخعی یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر دوسرے عورت رضاعت کے لیے نہ مل رہی ہو تب بھی ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا’‘ ( ابن جریر ) ۔ ہدایہ میں ہے ، اگر ماں باپ کی علیٰحدگی کے وقت چھوٹا بچہ دودھ پیتا ہو تو ماں پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہی اسے دودھ پلائے ۔ البتہ اگر دوسری عورت نہ ملتی ہو تو وہ رضاعت پر مجبور کی جائے گی ۔ اور اگر باپ یہ کہے کہ میں بچے کی ماں کو اجرت دے کر اس سے دودھ پلوانے کے بجائے دوسری عورت سے اجرت پر یہ کام لوں گا ، اور ماں دوسری عورت ہی کے برابر اجرت مانگ رہی ہو ، یا بلا اجرت ہی اس خدمت کے لیے راضی ہو ، تو اس صورت میں ماں کا حق مقدم رکھا جائے گا ۔ اور اگر بچے کی ماں زیادہ اُجرت مانگ رہی ہو تو باپ کو اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :19 اس میں ماں اور باپ دونوں کے لیے عتاب کا ایک پہلو ہے ۔ انداز بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی تلخیوں کی بنا پر ، جن کے باعث بالآخر طلاق تک نوبت پہنچی تھی ، دونوں بھلے طریقہ سے آپس میں بچے کی رضاعت کا معاملہ طے نہ کریں تو یہ اللہ کو پسند نہیں ہے ۔ عورت کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تو زیادہ اجرت مانگ کر مرد کو تنگ کرنے کی کوشش کرے گی تو بچے کی پرورش کچھ تیرے ہی اوپر موقوف نہیں ہے ، کوئی دوسری عورت اسے دودھ پلالے گی ۔ اور مرد کو بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تو ماں کی مامتا سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے تنگ کرنا چاہے گا تو یہ بھلے آدمیوں کا سا کام نہ ہو گا ۔ قریب قریب یہی مضمون سورہ بقرہ ، آیت 233 میں زیادہ تفصیل کے ساتھ ارشاد ہوا ہے ۔
طلاق کے بعد بھی سلوک کی ہدایت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ جب ان میں سے کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے تو عدت کے گذر جانے تک اس کے رہنے سہنے کو اپنا مکان دے ، یہ جگہ اپنی طاقت کے مطابق ہے یہاں تک کہ حضرت فتادہ فرماتے ہیں اگر زیادہ وسعت نہ ہو تو اپنے ہی مکان کا ایک کو نہ اسے دے دے ، اسے تکلیفیں پہنچا کر اس قدر تنگ نہ کرو کہ وہ مکان چھوڑ کرچلی جائے یا تم سے چھوٹنے کے لئے اپنا حق مہر چھوڑ دے یا اس طرح کہ طلاق دی دیکھا کہ وہ ایک روز عدت کے رہ گئے ہیں رجوع کا اعلان کر دیا پھر طلاق دے دی اور عدت کے ختم ہونے کے قریب رجعت کر لی تاکہ نہ وہ بیچاری سہاگن رہے نہ رانڈ ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر طلاق والی عورت حمل سے ہو تو بچہ ہونے تک اس کا نان نفقہ اس کے خاوند کے ذمہ ہے ، اکثر علماء کا فرمان ہے کہ یہ خصا ان عورتوں کے لئے بیان ہو رہا ہے جنہیں آخری طلاق دے دی گئی ہو جس سے رجوع کرنے کا حق ان کے خاوندوں کو نہ ہرا ہو اس لئے کہ جن سے رجوع ہو سکتا ہے ان کی عدت تک کا خرچ تو خاوند کے ذمہ ہے ہی وہ حمل سے ہوں تب اور بےحمل ہوں تو بھی اور حضرات علماء فرماتے ہیں یہ حکم بھی انہیں عورتوں کا بیان ہو رہا ہے جن سے رجعت کا حق حاصل ہے کیونکہ اوپر بھی انہی کا بیان تھا اسے الگ اس لئے بیان کر دیا کہ عموماً حمل کی مدت لمبی ہوتی ہے اس لمحے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ عدت کے زمانے جتنا نفقہ تو ہمارے ذمہ ہے پھر نہیں اس لئے صاف طور پر فرما دیا کہ رجعت والی طلاق کے وقت اگر عورت حمل سے ہو تو جب تک بچہ نہ ہو اس کا کھلانا پلانا خاوند کے ذمہ ہے ۔ پھر اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے کہ خرچ اس کے لئے حمل کے واسطے سے ہے یا حمل کے لئے ہے ، امام شافعی وغیرہ سے دونوں قول مروی ہیں اور اس بناء پر بہت سے فروعی مسائل میں بھی اختلاف رونما ہوا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جب یہ مطلقہ عورتیں حمل سے فارو ہو جائیں تو اگر تمہاری اولاد کو وہ دودھ پلائیں تو تمہیں ان کی دودھ پلائی دینی چاہئے ۔ ہاں عورت کو اختیار ہے خواہ دودھ پلائے یا نہ پلائے لیکن اول دفعہ کا دودھ اسے ضرور پلانا چاہئے گو پھر دودھ نہ پلائے کیونکہ عموماً بچہ کی زندگی اس دودھ کے ساتھ وابستہ ہے اگر وہ بعد میں بھی دودھ پلاتی رہے تو ماں باپ کے درمیان جو اجرت طے ہو جائے وہ ادا کرنی چاہئے ، تم میں آپس میں جو کام ہوں وہ بھلائی کے ساتھ باقاعدہ دستور کے مطابق ہونے چاہئیں نہ اس کے نقصان کے درپے رہے نہ وہ اسے ایذاء پہنچانے کی کوشش کرے ، جیسے سورہ بقرہ میں فرمایا ( ترجمہ ) یعنی بچہ کے بارے میں نہ اس کی ماں کو ضرور پہنچایا جائے نہ اس کے باپ کو ۔ پھر فرماتا ہے اگر آپس میں اختلاف بڑھ جائے مثلاً لڑکے کا باپ کم دینا چاہتا ہے اور اس کی ماں کو منظور نہیں یا ماں زائد مانگتی ہے جو باپ پر گراں ہے اور موافقت نہیں ہو سکتی دونوں کسی بات پر رضامند نہیں ہوتے تو اختیار ہے کہ کسی اور دایہ کو دیں ہاں جو اور دایہ کو دیا جانا منظور کیا جاتا ہے اگر اسی پر اس بچہ کی ماں رضامند ہو جائے تو زیادہ مستحق یہی ہے ، پھر فرماتا ہے کہ بچے کا باپ یا ولی جو و اسے چاہئے کہ بچے پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے ، تنگی والا اپنی طاقت کے مطابق دے ، طاقت سے بڑھ کر تکلیف کسی کو اللہ نہیں دیتا ، تفسیر ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابو عبیدہ کی بابت حضرت عمر نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ مٹوا کپڑا پہنتے ہیں اور ہلکی غذا کھاتے ہیں آپ نے حکم دیا کہ انہیں ایک ہزار دینار بھجوا دو اور جس کے ہاتھ بھجوائے ان سے کہہ دیا کہ دیکھنا وہ ان دیناروں کو پا کر کیا کرتے ہیں؟ جب یہ اشرفیاں انہیں مل گئیں تو انہوں نے باریک کپڑے پہننے اور نہایت نفیس غذائیں کھانی شروع کر دیں ، قاصد نے واپس آ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے واقعہ بیان کیا آپ نے فرمایا اللہ اس پر رحم کرے اس نے اس آیت پر عمل کیا کہ کشادگی والا اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرے اور تنگی و ترشی والا اپنی حالت کے موافق ، طبرانی کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی شخص کے پاس دس دینار تھے اس نے ان میں سے ایک راہ اللہ صدقہ کیا دوسرے کے پاس دس اوقیہ تھے اس نے اس میں سے ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم خرچ کئے تیسرے کے پاس سو اوقیہ تھے جس میں سے اس نے اللہ کے نام پر دس اوقیہ خرچ کئے تو یہ سب اجر میں اللہ کے نزدیک برابر ہیں اس لئے کہ ہر ایک نے اپنے مال کا دسواں حصہ فی سبیل اللہ دیا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ سچا وعدہ دیتا ہے کہ وہ تنگی کے بعد آسانی کر دے گا جیسے اور جگہ فرمایا ( ترجمہ ) تحقیق کے ساتھ آسانی ہے ، مسند احمد کی حدیث اس جگہ وارد کرنے کے قبال ہے جس میں ہے کہ حضرت ابو ریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگلے زمانہ میں ایک میاں بیوی تھے جو فقر و فاقہ سے اپنی زندگی گذار رہے تھے پاس کچھ بھی نہ تھا ایک مرتبہ یہ شخص سفر سے آیا اور سخت بھوکا تھا بھوک کے مارے بیتاب تھا آتے ہی اپنی بیوی سے پوچھا کچھ کھانے کو ہے؟ اس نے کہا آپ خوش ہو جایئے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی روزی ہمارے ہاں آ پہنچی ہے اس نے کہا پھر لاؤ جو کچھ ہو دے دو میں بہت بھوکا ہوں ۔ بیوی نے کہا اور ذرا سی دیر صبر کر لو اللہ کی رحمت سے ہمیں بہت کچھ امید ہے پھر جب کچھ دیر اور ہو گئی اس نے بیتاب ہو کر کہا جو کچھ تمہارے پاس ہے دیتی کیوں نہیں؟ مجھے تو بھوک سے سخت تکلیف ہو رہی ہے بیوی نے کہا اتنی جلدی کیوں کرتے ہو؟ اب تنور کھولتی ہوں ، تھوڑی ڈیر گذرنے کے بعد جب بیوی نے دیکھا کہ یہ اب پھر تقاضہ کرنا چاہتے ہیں تو خود بخود کہنے لگیں اب اٹھ کر تنور کو دیکھتی ہوں اٹھ کر جو دیکھتی ہیں تو قدرت اللہ سے ان کے توکل کے بدلے وہ بکری کے پہلو کے گوشت سے بھرا ہوا ہے دیکھتی ہیں کہ گھر کی دونوں چکیاں از خود چل رہی ہیں اور برابر آٹا نکل رہا ہے انہو نے تنور میں سے سب گوشت نکال لیا اور چکیوں میں سارا آٹا اٹھا لیا اور جھاڑ دیں حضرت ابو ہریرہ قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر وہ صرف آٹا لے لیتیں اور چکی نہ جھاڑتیں تو وہ قیامت تک چلتی رہتیں اور روایت میں ہے کہ ایک شخص اپنے گھر پہنچا دیکھا کہ بھوک کے مارے گھر والوں کا برا حال ہے آپ جنگل کی طرف نکل کھڑے ہوئے یہاں ان کی نیک بخت بیوی صاحبہ نے جب دیکھا کہ میاں بھی پریشان حال ہیں اور یہ منظر دیکھ نہیں سکے اور چل دیئے تو چکی کو ٹھیک ٹھاک کیا تنور سلگایا اور الله تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں اے اللہ ہمیں روزی دے دعا کر کے اٹھیں تو دیکھا کہ ہنڈیا گوشت سے پر ہے تنور میں روٹیاں لگ رہی ہیں اور چکی سے برابر آٹا ابلا چلا آتا ہے اتنے میں میاں بھی تشریف لائے پوچھا کہ میرے بعد تمہیں کچھ ملا ؟ بیوی صاحبہ نے کہا ہاں ہمارے رب نے ہمیں بہت کچھ عطا فرما دیا اس نے جا کر چکی کے دوسرے پاٹ کو اٹھا لیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان ہو تو آپ نے فرمایا اگر وہ اسے نہ اٹھاتا تو قیامت تک یہ چکی چلتی ہی رہتی ۔