Surah

Information

Surah # 66 | Verses: 12 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 107 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ تَوۡبَةً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰى رَبُّكُمۡ اَنۡ يُّكَفِّرَ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَيُدۡخِلَـكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ ۙ يَوۡمَ لَا يُخۡزِى اللّٰهُ النَّبِىَّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ‌ ۚ نُوۡرُهُمۡ يَسۡعٰى بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَبِاَيۡمَانِهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَ تۡمِمۡ لَـنَا نُوۡرَنَا وَاغۡفِرۡ لَـنَا‌ ۚ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿8﴾
اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ جس دن اللہ تعالٰی نبی کو اور ایمان داروں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا ۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہرچیز پر قادر ہے ۔
يايها الذين امنوا توبوا الى الله توبة نصوحا عسى ربكم ان يكفر عنكم سياتكم و يدخلكم جنت تجري من تحتها الانهر يوم لا يخزي الله النبي و الذين امنوا معه نورهم يسعى بين ايديهم و بايمانهم يقولون ربنا اتمم لنا نورنا و اغفر لنا انك على كل شيء قدير
O you who have believed, repent to Allah with sincere repentance. Perhaps your Lord will remove from you your misdeeds and admit you into gardens beneath which rivers flow [on] the Day when Allah will not disgrace the Prophet and those who believed with him. Their light will proceed before them and on their right; they will say, "Our Lord, perfect for us our light and forgive us. Indeed, You are over all things competent."
Aey eman walo! Tum Allah kay samney sachi khalis tauba kero. Qareeb hai kay tumhara rab tumharay gunah door kerday aur tumhen aisi jannaton mein dakhil keray jin kay neechay nehren jari hain. Jiss din Allah Taalaa nabi ko aur eman daron ko jo inn kay sath hain ruswa na keray ga. Inn ka noor inn kay samney aur inn kay dayen dor raha hoga. Yeh duayen kertay hongay aey humaray rab humen kaamil noor ata farma aur humen bakhsh dey yaqeenan tu her cheez per qadir hai.
اے ایمان والو ! اللہ کے حضور سچی توبہ کرو ، کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہاری برائیاں تم سے جھاڑ دے ، اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کردے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، اس دن جب اللہ نبی کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو رسوا نہیں کرے گا ۔ ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرف دوڑ رہا ہوگا ۔ ( ٨ ) وہ کہہ رہے ہوں گے کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمارے لیے اس نور کو مکمل کردیجیے ( ٩ ) اور ہماری مغفرت فرما دیجیے ۔ یقینا آپ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں ۔
اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے ( ف۲۲ ) قریب ہے تمہارا رب ( ف۲۳ ) تمہاری برائیاں تم سے اتار دے اور تمہیں باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں بہیں جس دن اللہ رسوا نہ کرے گا نبی اور ان کے ساتھ کے ایمان والوں کو ( ف۲٤ ) ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے آگے اور ان کے دہنے ( ف۲۵ ) عرض کریں گے ، اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے ( ف۲٦ ) اور ہمیں بخش دے ، بیشک تجھے ہر چیز پر قدرت ہے ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے توبہ کرو ، خالص توبہ19 ، بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں 20گی ۔ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہ کرے21 گا ۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ، ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہم سے درگزر فرما ، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے22 ۔
اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کر لو ، یقین ہے کہ تمہارا رب تم سے تمہاری خطائیں دفع فرما دے گا اور تمہیں بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں جس دن اللہ ( اپنے ) نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اور اُن اہلِ ایمان کو جو اُن کی ( ظاہری یا باطنی ) معیّت میں ہیں رسوا نہیں کرے گا ، اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کے دائیں طرف ( روشنی دیتا ہوا ) تیزی سے چل رہا ہوگا ، وہ عرض کرتے ہوں گے: اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لئے مکمل فرما دے اور ہماری مغفرت فرما دے ، بیشک تو ہر چیز پر بڑا قادر ہے
سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :19 اصل میں توبۃً نصوحاً کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ نصح کے معنی عربی زبان میں خلوص اور خیر خواہی کے ہیں ۔ خالص شہد کو عسل ناصح کہتے ہیں جس کو موم اور دوسری آلائشوں سے پاک کر دیا گیا ہو ۔ پھٹے ہوئے کپڑے کو سی دینے اور ادھڑے ہوئے کپڑے کی مرمت کر دینے کے لیے نصاحۃ الثوب کا لفاظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ پس توجہ کو نصوح کہنے کا مطلب لغت کے اعتبار سے یا تو یہ ہو گا کہ آدمی ایسی خالص توجہ کرے جس میں ریاء اور نفاق کا شائبہ تک نہ ہو ۔ یا یہ کہ آدمی خود اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہی کرے اور گناہ سے توبہ کر کے اپنے آپ کو بد انجامی سے بچا لے ۔ یا یہ کہ گناہ سے اس کے دین میں جو شگاف پڑ گیا ہے ، توبہ کے ذریعہ سے اس کی اصلاح کر دے ۔ یا یہ کہ توبہ کر کے وہ اپنی زندگی کو اتنا سوار لے کہ دوسروں کے لیے وہ نصیحت کا موجب ہو اور اسکی مثال کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسی کی طرح اپنی اصلاح کرلیں ۔ یہ تو ہیں توبہ نصوح کے وہ مفہومات جو اس کے لغوی معنوں سے مترشح ہوتے ہیں ۔ رہا اسی کا شرعی مفہوم تو اس کی تشریح ہمیں اس حدیث میں ملتی ہے جو ابن ابی حاتم نے زر بن حبیش کے واسطے سے نقل کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب سے توجہ نصوح کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ سے یہی سوال کیا تھا آپ نے فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہو جائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو ، پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو ۔ یہی مطلب حضرت عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے ، اور ایک روایت میں حضرت عمر نے توبہ نصوح کی تعریف یہ بیان کی ہے کہ توبہ کے بعد آدمی کا اعادہ تو درکنار ، اس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے ۔ ( ابن جریر ) ۔ حضرت علی نے ایک مرتبہ ایک بدو کو جلدی جلدی توبہ و استغفار کے الفاظ زبان سے ادا کرتے سنا تو فرمایا یہ توبۃ الکذابین ہے ۔ اس نے پوچھا پھر صحیح توبہ کیا ہے؟ فرمایا اس کے ساتھ چھ چیزیں ہونی چاہیں ( 1 ) جو کچھ ہو چکا ہے اس پر نادم ہو ۔ ( 2 ) اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو ان کو ادا کر ۔ ( 3 ) جس کا حق مارا ہو اس کو واپس کر ۔ ( 4 ) جس کو تکلیف پہنچائی ہو اس سے معافی مانگ ۔ ( 5 ) آئندہ کے لیے عزم کر لے کہ اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا ۔ اور ( 6 ) اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں گھلا دے جس طرح تو نے اب تک اسے معصیت کا خوگر بنائے رکھا ہے اور اس کو طاعت کی تلخی کا مزا چکھا جس طرح اب تک تو اسے معصیتوں کی حلاوت کا مزا چکھاتا رہا ہے ۔ ( کشاف ) توبہ کے سلسلہ میں چند امور اور بھی ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ اول یہ کہ توبہ درحقیقت کسی معصیت پر اس لیے نادم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی ہے ۔ ورنہ کسی گناہ سے اس لیے پرہیز کا عہد کر لینا کہ وہ مثلاً صحت کے لیے نقصان دہ ہے ، یاکسی بدنامی کا ، یا مالی نقصان کا موجب ہے ، توبہ کی تعریف میں نہیں آتا ۔ دوسرے یہ کہ جس وقت آدمی کو احساس ہو جائے کہ اس سے اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے ، اسی وقت اسے توبہ کرنی چاہیے اور جس شکل میں بھی ممکن ہو بلا تاخیر اس کی تلافی کر دینی چاہیے ، اسے ٹالنا مناسب نہیں ہے ۔ تیسرے یہ کہ توبہ کر کے بار بار اسے توڑتے چلے جانا اور توبہ کو کھیل بنا لینا اور اسی گناہ کا بار بار اعادہ کرنا جس سے توبہ کی گئی ہو ، توبہ کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے ، کیونکہ توبہ کی اصل روح گناہ پر شرمساری ہے ، اور بار بار کی توبہ شکنی اس بات کی علامت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شرمساری موجود نہیں ہے ۔ چوتھے یہ کہ جو شخص سچے دل سے توبہ کر کے یہ عزم کر چکا ہو کہ پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا ، اس سے اگر بشری کمزوری کی بنا پر اسی گناہ کا اعادہ ہو جائے تو پچھلا گناہ تازہ نہ ہو گا البتہ اسے بعد والے گناہ پر پھر توبہ کرنی چاہیے اور زیادہ سختی کے ساتھ عزم کرنا چاہیے کہ آئندہ وہ توبہ شکنی کا مرتکب نہ ہو ۔ پانچویں یہ کہ ہر مرتبہ جب معصیت یاد آئے ، توبہ کی تجدید کرنا لازم نہیں ہے ، لیکن اگر اس کا نفس اپنی سابق گناہ گارانہ زندگی کی یاد سے لطف لے رہا ہو تو بار بار توبہ کرنی چاہیے یہاں تک کہ گناہوں کی یاد اس کے لیے لذت کے بجائے شرمساری کی موجب بن جائے ۔ اس لیے جس شخص نے فی الواقع خدا کے خوف کی بنا پر معصیت سے توجہ کی ہو وہ اس خیال سے لذت نہیں لے سکتا کہ وہ خدا کی نافرمانی کرتا رہا ہے ۔ اس سے لذت لینا اس بات کی علامت ہے کہ خدا کے خوف نے اس کے دل میں جڑ نہیں پکڑی ہے ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :20 آیت کے الفاظ قابل غور ہیں ۔ یہ نہیں فرمایا گیا کہ توبہ کر لو تو تمہیں ضرور معاف کر دیا جائے گا اور لازماً تم جنت میں داخل کر دیے جاؤ گے ، بلکہ یہ امید دلائی گئی ہے کہ اگر تم سچے دل سے توبہ کرو گے تو بعید نہیں کہ اللہ تمہارے ساتھ یہ معاملہ کرے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ گناہ گار کی توبہ قبول کر لینا اور اسے سزا دینے کے بجائے جنت عطا فرما دینا اللہ پر واجب نہیں ہے ، بلکہ یہ سراسر اس کی عنایت و مہربانی ہو گی کہ وہ معاف بھی کرے اور انعام بھی دے ۔ بندے کو اس سے معافی کی ا مید تو ضرور رکھنی چاہیے مگر اس بھروسے پر گناہ نہیں کرنا چاہیے کہ توبہ سے معافی مل جائے گی ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :21 یعنی ان کے اعمال حسنہ کا اجر ضائع نہ کر ےگا کفار و منافقین کو یہ کہنے کا موقع ہرگز نہ دے گا کہ ان لوگوں نے خدا پرستی بھی کی تو اس کا کیا صلہ پایا ۔ رسوائی باغیوں اور نافرمانوں کے حصے میں آئے گی نہ کہ وفاداروں اور فرماں برداروں کے حصے میں ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :22 اس آیت کو سورہ حدید کی آیات 12 ۔ 13 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل ایمان کے آگے آگے نور کے دوڑنے کی یہ کیفیت اس وقت پیش آئے گی جب وہ میدان حشر سے جنت کی طرف جا رہے ہوں گے ۔ وہاں ہر طرف گھپ اندھیرا ہو گا جس میں وہ سب لوگ ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے جن کے حق میں دوزح کا فیصلہ ہو گا ، اور روشنی صرف اہل ایمان کے ساتھ ہو گی جس کے سہارے وہ اپنا راستہ طے کر رہے ہوں گے ۔ اس نازک موقع پر تاریکیوں میں بھٹکنے والے لوگوں کی آہ و فغاں سن سن کر اہل ایمان پر خشیت کی کیفیت طاری ہو رہی ہو گی ، اپنے قصوروں اور اپنی کوتاہیوں کا احساس کر کے انہیں اندیشہ لاحق ہو گا کہ کہیں ہمارا نور بھی نہ چھن جائے اور ہم ان بدبختوں کی طرح ٹھوکریں کھاتے نہ رہ جائیں ۔ اس لیے وہ دعا کریں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے قصور معاف فرما دے اور ہمارے نور کو جنت میں پہنچنے تک ہمارے لیے باقی رکھ ۔ ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ : ربنا اتمم لنا نورنا کے معنی یہ ہیں کہ: وہ اللہ تعالی سے دعا کریں گے کہ ان کا نور اس وقت تک باقی رکھا جائے اور اسے بجھنے نہ دیا جائے جب تک وہ پل صراط سے بخریت نہ گزر جائیں ۔ حضرت حسن بصری اور مجاہد اور ضحاک کی تفسیر بھی قریب قریب یہی ہے ۔ ابن کثیر نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے اہل ایمان جب دیکھیں گے کہ منافقین نور سے محروم رہ گئے ہیں تو وہ اپنے حق میں اللہ سے تکمیل نور کی دعا کریں گے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، الحدید ، حاشیہ 17 ) ۔