Surah

Information

Surah # 66 | Verses: 12 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 107 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ جَاهِدِ الۡكُفَّارَ وَالۡمُنٰفِقِيۡنَ وَاغۡلُظۡ عَلَيۡهِمۡ‌ؕ وَمَاۡوٰٮهُمۡ جَهَنَّمُ‌ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿9﴾
اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے ۔
يايها النبي جاهد الكفار و المنفقين و اغلظ عليهم و ماوىهم جهنم و بس المصير
O Prophet, strive against the disbelievers and the hypocrites and be harsh upon them. And their refuge is Hell, and wretched is the destination.
Aey nabi! Kafiron aur munafiqon say jihad kero aur inn per sakhti kero inn kay thikana jahannum hai aur woh boht buri jagah hai.
اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو ( ١٠ ) اور ان کے مقابلے میں سخت ہوجاؤ ۔ اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے ۔
اے غیب بتانے والے! ( نبی ) ( ف۲۷ ) کافروں پر اور منافقوں پر ( ف۲۸ ) جہاد کرو اور ان پر سختی فرماؤ ، اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے ، اور کیا ہی برا انجام ،
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ 23 ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے ۔
اے نبئ ( مکرّم! ) آپ کافروں اور منافقوں سے جہاد کیجئے اور اُن پر سختی فرمائیے ، اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے ، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے
سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :23 تشریح کےلیےملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، التوبہ ، حاشیہ 82 ۔
تحفظ قانون کے لئے حکم جہاد اللہ تعالیٰ اپنے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ کافروں سے جہاد کر ہتھیاروں کے ساتھ اور منافقوں سے جہاد کر حدود اللہ جاری کرنے کے ساتھ ، ان پر دنیا میں سختی کرو ، آخرت میں بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بدترین باز گشت ہے ، پھر مثال دے کر سمجھایا کہ کافروں کا مسلمانوں سے ملنا جلنا خلط ملط رہنا انہیں ان کے کفر کے باوجود اللہ کے ہاں کچھ نفع نہیں دے سکتا ، دیکھو دو پیغمبروں کی عورتیں حضرت نوح علیہ السلام کی اور حضرت لوط علیہ السلام کی جو ہر وقت ان نبیوں کی صحبت میں رہنے والی اور دن رات ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی اور ساتھ ہی کھانے پینے بلکہ سونے جاگنے والی تھیں ، لیکن چونکہ ایمان میں ان کی ساتھی نہ تھیں اور اپنے کفر پر قائم تھیں ، پس پیغمبروں کی آٹھ پہر کی صحبت انہیں کچھ کام نہ ئی ، انبیاء اللہ انہیں آخروی نفع نہ پہنچا سکے اور نہ آخروی نقصان سے بچا سکے ، بلکہ ان عورتوں کو بھی دوزخیوں کے ساتھ جہنم میں جانے کو کہہ دیا گیا ۔ یہ یاد رہے کہ خیانت کرنے سے مراد بدکاری نہیں ، انبیاء علیہم السلام کی حرمت و عصمت اس سے بہت اعلیٰ اور بالا ہے کہ ان کی گھر والیاں فاحشہ ہوں ، ہم اس کا پورا بیان سورہ نور کی تفسیر میں کر چکے ہیں ، بلکہ یہاں داد خیانت فی الدین یعنی دین میں اپنے خاوندوں کی خیانت کی ان کا ساتھ نہ دیا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ان کی خیانت زنا کاری نہتھی بلک ہیہ تھی کہ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی تو لوگوں سے کہا کرتی تھی کہ یہ مجنوں ہیں اور لوط علیہ السلام کی بیوی جو مہمان حضرت لوط کے ہاں آتے تو کافروں کو خبر کر دیتی تھیں ، یہ دونوں بد دین تھیں نوح علیہ السلام کی راز داری اور پوشیدہ طور پر ایمان لانے والوں کے نام کافروں پر ظاہر کر دیا کرتی تھیں ، اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی اپنے خاوند اللہ کے رسول علیہ السلام کی مخالف تھیں اور جو لوگ آپ کے ہاں مہمان بن کر ٹھہرتے یہ جا کر اپنی کافر قوم کو خبر کر دیتی جنہیں بد عمل کی عادت تھی ، بلکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کسی پیغمبر کی کسی عورت نے کبھی بدکاری نہیں کی ، اسی طرح حضرت عکرمہ حضرت سعید بن جیر حضرت ضحاک وغیرہ سے بھی مروی ہے ، اس سے استدلال کر کے بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ جو عام لوگوں میں مشہور ہے کہ حدیث میں ہے جو شخص کسی ایسے کے ساتھ کھائے جو بخشا ہوا ہو اسے بھی بخش دیا جاتا ہے ، یہ حدیث بالکل ضعیف ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ حدیث محض بے اصل ہے ، ہاں ایک بزرگ سے مروی ہے کہ انہوں نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور پوچھا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں لیکن اب میں کہتا ہوں ۔