Surah

Information

Surah # 67 | Verses: 30 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 77 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة الْمُلْک نام : پہلے فقرے تبارک الذی بیدہ الملک کے لفظ اَلمُلک کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : کسی معتبر روایت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کس زمانے میں نازل ہوئی ہے ، مگر مضامین اور انداز بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے ۔ موضوع اور مضمون : اس میں ایک طرف مختصر طریقے سے اسلام کی تعلیمات کا تعارف کرایا گیا ہے اور دوسری طرف بڑے مؤثر انداز میں ان لوگوں کو چونکایا گیا ہے جو غفلت میں پڑے ہوئے تھے ۔ یہ مکۂ معظمہ کی ابتدائی سورتوں کی خصوصیت ہے کہ وہ اسلام کی ساری تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقصد بعثت کو پیش کرتی ہیں ، مگر تفصیل کے ساتھ نہیں بلکہ اختصار کے ساتھ ، تاکہ وہ بتدریج لوگوں کے ذہن نشین ہوتی چلی جائیں ۔ اس کے ساتھ ان میں زیادہ زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی غفلت دور کی جائے ، ان کو سوچنے پر مجبور کیا جائے ، اور ان کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کیا جائے ۔ پہلی پانچ آیتوں میں انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ وہ جس کائنات میں رہتا ہے وہ ایک انتہائی منظم اور محکم سلطنت ہے جس میں ڈھونڈے سے بھی کوئی عیب یا نقص یا خلل تلاش نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سلطنت کو عدم سے وجود میں بھی اللہ تعالیٰ ہی لایا ہے اور اس کی تدبیر و انتظام اور فرمانروائی کے تمام اختیارات بھی بالکلیہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور اس کی قدرت لامحدود ہے ۔ اس کے ساتھ انسان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس انتہائی حکیمانہ نظام میں وہ بے مقصد پیدا نہیں کر دیا گیا ہے بلکہ یہاں اسے امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے اور اس امتحان میں وہ اپنے حسن عمل ہی سے کامیاب ہو سکتا ہے ۔ آیت 6 سے 11 تک کفر کے وہ ہولناک نتائج بیان کیے گئے ہیں جو آحرت میں نکلنے والے ہیں اور لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو بھیج کر تمہیں اس دنیا میں ان نتائج سے خبردار کر دیا ہے ۔ اب اگر یہاں تم انبیاء کی بات مان کر اپنا رویہ درست نہ کرو گے تو آخرت میں تمہیں خود اعتراف کرنا پڑے گا کہ جو سزا تم کو دی جا رہی ہے فی الواقع تم اس کے مستحق ہو ۔ آیت 12 سے 14 تک یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں ہو سکتا ۔ وہ تمہاری ہر کھلی اور چھپی بات ، حتٰی کہ تمہارے دل کے خیالات تک سے واقف ہے ۔ لہٰذا اخلاق کی صحیح بنیاد یہ ہے کہ انسان اس اَن دیکھے خدا کی بازپرس سے ڈر کر برائی سے بچے ، خواہ دنیا میں کوئی طاقت اس پر گرفت کرنے والی ہو یا نہ ہو اور دنیا میں اس سے کسی نقصان کا امکان ہو یا نہ ہو یہ طرز عمل جو لوگ اختیار کریں گے وہی آخرت میں بخشش اور اجر عظیم کے مستحق ہوں گے ۔ آیت 15 سے 23 تک ان پیش پا اُفتادہ حقیقتوں کی طرف ، جنہیں انسان دنیا کے معمولات سمجھ کر قابل توجہ شمار نہیں کرتا ، پے در پے اشارے کر کے ان پر سوچنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ اس زمین کو دیکھو جس پر تم اطمینان سے چل پھر رہے ہو اور جس سے اپنا رزق حاصل کر رہے ہو ۔ خدا ہی نے اسے تمہارے لیے تابع کر رکھا ہے ، ورنہ کسی وقت بھی اس زمین میں ایسا زلزلہ آ سکتا ہے کہ تم پیوند خاک ہو جاؤ ، یا ہوا کا ایسا طوفان آ سکتا ہے جو تمہیں تہس نہس کر کے رکھ دے ۔ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو دیکھو ۔ خدا ہی تو ہے جو انہیں فضا میں تھامے ہوئے ہے ۔ اپنے تمام ذرائع و وسائل پر نگاہ ڈال کر دیکھو ۔ خدا اگر تمہیں عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو کون تمہیں اس سے بچا سکتا ہے اور خدا اگر تمہارے لیے رزق کے دروازے بند کر دے تو کون انہیں کھول سکتا ہے؟ یہ ساری چیزیں تمہیں حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے موجود ہیں ۔ مگر انہیں تم حیوانات کی طرح دیکھتے ہو جو مشاہدات سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، اور اس سماعت و بینائی اور ان سوچنے سمجھنے والے دماغوں سے کام نہیں لیتے جو انسان ہونے کی حیثیت سے خدا نے تمہیں دیے ہیں ۔ اسی وجہ سے راہ راست تمہیں نظر نہیں آتی ۔ آیت 24 سے 27 تک بتایا گیا ہے کہ آخر کار تمہیں لازماً اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے ۔ نبی کا کام یہ نہیں ہے کہ تمہیں اس کے آنے کا وقت اور تاریخ بتائے ۔ اس کا کام بس یہ ہے کہ تمہیں اس آنے والے وقت سے پیشگی خبردار کردے ۔ تم آج اس کی بات نہیں مانتے اور مطالبہ کرتے ہو کہ وہ وقت لا کر تمہیں دکھا دیا جائے ۔ مگر جب وہ آ جائے گا اور تم آنکھوں سے اسے دیکھ لو گے تو ہمارے ہوش اڑ جائیں گے ۔ اس وقت تم سے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ چیز جسے جلد لے آنے کا تم مطالبہ کر رہے تھے ۔ آیت 28 اور 29 میں کفار مکہ کی ان باتوں کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف کرتے تھے ۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کوستے تھے اور آپ کے لیے اور اہل ایمان کے لیے ہلاکت کی دعائیں مانگتے تھے ۔ اس پر فرمایا گیا کہ تمہیں راہ راست کی طرف بلانے والے خواہ ہلاک ہوں یا اللہ ان پر رحم کرے ، اس سے آخر تمہاری قسمت کیسے بدل جائے گی؟ تم اپنی فکر کرو کہ خدا کا عذاب اگر تم پر آ جائے تو کون تمہیں بچائے گا ؟ جو لوگ خدا پر ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے اس پر توکل کیا ہے ، انہیں تم گمراہ سمجھ رہے ہو ۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بات کھل جائے گی کہ حقیقت میں گمراہ کون تھا ۔ آخر میں لوگوں کے سامنے یہ سوال رکھ دیا گیا ہے اور اسی پر سوچنے کے لیے انہیں چھوڑ دیا گیا ہے کہ عرب کے صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں ، جہاں تمہاری زندگی کا سارا انحصار اس پانی پر ہے جو کسی جگہ زمین سے نکل آیا ہے ، وہاں اگر یہ پانی زمین میں اتر کر غائب ہو جائے تو خدا کے سوا کون تمہیں یہ آب حیات لا کر دے سکتا ہے؟
مسند احمد میں بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کریم میں تیس آیتوں کی ایک سورت ہے جو اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرتی رہے گی یہاں تک کہ اسے بخش دیا جائے وہ سورت آیت ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ ۡ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ Ǻ۝ۙ ) 67- الملك:1 ) ، ہے ۔ ابو داؤد ، نسائی ، ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن کہتے ہیں ۔ تاریخ ابن عساکر میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے زمانے کا ایک شخص مر گیا جس کے ساتھ کتاب اللہ میں سوائے سورہ ( تبارک الذی ) کے اور کوئی چیز نہ تھی جب اسے دفن کیا گیا اور فرشتہ اس کے پاس آیا تو یہ سورت اس کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔ فرشتے نے کہا تو کتاب اللہ ہے میں تجھے ناراض کرنا نہیں چاہتا تجھے معلوم ہے کہ تیرے یا اپنے یا اس میت کے کسی نفع نقصان کا مجھے اختیار نہیں اگر تو یہی چاہتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر اس کی سفارش کر چنانچہ یہ سورت اللہ عزوجل کے پاس جائے گی اور کہے گی اللہ تیری کتاب میں سے مجھے فلاں شخص نے سیکھا پڑھا اب کیا تو اسے آگ میں جلائے گا ؟ کیا باوجودیکہ میں اس کے سینے میں محفوظ ہوں تو اسے عذاب کرے گا ؟ اگر یہی کرنا ہے تو مجھے اپنی کتاب میں سے مٹا ڈال اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اس وقت سخت غضبناک ہے ۔ یہ کہے گی مجھے حق ہے کہ میں اپنی ناراضی ظاہر کروں ۔ پس جناب باری کا ارشاد ہو گا کہ جا میں نے اسے تجھے دیا اور تیری سفارش قبول کر لی ۔ اب یہ سورت اس کے پاس آ جائے گی اور عذاب کے فرشتے کو ہٹا دے گی اور اس کے منہ سے اپنا منہ ملا کر کہے گی اس منہ کو مرحبا ہو یہی میری تلاوت کیا کرتا تھا اس سینے کو صد شاباش ہو اس نے مجھے یاد کر رکھا تھا ، ان دونوں قدموں کو مبارکباد ہو ، یہیں کھڑے ہو کر راتوں کو میری قرأت کے ساتھ قیام کیا کرتے تھے اور یہ سورت قبر میں اس کی مونس اور غم خوار بن جائے گی اور کوئی ڈر و دہشت اسے نہیں پہنچنے دے گی اس حدیث کے سنتے ہی تمام چھوٹے ، بڑے ، آزاد اور غلام نے اسے سیکھ لیا اس کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منجیہ رکھا ، یعنی نجات دلوانے والی سورت ، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ حدیث بہت ہی منکر ہے اس کے راوی فرات بن سائب کو امام احمد امام یحییٰ بن معین ، امام بخاری ، امام ابو حاتم ، امام دار قطنی وغیرہ ضعیف کہتے ہیں ، اور دوسری سند سے مروی ہے کہ یہ قول امام زہری کا ہے مرفوع حدیث نہیں ، امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب اثبات عذاب قبر میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث مرفوع بھی بیان کی ہے اور موقوف بھی ۔ اس میں بھی جو مضمون ہے وہ اس کی شہادت میں کام دے سکتا ہے ۔ ہم نے اسے احکام کبریٰ کی کتاب الجنائز میں بیان کیا ہے وللہ الحمد طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قرآن کی ایک سورت ہے جس نے اپنے پڑھنے والے کی طرف سے اللہ سے لڑ جھگڑ کر اسے جنت میں داخل کرایا وہ سورہ تبارک ہے ، ترمذی شریف میں ہے کہ کسی صحابی نے جنگل میں ایک ڈیرا لگایا جہاں ایک قبر بھی تھی لیکن اسے علم نہ تھا اس نے سنا کہ کوئی شخص سورہ ملک پڑھ رہا ہے اور اس نے اسے پورا پڑھا اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا واقعہ بیان کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سورت روکنے والی ہے یہ سورت نجات دلوانے والی ہے جو عذاب قبر سے نجات دلواتی ہے ، یہ حدیث غریب ہے ، ترمذی کی دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سورہ ( الم تنزیل ) ، اور سورہ ( ملك ) ضرور پڑھ لیا کرتے تھے ، حضرت طاؤس کی روایت ہے کہ یہ دونوں سورتیں قرآن کی اور سورتوں پر ستر نیکیاں فضیلت رکھتی ہیں ، طبرانی میں ہے حضور فرماتے ہیں میری دلی منشا ہے کہ یہ سورت میری امت میں سے ہر ایک کے دل میں رہے یعنی سورہ تبارک ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے اور اس کا راوی ابراہیم ضعیف ہے ، اور اسی جیسی روایت سورہ یس کی تفسیر میں گذر چکی ہے ۔ مسند عبد بن حمید میں ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ایک شخص سے کہا آمین تجھے ایک ایسا تحفہ دوں کہ تو خوش ہو جائے ( سورة ملك ) پڑھا کر اور اسے اپنے اہل و عیال کو اولاد کو گھر کے بچوں کو اور پڑوسیوں کو سکھا یہ سورت نجات دلوانے والی اور شفاعت کرنے والی ہے قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کی طرف سے اللہ سے سفارش کرے گی اور اسے عذاب آگ سے بچا لے گی اور عذاب قبر سے بھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں تو چاہتا ہوں کہ میرے ایک ایک امتی کے دل میں یہ ہو ۔