Surah

Information

Surah # 67 | Verses: 30 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 77 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
تَبٰرَكَ الَّذِىۡ بِيَدِهِ الۡمُلۡكُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرُۙ‏ ﴿1﴾
بہت بابرکت ہے وہ ( اللہ ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔
تبرك الذي بيده الملك و هو على كل شيء قدير
Blessed is He in whose hand is dominion, and He is over all things competent -
Boht babarkat hai woh ( Allah ) jiss kay hath mein badshaee hai aur jo her cheez per qudrat rakhnay wala hai.
بڑی شان ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے ۔
بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضہ میں سارا ملک ( ف۲ ) اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ،
نہایت بزرگ و برتر ہے1 وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے2 ، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے3 ۔
وہ ذات نہایت بابرکت ہے جس کے دستِ ( قدرت ) میں ( تمام جہانوں کی ) سلطنت ہے ، اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :1 تبارک برکت سے مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ برکت میں رفعت و عظمت ، افزائش اور فراوانی ، دوام و ثبات اور کثرت خیرات و حسنات کے مفہومات شامل ہیں ۔ اس سے جب مبالغہ کا صیغہ تبارک بنایا جائے تو اسکے معنی ہوتے ہیں کہ وہ بے انتہا بزرگ و عظیم ہے ، اپنی ذات و صفات و افعال میں اپنے سوا ہر ایک سے با لا تر ہے ، بے حدو حساب بھلائیوں کا فیضان اس کی ذات سے ہو رہا ہے ، اور اس کے کمالات لازوال ہیں ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 43 ۔ جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ 14 ۔ الفرقان ، حواشی 19 ) ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :2 الملک کا لفظ چونکہ مطلقاً استعمال ہوا ہے اس لیے اسے کسی محدود معنوں میں نہیں لیا جا سکتا ۔ لا محالہ اس سے مراد تمام موجودات عالم پر شاہانہ اقتدار ہی ہوسکتا ہے ۔ اور اس کےہاتھ میں اقتدار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جسمانی ہاتھ رکھتا ہے ، بلکہ یہ لفظ محاورہ کے طور پر قبضہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عربی کی طرح ہماری زبان میں بھی جب یہ کہتے ہیں کہ اختیارات فلاں کے ہاتھ میں ہیں تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہی سارے اختیارات کا مالک ہے ، کسی دوسرے کا اس میں دخل نہیں ہے ۔ ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :3 یعنی وہ جو کچھ چاہے کر سکتا ہے کوئی چیز اسے عاجز کرنے والی نہیں ہے ۔ کہ وہ کوئی کام کرنا چاہے اور نہ کر سکے ۔
بہتر عمل کی آزمائش کا نام زندگی ہے اللہ تعالیٰ اپنی تعریف بیان فرما رہا ہے اور خبر دے رہا ہے کہ تمام مخلوق پر اسی کا قبضہ ہے جو چاہے کرے ۔ کوئی اس کے احکام کو ٹال نہیں سکتا اس کے غلبہ اور حکمت اور عدل کی وجہ سے اس سے کوئی باز پرس بھی نہیں کر سکتا وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ پھر خود موت و حیات کا پیدا کرنا بیان کر رہا ہے ، اس آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ موت ایک وجودی امر ہے کیونکہ وہ بھی پیدا کردہ شدہ ہے ، آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوق کو عدم سے وجود میں لایا تاکہ اچھے اعمال والوں کا امتحان ہو جائے جیسے اور جگہ ہے آیت ( كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ 28؀ ) 2- البقرة:28 ) ترجمہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو؟ تم تو مردہ تھے پھر اس نے تمہیں زندہ کر دیا ، پس پہلے حال یعنی عدم کو یہاں بھی موت کہا گیا اور اس پیدائش کو حیات کہا گیا اسی لئے اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے آیت ( ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28؀ ) 2- البقرة:28 ) ترجمہ وہ پھر تمہیں مار ڈالے گا اور پھر زندہ کر دے گا ، ابن ابی حاتم میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بنی آدم موت کی ذلت میں تھے ۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے حیات کا گھر بنا دیا پھر موت کا اور آخرت کو جزا کا پھر بقاء کا ۔ لیکن یہی روایت اور جگہ حضرت قتادہ کا اپنا قول ہونا بیان کی گئی ہے ، آزمائش اس امر کی ہے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے؟ اکثر عمل والا نہیں بلکہ بہتر عمل والا ، وہ باوجود غالب اور بلند جناب ہونے کے پھر عاصیوں اور سرتاب لوگوں کے لئے ، جب وہ رجوع کریں اور توبہ کریں معاف کرنے اور بخشنے والا بھی ہے ۔ جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے ایک پر ایک گو بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک پر ایک ملا ہوا ہے لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ درمیان میں جگہ ہے اور ایک دوسرے کے اوپر فاصلہ ہے ، زیادہ صحیح یہی قول ہے ، اور حدیث معراج وغیرہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے ، پروردگار کی مخلوق میں تو کوئی نقصان نہ پائے گا بلکہ تو دیکھے گا کہ وہ برابر ہے ، نہ ہیر پھیر ہے نہ مخلافت اور بےربطی ہے ، نہ نقصان اور عیب اور خلل ہے ۔ اپنی نظر آسمان کی طرف ڈال اور غور سے دیکھ کر کہیں کوئی عیب ٹوٹ پھوٹ جوڑ توڑ شگاف و سوراخ دکھائی دیتا ہے؟ پھر بھی اگر شک رہے تو دو دفعہ دیکھ لے کوئی نقصان نظر نہ آئے گا تو نے خوب نظریں جما کر ٹٹول کر دیکھا ہو پھر بھی ناممکن ہے کہ تجھے کوئی شکست و ریخت نظر آئے تیری نگاہیں تھک کر اور ناکام ہو کر نیچی ہو جائیں گی ۔ نقصان کی نفی کر کے اب کمال کا اثبات ہو رہا ہے تو فرمایا آسمان دنیا کو ہم نے ان قدرتی چراغوں یعنی ستاروں سے بارونق بنا رکھا ہے جن میں بعض چلنے پھرنے والے ہیں اور بعض ایک جا ٹھہرے رہنے والے ہیں ، پھر ان کا ایک اور فائدہ بیان ہو رہا ہے کہ ان سے شیطانوں کو مارا جاتا ہے ان میں سے شعلے نکل کر ان پر گرتے ہیں یہ نہیں کہ خود ستارہ ان پر ٹوٹے واللہ اعلم ۔ شیطین کی دنیا میں یہ رسوائی تو دیکھتے ہی ہو آخرت میں بھی ان کے لئے جلانے والا عذاب ہے ۔ جیسے سورہ صافات کے شروع میں ہے کہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت دی ہے اور سرکش شیطانوں کی حفاظت میں انہیں رکھا ہے ، وہ بلند و بالا فرشتوں کی باتیں سن نہیں سکتے اور چاروں طرف سے حملہ کر کے بھگا دیئے جاتے ہیں اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے اگر کوئی ان میں سے ایک آدھ بات اچک کر لے بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے چمکدار تیز شعلہ لپکتا ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ستارے تین فائدوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ، آسمان کی زینت ، شیطانوں کی مار اور راہ پانے کے نشانات ۔ جس شخص نے اس کے سوا کوئی اور بات تلاش کی اس نے رائے کی پیروی کی اور اپنا صحیح حصہ کھو دیا اور باوجود علم نہ ہونے کی تکلف کیا ( ابن جریر اور ابن ابی حاتم )