اۨلَّذِىۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَالۡحَيٰوةَ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًاؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡغَفُوۡرُۙ ﴿2﴾
جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے ، اور وہ غالب ( اور ) بخشنے والا ہے ۔
الذي خلق الموت و الحيوة ليبلوكم ايكم احسن عملا و هو العزيز الغفور
[He] who created death and life to test you [as to] which of you is best in deed - and He is the Exalted in Might, the Forgiving -
Jiss nay mot aur hayat ko iss liye peda kiya kay tumhen aazmaye kay tum mein say achay kaam kon kerta hai aur woh ghalib ( aur ) bakhshnay wala hai.
جس نے موت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے ، اور وہی ہے جو مکمل اقتدار کا مالک ، بہت بخشنے والا ہے ۔
وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو ( ف۳ ) تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے ( ف٤ ) اور وہی عزت والا بخشش والا ہے ،
جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے4 ، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی5 ۔
جس نے موت اور زندگی کو ( اِس لئے ) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے ، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :4
یعنی دنیا میں انسانوں کے مرنے اور جینے کا یہ سلسلہ اس نے اس لیے شروع کیا ہے کہ ان کا امتحان لے اور یہ دیکھے کہ کس ا نسان کا عمل زیادہ بہتر ہے ۔ اس مختصر سے فقرے میں بہت سی حقیقتوں کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے ۔ اول یہ کہ موت اور حیات اسی کی طرف سے ہے ، کوئی دوسرا زندگی بخشنے والا ہے نہ موت دینے والا ۔ دوسرے یہ کہ انسان جیسی ایک مخلوق ، جسے نیکی اور بدی کرنے کی قدرت عطا کی گئی ہے ، اس کی نہ زندگی بے مقصد ہے نہ موت ۔ خالق نے اسے یہاں امتحان کے لیے پیدا کیا ہے ۔ زندگی اس کے لیے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے امتحان کا وقت ختم ہو گیا ہے ۔ تیسرے یہ کہ اسی امتحان کی غرض سے خالق نے ہر ایک کو عمل کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دنیا میں کام کر کے اپنی اچھائی یا برائی کا ا ظہار کر سکے اور عملاً یہ دکھا دے کہ وہ کیسا انسان ہے ۔ چوتھے یہ کہ خالق ہی دراصل اس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا عمل اچھا ہے اور کس کا برا ۔ لہذا جو بھی امتحان میں کامیاب ہونا چاہے اسے یہ معلوم کرنا ہو گا کہ ممتحن کے نزدیک حسن عمل کیا ہے ۔ پانچواں نکتہ خود امتحان کے مفہوم میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ جس شخص کا جیسا عمل ہو گا اس کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی ، کیونکہ اگر جزا نہ ہو تو سرے سے امتحان لینے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے ۔
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :5
اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ بے انتہا زبردست اور سب پر پوری طرح غالب ہونے کے باوجود اپنی مخلوق کے حق میں رحیم و غفور ہے ، ظالم اور سخت گیر نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ برے عمل کرنے والوں کو سزا دینے کی پوری قدرت رکھتا ہے ، کسی میں یہ طاقت نہیں کہ اس کی سزا سے بچ سکے ۔ مگر جو نادم ہو کر برائی سے باز آجائے اور معافی مانگ لے اس کے ساتھ وہ در گزر کا معاملہ کرنے والا ہے ۔