Surah

Information

Surah # 67 | Verses: 30 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 77 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
اۨلَّذِىۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَالۡحَيٰوةَ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًاؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡغَفُوۡرُۙ‏ ﴿2﴾
جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے ، اور وہ غالب ( اور ) بخشنے والا ہے ۔
الذي خلق الموت و الحيوة ليبلوكم ايكم احسن عملا و هو العزيز الغفور
[He] who created death and life to test you [as to] which of you is best in deed - and He is the Exalted in Might, the Forgiving -
Jiss nay mot aur hayat ko iss liye peda kiya kay tumhen aazmaye kay tum mein say achay kaam kon kerta hai aur woh ghalib ( aur ) bakhshnay wala hai.
جس نے موت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے ، اور وہی ہے جو مکمل اقتدار کا مالک ، بہت بخشنے والا ہے ۔
وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو ( ف۳ ) تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے ( ف٤ ) اور وہی عزت والا بخشش والا ہے ،
جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے4 ، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی5 ۔
جس نے موت اور زندگی کو ( اِس لئے ) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے ، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :4 یعنی دنیا میں انسانوں کے مرنے اور جینے کا یہ سلسلہ اس نے اس لیے شروع کیا ہے کہ ان کا امتحان لے اور یہ دیکھے کہ کس ا نسان کا عمل زیادہ بہتر ہے ۔ اس مختصر سے فقرے میں بہت سی حقیقتوں کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے ۔ اول یہ کہ موت اور حیات اسی کی طرف سے ہے ، کوئی دوسرا زندگی بخشنے والا ہے نہ موت دینے والا ۔ دوسرے یہ کہ انسان جیسی ایک مخلوق ، جسے نیکی اور بدی کرنے کی قدرت عطا کی گئی ہے ، اس کی نہ زندگی بے مقصد ہے نہ موت ۔ خالق نے اسے یہاں امتحان کے لیے پیدا کیا ہے ۔ زندگی اس کے لیے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے امتحان کا وقت ختم ہو گیا ہے ۔ تیسرے یہ کہ اسی امتحان کی غرض سے خالق نے ہر ایک کو عمل کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دنیا میں کام کر کے اپنی اچھائی یا برائی کا ا ظہار کر سکے اور عملاً یہ دکھا دے کہ وہ کیسا انسان ہے ۔ چوتھے یہ کہ خالق ہی دراصل اس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا عمل اچھا ہے اور کس کا برا ۔ لہذا جو بھی امتحان میں کامیاب ہونا چاہے اسے یہ معلوم کرنا ہو گا کہ ممتحن کے نزدیک حسن عمل کیا ہے ۔ پانچواں نکتہ خود امتحان کے مفہوم میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ جس شخص کا جیسا عمل ہو گا اس کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی ، کیونکہ اگر جزا نہ ہو تو سرے سے امتحان لینے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :5 اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ بے انتہا زبردست اور سب پر پوری طرح غالب ہونے کے باوجود اپنی مخلوق کے حق میں رحیم و غفور ہے ، ظالم اور سخت گیر نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ برے عمل کرنے والوں کو سزا دینے کی پوری قدرت رکھتا ہے ، کسی میں یہ طاقت نہیں کہ اس کی سزا سے بچ سکے ۔ مگر جو نادم ہو کر برائی سے باز آجائے اور معافی مانگ لے اس کے ساتھ وہ در گزر کا معاملہ کرنے والا ہے ۔