Surah

Information

Surah # 67 | Verses: 30 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 77 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
الَّذِىۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا‌ ؕ مَا تَرٰى فِىۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ‌ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَۙ هَلۡ تَرٰى مِنۡ فُطُوۡرٍ‏ ﴿3﴾
جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے ۔ ( تو اے دیکھنے والے ) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھے گا دوبارہ ( نظریں ڈال کر ) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آ رہا ہے ۔
الذي خلق سبع سموت طباقا ما ترى في خلق الرحمن من تفوت فارجع البصر هل ترى من فطور
[And] who created seven heavens in layers. You do not see in the creation of the Most Merciful any inconsistency. So return [your] vision [to the sky]; do you see any breaks?
Jiss ney saat aasman uper talay banaye ( to aey dekhnay walay ) Allah Rehman ki pedaish mein koi bey-zaabtagi na dekhay ga. dobara ( nazren daal ker ) dekh ley kiya koi shigaf bhi nazar aaraha hai .
جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کیے ، تم خدائے رحمن کی تخلیق میں کوئی فرق نہیں پاؤ گے ۔ ( ١ ) اب پھر سے نظر دوڑا کر دیکھو کیا تمہیں کوئی رخنہ نظر آتا ہے؟
جس نے سات آسمان بنائے ایک کے اوپر دوسرا ، تو رحمٰن کے بنانے میں کیا فرق دیکھتا ہے ( ف۵ ) تو نگاہ اٹھا کر دیکھ ( ف٦ ) تجھے کوئی رخنہ نظر آتا ہے ،
جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے6 ۔ تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پآؤ 7گے ۔ پھر پلٹ کر دیکھو ، کہیں تمہیں کوئی خلل 8نظر آتا ہے؟
جس نے سات ( یا متعدّد ) آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ ( طبق دَر طبق ) پیدا فرمائے ، تم ( خدائے ) رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے ، سو تم نگاہِ ( غور و فکر ) پھیر کر دیکھو ، کیا تم اس ( تخلیق ) میں کوئی شگاف یا خلل ( یعنی شکستگی یا اِنقطاع ) دیکھتے ہو
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :6 تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 34 ۔ جلد دوم ، الرعد ، حاشیہ 2 ۔ الحجر ، حاشیہ 8 ۔ جلد سوم ، الحج ، حاشیہ 113 ۔ المومنون ، حاشیہ 15 ۔ جلد چہارم ، الصافات ، حاشیہ 5 ، المومن ، حاشیہ 90 ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :7 اصل میں تفاوت کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی ہیں ، عدم تناسب ۔ ایک چیز کا دوسری چیز سے میل نہ کھانا ۔ انمل بے جوڑ ہونا ۔ پس اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات میں تم کہیں بد نظمی ، بے ترتیبی اور بے ربطی نہ پاؤ گے ۔ اللہ کی پیدا کردہ اس دنیا میں کوئی چیز انمل بے جوڑ نہیں ہے ۔ اس کے تمام اجزاء باہم مربوط ہیں اور ان میں کمال درجے کا تناسب پایا جاتا ہے ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :8 اصل میں لفظ فطور استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں دراڑ ، شگاف ، رخنہ ، پھٹا ہوا ہونا ، ٹوٹا پھوٹا ہونا ۔ مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات کی بندش ایسی چست ہے ، اور زمین کے ایک ذرے سے لے کر عظیم الشان کہکشانوں تک ہر چیز ایسی مربوط ہے کہ کہیں نظم کائنات کا تسلسل نہیں ٹوٹتا ۔ تم خواہ کتنی ہی جستجو کر لو ، تمہیں اس میں کسی جگہ کوئی رخنہ نہیں مل سکتا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ ق ، حاشیہ 8 ۔